... loading ...
اچھاہوگا کہ ملک کے اندر حکومتیں تمام تر خامیوں اور کمزویوں کے باوجود اپنی مدت پوری کریں ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آخری بجٹ بھی پیش کردیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاناما کیس اور جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد کیا منظرنامہ ہوگا ۔اور اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟۔ اصولی طور پر عوام ہی احتساب کرنیوالے ہیں لیکن بد قسمتی سے عوام بد عنوان اور مافیا سیاسی جماعتوں کے فریب میں مبتلا ہیں۔ عوام ہی بد عنوان لوگوں اور جماعتوں کو خود پر مسلط کرتے ہیں ۔ بلوچستان کے اندر بھی ایسا نقشہ ہے اور کوئی بڑی تبدیلی کے آثار آئندہ بھی دکھائی نہیں دیتے۔ بلوچستان حکومت نے بھی مالی سال2017-18 کا بجٹ پیش کردیا۔ یہ بجٹ3کھرب28ارب روپے سے زائد مالیت کا ہے جس میں 52 ارب 13 کروڑ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ حکومت 52ارب روپے کا خسارہ سی پیک اور ریکوڈک سے پورا کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ایک سال کے اندر سی پیک آب و تاب پر آجائے گا اور کیا ریکوڈک بھی اس سال فعال ہوکر کمانا شروع کردے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ریکوڈک منصوبہ عضو معطل ہے۔ ٹھیتیان کمپنی عالمی ثالثی عدالت میں گئی ہے اس وقت تک اس کمپنی کو حکومت پاکستان کے خلاف برتری حاصل ہے اور حتمی فیصلہ کے بعد حکومت کو لینے کی بجائے دینے پڑیں گے۔ اور یہ بہت بڑی رقم ہوگی ،جو کمپنی کو ادا کرتے ہوئے حکومتوں کے ہوش اُڑ جائیں گے۔بہر حال کوئی بھی بجٹ برا نہیں ہوتا کہ اگر اس پر عملدرآمد ایمانداری سے ہو تو خامیاں اثر انداز نہیں ہوتیں۔ ضروری ہے کہ نئے منصوبوں اور اقدامات پر مقررہ میعاد کے اندر مربوط اور شفاف طریقے سے عمل کیا جائے۔ پیش ازیںبلوچستان حکومت نے35ہزار ملازمتوں کا اعلان کردیا تھا جس میں اب تک صرف چند سو ملازمتوں پر ہی بھرتیاں ہوسکی ہیں۔ چنانچہ موجودہ بجٹ میں 7971 مزیدنئی آسامیوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ گوادر کی ترقی اب تک مستقبل کے صیغوں میں لپٹی ہوئی ہے ۔سالوں سے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان ہورہا ہے مگر منصوبے ہیں کہ پایہ تکمیل تک پہنچ نہیں پارہے ، نہ ہسپتال بن سکا نہ ہی بجلی پیدا کی جاسکی حتیٰ کہ گوادر کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے۔ شہر کو اطراف کے علاقوں سے ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی ہورہی ہے اور عوام ہزاروں روپے فی ٹینکر پانی خریدنے پر مجبو ر ہیں۔ کھارے پانی کو میٹھا بنانے کا پلانٹ لگااور تب سے اب تک خراب ہے ۔ اس بجٹ میںکھارے پانی کو میٹھا بنانے والے پلانٹ کا منصوبہ پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ بلوچستان میں زراعت تباہی سے دو چار ہے۔ بلکہ تباہ ہوچکی ہے، ایسا بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور زیر زمین پانی کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس جانب خاطر خواہ توجہ نہ ماضی اور نہ ہی اب دی جارہی ہے۔ صوبے میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ مگر نا اہلی ، سست روی اور مستقبل کی منصوبہ بندی و ضروریات کا شعور نہ ہونے کی بنا ایسا نہ ہو پایا ۔ ٹی وی چینلز پر اشتہارات کے ذریعے بلوچستان حکومت نے بھی تعریف اور کامیابیوں کے پل با ندھ رکھے ہیں۔ گویا یہ باور کرایا جارہا ہے کہ عوام سے کئے گئے تمام وعدے پورے کرلئے گئے اور باقی ماندہ مدت پوری ہونے تک صوبہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا۔ اس تناظر میں ظلم عظیم شہر کوئٹہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ صوبائی دار الخلافہ ہونے کے باوجود یہ شہر جملہ مسائل سے دو چار ہے ۔ بجٹ سے قبل بڑی عجلت میں سڑکیں بنائیں گئیں۔ سچ پوچھئے کہ بجٹ کے دن تک یعنی15جون 2017 تک ان ترقیاتی کاموں کا پول کھل گیا۔ سڑکیں اُکھڑ گئیں جگہ جگہ گڑھے بن گئے انتہائی ناقص میٹریل کا استعمال ہوا۔ اکثر جگہوں پر سڑکوں کو ہموار کرنے کی خاطر رولر تک چلا یا نہیںگیا۔ جناح روڈ شہر کی مرکزی شاہراہ ہے جو پچھلے دو ماہ سے مرمت کی غرض سے اکھاڑ دی گئی ہے، کچھ حصے پر تعمیر کا کام مکمل ہوا ہے تکمیل شدہ حصہ ناقص میٹریل اور بد عنوانی کی بد ترین مثال ہے۔ باقی ماندہ حصہ ابھی تک تعمیر نہیں کیاجاسکا ہے جو سنگین نوعیت کے حادثات کا باعث بنا ہوا ہے ۔ روز موٹرسائیکل سوار گررہے ہیں اب تک درجنوں افراد بری طرح زخمی ہوچکے ہیں حتیٰ کہ شہباز ٹائون کا ایک رہائشی حاجی نجم موٹر سائیکل گرنے کے باعث جاں بحق ہوا۔ حکومت اور انتظامیہ کو کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری جب چین کے دورے سے آئے تو دورہ کی تفصیلات کیلئے صحافیوں کو بلایا۔ راقم نے موقع غنیمت جان کر وزیر اعلیٰ کی توجہ جناح روڈ کی بربادی اور حادثات کی جانب مبذول کرائی ۔ وزیراعلیٰ نے شہر کا دورہ کرنے کا کہا، مگر اس موقع پر پشتونخوامیپ کے ایک وزیر عبدالرحیم نے فوراً مداخلت کی اور کہا کہ شہر میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں، عوام کچھ زحمت برداشت کریں۔ شہر میں کتنا ترقیاتی کام ہورہا ہے اور کس معیار اور انصاف سے ہورہا ہے سے وزیر موصوف بے خبر نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شہر کوئٹہ کی ’’درگت‘‘ بنی ہوئی ہے۔ اس شہر کا جیسے کوئی والی وارث نہیں ۔ عوام بے بسی کی مثال بنے ہوئے ہیں ۔سیاسی جماعتیں جو اسمبلی میں نہیں ہیں محض بیانات تک محدود ہیں ۔ حزب اختلاف پر مسلم لیگ نواز کی اتحادی ہونے کا تاثر نمایاں ہے ۔ان کی نگاہیں محض پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی خامیوں پر مرکوز ہیں ۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن تو اول روز سے مرحوم ہے۔ پینے کا صاف پانی دن بدن کمیاب ہورہا ہے اب بھی ایک غالب آبادی پانی خرید رہی ہے۔ جگہ جگہ نجی ٹیوب ویل بنے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد سینکڑوں میں ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہت تیزی سے گررہی ہے۔ نجی ٹیوب ویل ہر گزرتے دن کے ساتھ بن رہے ہیں ۔ پانی لے جانیوالے ٹینکر الگ مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ہزاروں ٹریکٹر ٹینکر شہر کی سڑکوں پر دن رات دوڑتے نظر آتے ہیں ۔واسا اول شہریوں کو حسب ضرورت پانی دینے میں ناکام ہے، ان کے دھندے و کالے کرتوت الگ، دوئم بڑے پیمانے پر لوگوں نے غیر قانونی کنکشن لے رکھے ہیں مزید برآں اسی فیصد لوگ بل ادا نہیں کرتے۔بقول واسا کہ ان کی آمدن سالانہ پانچ کروڑ اور اخراجات ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے ہیں۔ تیس لاکھ کی آبادی میں رجسٹرڈ صارفین کی تعداد صرف 82ہزار ہے ۔ جس میں محض بیس فیصد صارفین بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ نا دہندہ صارفین کے ذمے 85کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ ان میں 56کروڑ 35لاکھ روپے کے واجبات گھریلو صارفین جبکہ کمرشل صارفین کے ذمے بائیس کروڑ 29لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔ سرکاری محکموں پربھی سات کروڑ روپے کے واجبات ہیں۔ گویا واسا بل وصول کرنے میں بھی ناکام ہے۔ دراصل شہری حکومتوں کی کوئی وقعت ہی نہیں ۔ترقیاتی فنڈز ایم پی ایز کے ذریعے خرچ ہو رہے ہیں۔ غرضیکہ حکومت ایک دار الخلافہ کو مسائل سے نہیں نکال سکی تو عوام پورے صوبے کی ترقی کا کیسے یقین کر یں گے ۔ پچھلے بجٹ میں شہر کوئٹہ میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر10ارب روپے کی لاگت سے پٹ فیڈر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ نصیرآباد سے پائپوں کے ذریعے کوئٹہ کو فراہمی آب کا منصوبہ پیش کیاگیا ۔مابعد اس منصوبے کی بازگشت سنائی نہ دی گئی ۔حکومت وضاحت کرے کہ اس منصوبے کا کیا بنا؟ شہر کوئٹہ میں بارشوں کے پانی کی نکاسی کی خاطرایک بڑا منصوبہ مکمل کیا جاچکا ہے۔جس کے لئے اڑھائی ارب روپے مختص کئے گئے تھے ۔ چنانچہ منصوبہ مسائل میں گھرے شہر کے لئے بجائے خود ایک اور سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ گویا شہر کی شاہرا ہیں مزید تباہی سے دو چار کرد ی گئیں۔ منصوبے سے نکاسی آب کا مسئلہ تو حل نہ ہو سکاالبتہ اب ان سیوریج لائنوں کو خود دیکھ بھال اور صاف کرنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ ان نالوں پر رکھے سیل کے ٹوٹنے سے روز حادثات ہو رہے ہیں ۔ گویاشہر اور شہریوں سے ظلم ہوا ہے ، لہذا مجاز اداروں کو اس کی باز پُرس بہر حال کرنی چاہیے ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں امن وامان کیلئے14فیصد اضافہ کیا گیا اس مد میں30ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ چنا ں چہ بلوچستان میں مفاہمت کی فضاء پیدا ہوگی تو لا محالہ یہ بڑی رقم صوبے کی ترقی و خوشحالی پر خرچ ہوگی ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس شہر اور صوبے کو پُرسان حال کی ضرورت ہے ۔
٭٭……٭٭