... loading ...
بلوچستان میں داعش نامی تنظیم کے ٹھکانوں پر سردست فوج نے کنٹرول حاصل کرلیا ۔ان کے کئی اہم کمانڈرز اور دوسرے ارکان مارے گئے ۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی پیشرفت اور کامیابی ہے۔ خیرپہلے نوابزادہ گزین مری کی واپسی کی خوشگوار اطلاع کی بات کرتے ہیں۔آخر میں کچھ ذکر داعش کا کرتے ہیں۔ وہ اس طرح ہے کہ 8جون 2017 کو ملک کے اخبارات میں خبر چھپی کہ نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ گزین مری نے جلا وطنی ترک کرکے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ نوابزادہ گزین مری مسلم لیگ نواز کے رہنماء صوبائی وزیر آبپاشی اور مری قبیلے کے نواب، جنگیز مری اور شدت پسند بلوچ رہنمائوں، نوابزادہ بالاچ مری مرحوم، نوابزادہ حیربیار مری اور نوابزادہ زامران مری کے بھائی ہیں۔ حیربیار مری مبینہ طور پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور زامران یونائیٹڈ بلوچ آرمی(یو بی اے ) کے سربراہ ہیں۔ یہ دونوں بھی بیرون ملک پناہ لئے ہوئے ہیں۔ گویا خودکو اپنے والد نواب خیر بخش مری کے فکری وارث سمجھتے ہیں۔ نواب خیر بخش مری صوبائی خود مختاری اور حق خودارادیت کے بڑے علمبردار تھے ۔ اپنی اس سوچ پر تادم مرگ قائم رہے۔ البتہ افغانستان سے آنے کے بعد وہ پاکستان ہی میں مقیم رہے۔ علیحدگی کی سوچ رکھنے والی بلوچ تنظیمیں انہیں اپنا فکری و نظریاتی رہبر سمجھتی ہیں۔ نوابزادہ بالاچ مری جو2002کے الیکشن میں پی بی23کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد وہ اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے ۔ انہی دنوں بالاچ مری نے بی ایل اے کو دوبارہ فعال اور سرگرم کیا۔حکومت اور فورسز کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا۔ اور خود براہ راست اس کی کمانڈ کرتے رہے۔ بی ایل اے کے مختلف اضلاع میں کیمپ قائم کردیئے۔ خود پاک افغان سرحدی علاقوں میں منتقل ہوگئے جہاں سے وہ افغانستان آتے جاتے رہتے۔ اس طرح 21نومبر2007کو بالاچ مری کا افغانستان میں انتقال ہوا ۔البتہ ان کی تنظیم نے پاکستان کی فورسز پر بالاچ مری کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔ بالاچ مری کی تدفین کسی نامعلوم مقام پر کردی گئی۔ بالاچ مری کے انتقال کے بعد بی ایل اے کی کمانڈ حیربیار مری نے سنبھال لی جن کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی زامران مری بھی شریک کار رہے۔ آخر کار زامران نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے الگ مزاحمتی دھڑا قائم کرد یا۔ اس گروہ نے بلوچستان کے اندر بڑی سفاکانہ کارروائیاں کیں۔ یو بی اے کا اہم کیمپ مستونگ کے ُان پہاڑی سلسلوں میں قائم تھا جہاں حالیہ دنوں فورسز نے داعش اور لشکر جھنگوی العالمی کے ٹھکانوںکو تباہ کیا۔نوابزادہ حیربیار بھی1997کے عام انتخابات میں پی بی18 کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان کے پاس وزارت کا قلمدان بھی تھا۔ غرضیکہ غالباً2000ء میں گزین مری بھی پاکستان سے نکل گئے اور دبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ اگرچہ ان پر کسی مسلح تنظیم سے وابستگی کے کوئی واضح اشارے نہیں ملے ہیں تاہم وہ مختلف مواقعوں پر بلوچستان کی آزادی کا اظہار کرچکے ہیں۔ حکومت پاکستان متحدہ عرب امارات سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کرچکی تھی۔ گزین مری ایک بار دبئی میں حراست میں بھی لئے گئے۔ مگر انہیں پاکستان کے حوالے نہ کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے اداروں نے اپنے طور پر ضرور ان سے تفتیش کرلی تھی۔ نوابزادہ گزین مری نے پی بی18کوہلو سے انتخاب لڑااور بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ 1993کے عام انتخابات تھے ۔انہی انتخابات میں نواب جنگیز مری بھی پی بی16سبی سے کامیاب ہوئے تھے۔ نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلیٰ بنے۔ 20اکتوبر1993 تا8نومبر1996 تک کی ان حکومت میں نوابزادہ گزین مری صوبے کے وزیرداخلہ رہے۔ نواب جنگیز مری کے پاس تب مواصلات و تعمیرات کے محکمہ کا قلمدان تھا۔ نواب خیربخش مری کے ایک اور صاحبزادے حمزہ مری بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔ حمزہ مری سیاسی دلچسپیاں نہیں رکھتے، یعنی گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نوابزادہ گزین مری نے واپسی کا فیصلہ کرنے میں تاخیر ضرور کی ہے تاہم دیر آیددرست آید کے مصداق ہے ۔ خاندان کی جانب سے جنگیز مری کو اپنے طرز سیاست ،مقتدرہ سے قربت اورمسلم لیگ نواز سے وابستگی پر شدید مخالفت کا سامنا ہے ۔ نواب خیر بخش مری مرحوم بھی جنگیز مری سے نالاں تھے۔ان سے موافقت سیاسی اور قبائلی دونوں حوالوں سے گزین مری کو بھی نہیں ہے ،جس کا اظہار وہ حال ہی میں کر چکے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ حیر بیار اور زامران کی شدت پسندی اور کشت و خون کی سیاست کی مخالفت میں اب جنگیز مری تنہا نہیں رہے۔ گزین مری کی راہیں اب حیربیار اور زامران سے الگ ہوچکی ہیں۔ انہوں نے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی مذمت کی ہے ۔ بقول گزین مری کے وہ پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کرینگے۔ گزین مری جسٹس نواز مری قتل کیس میں نامزد ہیں۔ گزین مری کی واپسی سے حیربیار مری اور زامران کے اثرات مزید کم ہوں گے۔اور مسلح مزاحمت کی بجائے سیاسی و آئینی جدوجہد کی سوچ کو فروغ حاصل ہوگا۔ بلوچستان میں مسلح بلوچ تنظیموں کی پہلے والی پوزیشن اب نہیں رہی تاہم یہ اپنا وجود برقرار رکھی ہوئی ہیںجوحکومت اور تحفظ کے اداروں کے لئے پریشانی اور عدم اطمینان کا باعث ہے۔ کیونکہ وقتاً فوقتاً کہیں نہ کہیں ان کی جانب سے تخریبی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف لشکر جھنگوی العالمی نے بالخصوص بلوچستان کے ضلع مستونگ کے پہاڑی سلسلوں میں کیمپ بنانے کی کوشش کی۔ یہ تنظیم اب افغانستان میں موجود داعش سے منسلک ہوچکی ہے۔ مستونگ سے متصل علاقوں اور کوئٹہ میں ان کے ارکان پھر سے فعال ہوچکے ہیں۔ یکم جون سے 3جون تک مستونگ کے کوہ سیاہ کے مختلف دروں اور غاروں میں پاک فوج نے مسلسل آپریشن کے بعد اس تنظیم کے 12اہم افراد کو ہلاک کردیا۔ ان ٹھکانوں میں داعش سندھ چیپٹر کے سربراہان حفیظ بروہی اور عبداللہ بروہی موجود تھے۔ سندھ میں ہونیوالے مختلف واقعات کے بعد ان کے نام منظر عام پر آئے۔ اس آپریشن میں شکار پور سے تعلق رکھنے والا داعش کا اہم کمانڈر زاہد محمود اعوان پکڑا گیا ۔ اطلاع ہے کہ وہ آپریشن کے دوران مارا گیا ہے تاہم سوشل میڈیا پر جو تصاویر جاری ہوئیں اس میں زاہد محمود اعوان حراست میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ دراصل اس کیمپ کو بنانے والا، فاروق بنگلزئی ہے جو افغانستان کے علاقے ننگرہار میں موجود ہے ۔ اس شخص کا شمار بلوچستان میں لشکر جھنگوی کے چند ایک بڑے لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ کیمپ میں فاروق بنگلزئی کا چھوٹا بھائی اعجاز بنگلزئی نائب کی حیثیت سے موجود تھا۔ آپریشن رد الفساد کے دوران اعجاز بنگلزئی دیگر ساتھیوں کے ہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ 24مئی کو کوئٹہ کے جناح ٹائون سے اغواء ہونیوالے دو چینی باشندوں کو اسی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ یہ لوگ فرار ہوتے وقت چینی باشندوں کو بھی ساتھ لے گئے، جس کے فوراً بعد ان کے قتل کی ویڈیو جاری کردی گئی اور داعش نے ذمہ داری قبول کرلی۔ اسی کیمپ سے سندھ کے اندر مختلف خودکش حملوں حتیٰ کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے کی منصوبہ بندی کی جاچکی تھی۔ یہاں آئی ای ڈیز اور خودکش جیکٹیں بنائی جاتی تھیں ۔ اس کیمپ میں آئندہ نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی تربیت کے ایک بڑے بندوبست کی منصوبہ بندی پر کام ہورہا تھا۔ انہی پہاڑی سلسلوں میں بلوچ شدت پسند تنظیم یو بی اے کے ٹھکانے اب بھی موجود ہیں۔ اطلاع ہے کہ اس کالعدم مذہبی تنظیم کے ایک اہم کمانڈر نے افغانستان سے آکر مستونگ کے گردونواح کا دورہ کیا ہے بالخصوص مرؤ ، اسپلنجی اور اس سے متصل علاقوں کے عوام کو حکومت سے تعاون نہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ گویا یہ علاقے بدستور حساس ہیں۔ آپریشن رد الفساد کے بعد ان پہاڑوں میں ایف سی کی چوکیاں قائم کردی گئی ہیں تاکہ پھر سے مسلح جتھے وہاں قدم نہ جمائیں ۔اس بات کی گردش بھی ہوئی کہ چینی باشندوں کی لاشیں مستونگ کے’’ یارُو‘‘نامی علاقے میں پھینک دی گئی ہے ۔مگر اب تک فورسز لاشیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ۔ داعش پاکستان اور افغانستان کے لئے اس وقت کا بڑا خطرہ ہے اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے دونوں ممالک کو مربوط میکنزم پر اتفاق اور عمل پیرا ہونا ہو گا۔ داعش تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی یہ تمام کالعدم تنظیمیں افغانستان سے آپریٹ ہورہی ہیں۔ افغان حکومت ان کے خلاف لڑنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ داعش کے خوف سے افغانستان کی بعض بڑی شخصیات ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں جن میں شمال کی ایک اہم شخصیت کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ افغان حکومت اگر داعش سے اپنا ملک صاف اور محفوظ بنانے میں سنجیدہ ہے تو اسے پہلے اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھارت کو ان تنظیموں کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور افغانستان میں خارجی افواج اور بھارت کی موجودگی میں یہ تنظیمیں یقینی طور پر مزید جڑ پکڑیں گی۔ البتہ پاکستان ہی حقیقی دوست اور مددگار بن سکتاہے کیونکہ پاکستان خود اس جنگ کا شکار ہے ۔ بلکہ ایران کے اندر داعش کے حملوں کے بعد سہ ملکی اشتراک کار ہونا چاہئے۔ یوں افغانستان میں ان جتھوں کو ختم کرنے میں آسانی ہوگی۔
٭٭…٭٭