... loading ...
میں ہر گز یہ نہیں کہوں گا کہ ملک میں فساد پیدا کرنے والے اور معصوم انسانوں کو قتل کرنے والوں کی سرکوبی میں تحفظ کے ادارے مطلق ناکام ہیں یقیناً خامیاں کوتاہیاں موجود ہیں مگر ان اداروں کو زبردست کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ اس جنگ میں ان اداروں کو جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ پولیس اور لیویز اولین ہدف تھے۔ پولیس کے جوانوں اور آفیسروں کی شہادتوں کی فہرست بہت طویل ہوچکی ہے ۔ اس فہرست میں نیا نام ڈی ایس پی عمر الرحمان کا شامل ہوا۔ عمر الرحمان کو ماہ مبارک کے دوسرے دن روزہ افطار کرنے کے بعد نما زمغرب کی ادائیگی کے لیے مسجد جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ۔ بھتیجا سب انسپکٹر بلال شمس بھی شدید زخمی ہوا ۔ بلال شمس ڈی ایس پی شمس الرحمان کے بیٹے ہیں ۔ شمس الرحمان بھی 8اگست2013ءکو رمضان المبارک ہی میں پولیس لائن خودکش دھماکے میں شہید ہوئے تھے۔ غرضیکہ دہشتگرد اسی طرح اغوا کار پھر سے اپنی قوت جوڑ چکے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ متحرک ہونے والا یہ نیا نیٹ ورک زیادہ دیر تک قائم رہے گا البتہ انجام تک پہنچتے پہنچتے یہ معاشرے کو نقصان بھی پہنچائیں گے۔ جہاں تک خامیوں کی بات ہے تو اس حوالے سے قانون نافذ کرنےوالے ادارے خواب غفلت میں رہے ہیں۔ جس کا منطقی نتیجہ ان گروہوں کے مضبوط ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔ اس جرم و غفلت میں سیاسی و سماجی تنظیموں حتیٰ کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی شامل رہے ہیں جس کی وجہ سے ناپسندیدہ لوگ اثرو نفوذ حاصل کرتے رہے۔ پولیس کا رویہ ان عناصر کے خلاف عاجزانہ رہا ۔ سالوں دہشتگردوں کی تباہ کاریوں پر زبانیں گنگ رہیں۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ دہشتگردوں کے عملیات کو درست ثابت کرنے کے لیے بڑے بڑے لکھاری، دانشور ، سیاستدان دلیل و جواز فراہم کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ گویانسل و زبان اور فرقہ کی بنیاد پر انسانوں کو قتل کرنے والے جتھوںکے وکیلوں کی کمی نہ تھی۔مارچ2014ءمیں کوئٹہ کے جناح روڈ پر سائنس کالج کے بالمقابل دھماکا ہوا۔ تقریباً گیارہ افراد جھلس کر موت کی نیند سوگئے۔ اُسی روز ہاکی گراؤنڈ میں ایک مذہبی جماعت کا جلسہ ہورہا تھا۔ چونکہ دھماکے کی کوریج کے لیے پورا میڈیا موقع پر پہنچ گیا۔ دھماکے کی صورتحال براہ راست دکھائی جارہی تھی کہ اسی اثنا اس جماعت کا ایک رہنما چند اسلحہ و ڈنڈا بردار افراد کے ہمراہ آیا۔ وہاں موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو برا بھلا کہا ، توہین اور ہتک آمیز الفاظ سے مخاطب کیا۔ کیمروں کی کیبلیں کھینچ کر نکال لیں۔ یہاں تک کہ تمام صحافیوں کو زبردستی جلسہ گاہ لے گئے۔ یہ سارا تماشا پولیس اور ایف سی حکام اور اہلکار دیکھ رہے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے افراد پر سکتہ طاری تھا۔ یقین جانیے کہ اس زیادتی اور بدمعاشی پر صحافی تنظیموں کی جانب سے مذمت کے نرم بول تک ادا نہیں کیے گئے ۔ حکومت و پولیس بے خوف ہوتی تو کیا کسی کو اس طرح معاشرہ یرغمال بنانے کی جرا¿ت ہوتی؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آنکھیں بند نہیں ہونی چاہئیں ۔ فتنہ و فساد کو پھیلنے سے قبل ہی مٹا دینا چاہیے۔ کسی کے شر کی ڈر کے بجائے اللہ رب العزت کا خوف ہونا چاہیے کہ وہی عزت و ذلت اورموت و حیات پر قادر ہے۔ ذرا پھرتی دیکھیے کہ مہینوں تین چینی افراد جن میں دو خواتین ہیں ،شہر کوئٹہ کے مختلف مقامات میں رہائش پذیر رہے ۔ وسطی شہر اور مضافات کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں ان غیرملکیوں کو نہ دیکھا گیا ہو۔ آخر کار 24مئی کو جناح ٹاؤن سے کار میں سوارمسلح افراد آئے اور آرام سے ایک مرداور خاتون کو اغوا کرلیا۔ ایک چینی خاتون ایک شہری محمد ظاہر درانی کی مداخلت پر اغواءہونے سے بچ گئیں۔ جناح ٹاؤن کوئٹہ کا پوش علاقہ ہے ۔ قریب تھانہ واقع ہے ویسے بھی علاقے میں سیکورٹی موجود رہتی ہے یوں اس حصار کے باوجود یہ غیر ملکی اغواءہوگئے۔ اس سے بڑھ کر حیرت اس بات پر ہے کہ یہ افراد سالوں مہینوں سے کوئٹہ میں مقیم ہےں اور ان کی حرکات و سکنات اور دلچسپیوں کی کسی کو بھنک نہ پڑی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ کوئٹہ میں عیسائیت کے مبلغ بنے پھر رہے تھے۔ یہاں تک کہ گھروں میں جاکر بھی عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے ۔ دلچسپی پر مبنی مختلف پروگرام کرچکے تھے، جن میں خاکوں کے ذریعے اپنی بات کی سچائی لوگوں کو باور کرانے کی اپنے طور سعی کرتے رہے۔ ذرا سوچیے کہ یہ لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے ۔ پاکستان اور چین بے شک دوست ممالک ہیں اور سی پیک کے نام سے تجارت بھی درست، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چینی باشندے پاکستان کے اندر دندناتے پھریں۔ جو من چاہے وہ کریں ۔ چنانچہ پولیس اور انتظامیہ کو ان کے خلاف بہت پہلے حرکت میں آجانا چاہیے تھا تاکہ نوبت یہاں تک پہنچتی ہی نہیں۔ ان کو نا پسندیدہ قرار دے کر ڈی پورٹ کرنا چاہیے تھا بلکہ انہیں قانون کی گرفت میں لے لینا چاہیے تھا تاکہ آئندہ کوئی اور چینی ایسی حرکت کی جرا¿ت نہ کرتا۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے ۔ ایسے میں پولیس سمیت ہر ادارے کو جاگتے رہنا چاہیے ۔ ایک حساس اور غور طلب مسئلہ شہر اور گردو نواح میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کا غیر ضروری استعمال ہے۔جہاں فجر کی نماز کے بعد مولوی حضرات لاؤڈ اسپیکر آن کرکے تقریباً گھنٹہ ڈیڑھ شعلہ بیانی شروع کردیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں عصر کی نماز کے بعد بھی لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے مغرب سے کچھ دیر قبل تک فضاءان کی تقاریر سے گونج رہی ہوتی ہے اور ایسے ایسے حساس موضوعات پر تقاریر ہورہی ہوتی ہےں کہ انسان د نگ رہ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مساجد کے لاوڈ اسپیکرز میں جہادی ترا نے بج رہے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ اور نہ ہی محلوں کے اندر کسی کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے کہ وہ ان مولوی حضرات کو لاؤڈ اسپیکرز کے اس بے جا استعمال سے منع کریں ۔اوران مولوی صاحبا ن کی اکثریت غیر ملکی یعنی افغان باشندوں کی ہے۔حکومت ،پولیس ،شہری حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی یہ غفلت،لا پرواہی اور کمزوریاں مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہےں ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ شہری حکومت اور ضلعی انتظامیہ مہینوں سے شہر کے اندر شاہراہوں پر تھڑے توڑنے پر مامور ہےں۔ دیکھا جائے تو ان کی ذمہ داریاں اور بھی ہیں، جسے ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ غرضیکہ حکومت اور اداروں کو اپنی رٹ پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ۔ نہ صرف دہشتگردوں بلکہ ان کے حامیوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کے خلاف بھی آہنی قوت و عزم کے ساتھ کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔ ڈی ایس پی عمر الرحمان مقدس ساعت میں شہید ہوئے اللہ درجات بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ سب انسپکٹر بلال شمس کو صحت اور زندگی دے ۔ اللہ قاتلوں اور زمین پر فساد پھیلانے والوں کو اپنی قدرت سے نامراد و نابود کرے ۔