... loading ...
وہ خود کہتی ہیں کہ
میری تشکیک دلیلوں سے کہیں آگے ہے
” کیا “ سے خالی کبھی ہوتی ہوں نہ ” کیوں “ سے خالی
یہی تخیل فن اور فطرت کے تعلق کی پردہ کشائی کرتا ہے ۔ اسی لیے فنکاروں کو معاشرے کا اعلیٰ ترین طبقہ قرار دیا جاتا ہے ۔پروفیسر راشدہ ماہین ملک کے سفر نامہ بھارت ” دل والی دلی میں “ کا مطالعہ اگر چہ میں نے بہت دیر سے کیا لیکن کتاب پڑھنے میں بڑا لُطف آیا ۔ عمدہ تحریر مصنفہ کے گہرے مشاہدے کی عکاس ھے جس میں اپنی تاریخ ، اردو ادب سے دلچسپی اور غالب سے محبت اور عقیدت کا والہانہ اظہار ملتا ہے ۔ اس ادبی سفر نامے کو پڑھ کر یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ” تخیل سے تخلیق بھی وہی کر سکتا ہے جس کی جڑیں زندگی میں خوب مضبوطی سے گڑی ہوں ۔“
مجھ سے ہوتا ہی نہےں ترکِ رہِ شوقِ سفر
سو مےں کرتی ہی نہےں دل کو جنوں سے خالی
پروفیسر راشدہ ماہین ملک کی ادبی صلاحیت، غیر معمولی بصیرت و قوت ِ مشاہدہ نے تخیل اور تخلیق کے تعلق کو ” شال میں لپٹی رات “ اور ”باغ “ کی صورت میں پہلے ہی ادبی حلقوں میں تسلیم کر والیا تھا جبکہ اقبالیات سے وابستگی نے اُن کی سوچ میں توازن کے موتی پروئے اور اُنہیں نثر پر بھی کامل گرفت عطا کی ۔
”دل والی دلی میں“ اُن کے ایک مختصر ادبی دورے کی رُوداد ہے ۔ لیکن یہ اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ قاری کتاب ختم ہونے تک اُس کے سحر سے باہر نکل ہی نہیں پاتا ۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اور حقائق کی تلخی کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ پاکستان سے کوئی خاتون تن تنہا واہگہ بارڈر عبور کر ے ، لکھنؤ اور دہلی مےں مشاعرے لوٹے اور واپس آ جائے ۔ لیکن راشدہ نے اپنے کہے کا مان رکھا اور دل کو جنوں سے خالی نہیں ہونے دیا ۔ اُس کے اعتماد اور جرا¿ت کو ناصر علی سید نے کتاب کی اشاعت کے موقع پر حیرانگی سے تسلیم کیا تھا اور اب کتاب کا ہر قاری راشدہ ماہین ملک کے اعتماد اور جنون کا معترف ہے ۔
جمیل اصغر کی جانب سے لکھنؤ کے مشاعرہ میں شرکت کی دعوت سے لے کر سفر کا ارادہ باندھنے ، ویزا کے حصول ، واہگہ بارڈر عبور کر کے امرتسر پہنچنے ، دہلی لکھنؤ اور پھر واپسی کا احوال، غرضیکہ اس سفری روداد کا ہر حصہ دلچسپ ، معلومات اور تاریخ سے جڑا نظر آتا ہے ۔ ایک ادبی دورے کو اس قدر خوبصورت انداز میں قلمبند کیا گیا ہے کہ قاری کہیں بھی بوریت یا بوجھل پن محسوس نہیں کرتا ۔ سرحد کی لکےر کے اُس اور اِس پار کے بارے میں جاننے کی خواہش دونوں اطراف کے باسیوں کے دل میں گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے مچل رہی ہے ۔ تقسیم ہند کو دونوں طرف آزادی قراردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے فیض احمد فیض ، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد اور عابد علی عابد کا نقطہ نظر بھی موجود ہے ۔ فیض احمد فیض نے اس آزادی کو داغ داغ اُجالا کہا تھا ۔ تقیسم ہند کے بعض حقائق خاصے ہی نہیں بہت زیادہ تلخ ہیں جیسے کہ فراق گورکھپوری کو کہنا پڑا تھا کہ ” تقسیمِ ہندوستان نے حضرت محروم سے ضعیفی میں اور آزاد سے جوانی میں ان کا محبوب وطن چھُڑا دیا “۔۔۔ میری مٹی کے عظیم فرزند ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی ایک نظم کے آخری اشعار دیکھ لیجیے کس کرب کے مظہر ہیں ۔
وطن کی اے مقدس سر زمیں احساس بھی کچھ ہے
کہ تُجھ سے چھٹ کے تیرے سوختہ جانوں پہ کیا گزری
تُجھے اے کاش دہلی اور شملہ یہ بتا سکتے
میانوالی کے صحرا تیرے دیوانوں پہ کیا گزری
شعوری یا لا شعوری طور پر انڈیا جانے والا ہر پاکستانی ان احساسات کو اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے ۔ مشاعرہ پڑھنے کے لیے جانے والی راشدہ اپنے سفر ی تجربات اور مشاہدات کو جس انداز میں بیان کرتی ہیں وہ ان کے تخیل کی صداقت کا اظہار یہ بن جاتا ہے ۔ اٹاری بارڈر پر امرتسر جانے والے کیری ڈبہ میں بیٹھتے ہی اُن کے پہلے احساسات کی گہرائی ان سطور میں محسوس کی جا سکتی ہے کہ ” میں ارد گرد کھیتوں کو دیکھتی ہوئی سوچتی جا رہی تھی کہ یہ تو پاکستان جیسے کھیت ہیں ۔ ہوا بھی ویسی ہی ہے۔ اور آکسیجن لیول بھی وہی ہے ۔ کچھ بھی تو بدلا بدلا دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اگر کچھ تبدیلی دکھائی دے رہی تھی تو وہ یہ کہ جو شخص نظر آتا تو اُس کا لباس اور حُلیہ روایتی سکھ سرداروں جیسا نظر آتا ۔ سڑک کے کنارے ایک شخص نظر آیا تو میں نے بے خیالی میں کیری ڈبہ کے سکھ بابا سے پوچھا یہ شخص سکھ سردار تو نظر نہیں آتا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سردار نہیں لالہ ہے ۔۔‘
راشدہ ماہین ملک کی ان ابتدائی سطور نے تقسیم ہند کا فلسفہ بیان کر دیا ۔امرتسر سے دہلی تک کے سات گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد جب آدھی رات گئے وہ دہلی کی سڑکوں سے گزر رہی تھیں تو شب کے سناٹے اور سکوت میں غالب نے اُس کے دل و دماغ پر بسیرا کر لیا وہ لکھتی ہیں کہ ” دہلی سو رہی تھی اور میں ماضی کے جھرونکوں سے جھانکتی ہوئی غالب کی یاد آنے پر مسکرانے لگی ۔ دہلی کی فضا میں لگا جیسے غالب مجھے خوش آمدید کہ رہے ہیں۔سڑک کنارے وہاں کے پرانے درختوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ شاید غالب ان بوڑھے درختوں کے پاس سے گزرے ہوں گے ۔ یا کبھی ان درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے ہوں گے “۔۔
دہلی ، لکھنؤ اور غالب کے ذکر سمیت کچھ بھی بیان کرتے وقت راشدہ تاریخ کے جھروکے سے جھانکتی نظر آتی ہیں، یہ سب کچھ ان کے عمیق مطالعے کا آئینہ دارہے۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ ” یہاں میں ایک نکتے کی وضاحت کرتی چلوں کہ ہندوستان میں قسم قسم کے کھانے اور مٹھائیاں بنتی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں مگر ان مزیدار کھانوں اور مٹھائیوں کی ایجاد کا تمام سہرا مسلمان شہنشاہوں اور ان کے مطبخ کے باروچیوں کے سر جاتا ہے ۔ یہ ایک تاریخی نکتہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے وارد ہونے سے پہلے ہندوستانی لوگ عام طور پر سبزی اور دال پر گزارہ کرتے تھے اور وہ بھی روایت شاہد ہے کہ اُبلی ہوئی ۔۔ جس میں برائے نام مرچ مصالحے ہوتے تھے یہ لوگ لہسن اور پیاز کچا کھاتے تھے ۔ میٹھے کا استعمال بھی ان لوگوں میں محدود پیمانے پر تھا ۔ حلوہ اور پلاؤ تو خالصتاً مسلمان ہی لائے ۔لباس کے معاملے میں بھی ہندو لوگ مسلمانوں کے دستِ نگر تھے ۔ ورنہ ہندوستانی پرانے زمانہ میں مرد اور عورتیں دو چادریں استعمال کرتے تھے ۔ ایک چادر کمر پر باندھ لی اور دوسری چادر اُوپری جسم کو ڈھانپنے کے لیے اوڑھ لی ۔ اور انہی دو چادروں نے عورتوں میں ساڑھی کا رواج دیا “۔
” دِل والی دلی میں “ ایک ایسا پُر فسوں سفر نامہ ہے جو سارے کا سارا کالم میں کوٹ کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن طوالت کا خوف اور کالمانہ ہیئت اس کی اجازت نہیں دیتی ۔
لکھنو کے قیام کی یادیں ، مشاعروں کی رودادیں ، دہلی کی یاترا ، غالب کے مزار پر حاضری ، غالب کے مکان اور لال قلعہ کی سیر ، دہلی کے چاندنی چوک کی ایک گلی کے نکڑ پر کھڑے موبائل بُک شاپ والے کا تذکرہ ، کریم الدین سائیکل رکشہ والے کی باتیں ، تاتار کا افسانہ ، مغلوں کی کہانی ، شاہجہان کی شاہانہ لغزشوں کا احوال ، بہادر شاہ ظفر کی بے بسی کا نوحہ ، غالب کا جہاں ، لکھنؤ کے شعراءکے دبستان کی سوغاتیں ،مختلف کیفیات کا ست رنگا امتزاج بن جاتا ہے ۔ بعض مقامات پر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ راشدہ ماہین ملک نے اپنی تحریر میں سلگتے ہوئے شرارے اور مہکتے ہوئے انگارے رکھے ہوئے ہیں ۔ اس خوبصورت نثری فن پارے میں دھیما پن ، سلگاؤ، لمساتی کیفیت ، حدت ، ملائمت ، تُندی ، اُلجھاؤ ، سلجھاؤ، حرارت اور ارتکاز کے ساتھ ساتھ سُرخ گلابوں جیسی آگ اور سرشار جذبوں کی خوشبو بھی مہکتی ہے ۔ راشدہ ماہین ملک شعوری اور نظریاتی پاکستانی ہیں ،اپنی اس شناخت کو انہوں نے انڈیا میں خود سے کیے جانے والے مختلف سوالات کے جوابات میں خوب اُجاگر کیا ہے ۔ ماہین ملک نے یہ خوبصورت کتاب میرے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” مجھے اُمید ہے کہ آپ اسے ایک ہی نشست میں پڑھ لیں گے “۔۔ واقعی یہ کتاب میں نے نہ صرف ایک ہی نشست میں پڑھ لی بلکہ ازبر بھی کر لی ہے۔
٭٭….٭٭