وجود

... loading ...

وجود

گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟

جمعه 02 جون 2017 گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟

گوادر کی بندرگاہ تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے، لیکن یہاں کے مچھیروں کو گھر بار اور ذریعہ معاش چھن جانے کا خوف ہے۔بندرگاہ پر کوئی 20کلومیٹر پر واقع گوادر کے مقابلے میں کافی سناٹا ہے، جہاں گہرے پانیوں کی چین کے تعاون سے بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بندرگاہ اس سوئے ہوئے علاقے کو عالمی تجارتی حب میں تبدیل کردے گی۔اس کے برعکس، سربندر کی بندرگاہی پلیٹ فارم پر مچھیرے جمع ہوتے ہیں اور دودھ پتی کی کڑی میٹھی پیالیوں کے بیچ گپ شپ کرتے ہیں یا خاموش تماشائی بنے دنیا کا نظارہ کرتے ہیں۔ میں نے بعض مچھیروں سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے معروف منصوبے سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) کے بارے میں سنا ہے، لیکن ان کا جواب نفی میں آیا۔وہ یہ تو جانتے ہیں کہ چینی گوادر پر ایک پورٹ بنا رہے ہیں، لیکن انہوں نے اب تک کوئی چینی باشندہ نہیں دیکھا۔ سی پیک ایک 3 ہزار کلومیٹر طویل راہداری ہے جو مغربی چین میں کاشغر سے شروع ہوکرپاکستان میں گوادر کے ذریعے بحیرہ عرب تک جاتی ہے۔یہ ہمالیہ، میدانوں اور صحراؤں کے بیچ سے گزرتی ہوئی ماہی گیری کی قدیم بندرگاہ گوادر تک پہنچتی ہے۔ چینی فنڈنگ سے بڑے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے، اور ساتھ میں سڑکیں، ریلوے نیٹ ورک اور پاور پلانٹ بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ منصوبے کی اصل مالیت 46 ارب امریکی ڈالر تھی جبکہ آج اس راہداری کا تخمینہ 62 ارب امریکی ڈالر ہے۔سی پیک، چین کے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کا حصّہ ہے۔ ایک بڑے پیمانے پر علاقائی تجارت اور سفارتی منصوبہ جو زمینی اور آبی دونوں راستوں کا احاطہ کرتا ہے اور چین کو باقی ماندہ ایشیا اور یورپ سے ملاتا ہے۔ماہی گیر پہلے ہی ہنرمند مزدوروں سے تقریباً چار گنا زیادہ کما رہے ہیں۔گوادر پر زیر تعمیر پورٹ، حکومت پاکستان کی گوادر پورٹ اتھارٹی کی ملکیت ہے اور اس کو چینی سرکاری فرم چائنا اوور سیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (COPHC) آپریٹ کررہی ہے، جو 40سال تک اسے چلائے گی۔چین کے لیے گوادر اسٹریٹجک لحاظ سے عرب/خلیج فارس کے قریب واقع اور آبنائے ہرمز کے قریب ہے، جہاں سے دنیا کا تقریباً 40 فیصد تیل گزرتا ہے۔ COPHC کی ویب سائٹ کے مطابق، گوادر تیل سے مالا مال مشرق وسطی، وسطی اور جنوبی ایشیا کا گیٹ وے ہے ۔پورٹ کی تعمیر نے فی الحال سر بندر کے لیے محض خوف اور غیر یقینی میں اضافہ ہی کیا ہے۔ حالانکہ اب تک کوئی سرکاری نوٹیفکیشن نہیں آیا، پھر بھی یہ افواہ گردش کررہی ہے کہ گوادر سے بے دخل ہونے والے مچھیروں کی منزل سربندر ہی ہوگی۔انجمن اتحاد ماہی گیران سربندر کے صدر سعید محمد کہتے ہیں کہ انہوں نے ’بعض ذرائع‘ سے سنا ہے کہ ایسا ہوگا، لیکن کب؟ یہ معلوم نہیں۔انہوں نے ڈاکنگ ایریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں اتنی جگہ ہی نہیں کہ ان کی کشتیاں کھڑی ہوسکیں، یہ جگہ تو ہمارے لیے بھی کم پڑ جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سربندر میں تقریباً 5ہزار سے 7 ہزار ماہی گیر اور ایک ہزار کشتیاں ہیں۔ جبکہ گوادر میں یہ تعداد کوئی تین گنا ہے۔گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سربندر میں ایک جیٹی تعمیر کروا رہی ہے، جس کے بارے میں مکینوں کو شک ہے کہ آخرکار گوادر کے ماہی گیروں کو لاکر بسایا جائے گا۔ ماہی گیر کہتے ہیں کہ جیٹی کا بند انتہائی خراب ڈیزائن کیا گیا ہے اور انجینئروں نے اس کام کے لیے ان سے کوئی مشورہ نہیں لیا۔گوادر کے ماہی گیر کہیں نہیں جانا چاہتے۔گوادر کے ماہی گیروں نے بھی سنا ہے کہ انہیں سربندر منتقل کردیا جائے گا۔ داد کریم کہتے ہیں کہ “ہمیں سیکورٹی اداروں نے کئی بار کہا ہے کہ ہمیں پورٹ چھوڑ دینا چاہیے اور سربندرپر مچھلی پکڑنی چاہیے۔”اپنی برادری کی جانب سے وہ کہتے ہیں، ’ہم یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اس جگہ ہم سارا سال ماہی گیری کر سکتے ہیں مگر سربندر پر جون، جولائی اور اگست میں اونچی لہروں کی وجہ سے ماہی گیری نہیں کرسکتے‘۔انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گوادر قدرتی طور پر ہتھوڑی جیسی ساخت کے جزیرہ نما کے ذریعے محفوظ ہے، جو دونوں سائیڈوں پر تقریباً مکمّل نیم دائروں کی شکل میں خلیج بناتا ہے۔”سیاہ شیشوں والی عینک لگائے نسیم گجر کہتے ہیں، ’ہمیں کشتیوں پر سربندر تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے کیوں کہ ہمارے گھر یہاں ہیں‘، بہرحال ان کے پاس ایک حل ہے، ‘کیوں نہ وہ ہمیں نئے ملاح بند کی طرف منتقل کر دیں جہاں انہوں نے دس سال پہلے ماہی گیروں کا ایک گروپ منتقل کیا تھا؟ وہاں جگہ کی بھی کوئی کمی نہیں اور وہ ہمیں ایک جیٹی اور ایک خلیج بھی بنا کر دے سکتے ہیں‘۔2007 میں پورٹ کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں، ملاح بند نامی ایک صدی پرانی بستی (جہاں آج پورٹ واقع ہے) کے رہنے والے تقریباً ایک سو خاندانوں کو وزیر اعلیٰ کے گھر کے قریب منتقل کیا گیا تھا۔ ان سے گھروں کی تعمیر کے لیے متبادل زمین، ہاؤسنگ پروجیکٹس میں پلاٹ اور نقد کا وعدہ کیا گیا تھا۔صالح محمّد کہتے ہیں کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں معاوضہ نہیں دیا گیا، لیکن ہماری کچھ املاک پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرلیا ہے‘۔ صالح محمد پہلے ماہی گیری سے وابستہ تھے، مگر اب سیمنٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ ان سے ایک ہسپتال، ایک اسکول اور مناسب سڑکوں کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔10 سال گزر گئے، نیا ملاح بند آج بھی ان بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ علاقے کا واحد اسکول کافی فاصلے پر ہے اور وہاں بھی استاد شاذ و نادر ہی حاضر ہوتے ہیں۔مگر ایسا نہیں کہ گوادر پر صورتحال بہتر ہے۔ وہاں بھی پچھلے کئی سالوں میں بہت سے وعدے کیے گئے۔گزشتہ ماہ اپنے دورے کے دوران، وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے کہا کہ شہر کے اندر 1100 کلومیٹر طویل سڑکیں بنائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا تھا ’جب سڑکیں بنتی ہیں تو خوشحالی آتی ہے، اسکول تعمیر ہوتے ہیں، کالج تعمیر ہوتے ہیں، ہسپتال بنتے ہیں، صنعتیں قائم ہوتی ہیں اور ترقی و خوشحالی پھلتی پھولتی ہے‘۔لیکن فی الوقت پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان کے شہر کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ مقامی صحافی بہرام بلوچ کے مطابق طبّی سہولیات اوسط درجے کی ہیں اور خواتین کے لیے تونہ ہونے کے برابر ہیں۔ بچے کی پیدائش میں پیچیدگیوں کے لیے خواتین کو تربت یا پھر 500 کلومیٹر دور کراچی تک لے جانا پڑتا ہے۔’گوادر میں آپ کو محض دو یا تین جنرل پریکٹیشنر ملیں گے جبکہ تربت میں کوئی دو درجن معالج ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہسپتال جو پچھلے 8سال سے بند تھا، گزشتہ سال سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی آمد پر صرف آٹھ دن میں کام کرنے لگا۔گوادر والوں کی کوئی نہیں سنتا۔پاکستان میں تقریباً روز ہی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا کوئی ممبر سی پیک کا حوالہ دیتا یا یہ بتاتا دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح یہ منصوبہ پاکستان کے طول و عرض خاص کر گوادر میں خوشحالی لے کر آئے گا۔ ان سب کے باوجود گوادر کے مقامی مچھیروں کی آوازوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے جو ایک لاکھ 85 ہزار آبادی والے ضلعے کا 80 فیصد ہیں۔65 سالہ داد کریم کہتے ہیں، ’میرے اپنے ملک، میرے اپنے شہر، میری اپنی زمین پر میرے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک ہورہا ہے ان کے ہاتھوں جو حقیقت میں باہر والے ہیں‘۔ گوادر پورٹ میں کام کرنے والے چینی وفد کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ گرمجوشی سے مسکرائے، ہم سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ وہ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں کیونکہ ہم ان کے مہمان ہیں۔ اپنی ہی زمین پر اپنے لیے مہمان کا لفظ سن کر آپکو کیسا محسوس ہوگا؟‘سی پیک کے حوالے سے چینیوں کے منصوبوں پر ایک انگریزی روزنامے کی حالیہ رپورٹ اس خیال کی توثیق کرتی ہے کہ مقامی باشندے سی پیک کی تعمیر کے حوالے سے رائے مشورے کا حصّہ نہیں۔
پورٹ پر موجود چینیوں کی زندگی
وکٹر جیا کے لیے گوادر کی زندگی قید کی مانند ہے۔ چائنیز اوور سیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے منیجر اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھتے ہیں۔ “مجھ سے پوچھیں تو حقیقت تو یہ ہے کہ میں آپ کو گوادر کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ اس شہر کی زندگی کیسی ہے اس کا مجھے مشکل سے ہی کچھ تجربہ ہے کیونکہ یہ تجربہ تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب آپ مقامی لوگوں سے ملیں، ان کے کلچر، میوزک، طرز زندگی اور سیاسیات کو سمجھیں۔ انہوں نے ایک نیا مشغلہ ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔ مچھلی پکڑنا۔ ’’میں ہر ویک اینڈ پر فشنگ کے لیے جاتا ہوں۔‘‘بہرحال اس پر بھی کئی پابندیاں ہیں۔ وہ صرف پورٹ پر فشنگ کرسکتے ہیں، صرف چینل کے اندر میرین سیکورٹی ایجنسی کی کڑی نگرانی میں۔ جب کبھی شہر جانا ہوتا ہے تو وہ بھی ہمیشہ گروپ کی شکل میں، سخت پہرے میں جانا ہوتا ہے۔ مقامی لوگ ہمارے ساتھ تصویریں بنانا چاہتے ہیں۔ ’’حالانکہ سیکورٹی والے خاصے سخت ہیں پھر بھی میں اکثر انہیں کہتا ہوں کہ لوگوں کو ہمارے ساتھ سیلفی لینے دیں‘‘۔ لگ بھگ 300 غیر ہنرمند کارکن اور ہنرمند انجینئراور سینئر انتظامی عہدوں پر فائز چینی پورٹ میں رہ رہے ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر یہ سب ایک کالونی میں رہ رہے ہیں جو صرف2مہینے کے اندر تیار کی گئی۔ یہ رہائشی کالونی دیکھنے میں خاصی سادہ لگتی ہے لیکن یہاں جمنازیم ہے، ایک ٹیبل ٹینس اور اسنوکر روم ہے حتیٰ کہ مصنوعی گھاس پر مبنی چھوٹا سا فٹ بال فیلڈ بھی ہے۔ وہ 6 مہینے کام کرتے ہیں اور پھر تین ہفتے کے لیے چھٹیوں پر چین جاتے ہیں۔4 چینی شیف ان کے لیے روزانہ تازہ کھانا تیار کرتے ہیں۔ COPHC کے ڈپٹی منیجر داداللہ یوسف بتاتے ہیں کہ “تمام راشن یا تو مقامی مارکیٹ سے خریدا جاتا ہے یا پھر کراچی سے بھجوایا جاتا ہے۔” COPHC کے چیئرمین ژانگ باؤژونگ کے لیے اصل چیلنج 20سال میں گوادر کی تکمیل ہے۔ “دبئی جیسا نہیں اور نہ ہی شینزین جیسا، بلکہ ان دونوں سے کہیں اعلیٰ۔” سفید شلوار قمیض میں ملبوس، سلیقے سے بال بنائے، نرم مسکراہٹ کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ وہ گوادر کو ایک “کوری سلیٹ” کی مانند دیکھتے ہیں اور جب چینی واپس اپنے گھر جائیں گے تو وہ اپنے پیچھے “خوش اور زیادہ خوشحال ” لوگ چھوڑ کر جائیں گے۔ “تب اس کی اصل قدر سامنے آئے گی۔” انہوں نے یہ بات چینی سفیر کے لیے پریزنٹیشن کی تیاری کے لیے جاتے ہوئے کہی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماہی گیر اس بات سے متفق ہوتے ہیں یا نہیں۔ اب تک تو ان سے رجوع نہیں کیا گیا۔
پیشہ وارانہ تربیت: کیا مقامی لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟
چینی کمپنی کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کے ذریعہ معاش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ کہ جب پورٹ پر فیکٹریاں لگ جائیں گی ملازمتوں کی کمی نہیں رہے گی۔ مقامی باشندے داد اللہ یوسف جو COPHC کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکشن میں بطور ڈپٹی منیجر کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ “ان سب کو اپنے پیشے سے متعلق کام مل جائے گا ،چاہے وہ مچھلی کی پروسیسنگ ہو یا ویلیو ایڈیشن”۔”اور وہ جو بطور ماہی گیر ہی کام کرنا چاہتے ہیں انہیں سمندر میں جانے کے لیے ٹیکنالوجی، جال، کشتیاں اور انجن فراہم کیے جائیں گے۔” یوسف کے مطابق اندازہ ہے کہ بیس سال میں گوادر اور پاکستان کے دوسرے حصّوں سے کوئی 20 لاکھ افراد کو بشمول بیس ہزار چینی گوادر پر ملازمتیں ملیں گی۔ ” وہ مارکیٹ ریٹ پر ماہی گیروں سے مچھلی خریدیں گے، اس طرح آڑھتیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں گے۔”لیکن ماہی گیروں کو اس پر یقین نہیں۔ جیسے جیسے ہنرمند ورکر گوادر پہنچ رہے ہیں، کم مہارت کے حامل ان پڑھ مقامی باشندے پیچھے رہ جائیں گے۔ مقامی لوگوں میں خوف واضح ہے۔ “ہم ماہی گیری کے سوا کچھ نہیں جانتے”، آپ جہاں جائیں آپکو یہ سننے کو ملے گا۔مقامی ماہر تعلیم اور شاعر کے بی فراق کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کے نئے راستے کھلنے کی ضرورت ہے اگر ان کے پیشے ختم ہونے جارہے ہیں تو انہیں پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعہ نئے ہنر سکھائے جائیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں ویسے ہی بہت دیر ہوگئی ہے، اس کام کو سب سے پہلے ترجیح دی جانی چاہیے تھی، سال 2000 میں پورٹ کی تعمیر شروع ہونے سے بھی پہلے۔”وہ کہتے ہیں کہ “ترقی کا تعلق معاشی پیداوار سے ہے، سماجی و افرادی لاگت ریاست کے ریڈار میں نہیں آتی۔ مقامی لوگوں کو پورٹ کی کارروائیوں میں اس لیے شامل نہیں کیا جاتا کیوں کہ وہ ہنرمند نہیں۔ ماہی گیروں کو کبھی بھی اپنے پیشہ جدید بنانے اور اپنی کشتیوں کو بہتر بنانے کے لیے سپورٹ نہیں کیا گیا۔”
توانائی اور پانی کا مسئلہ
پورٹ کے اندر بجلی، پانی اور گیس کی فراوانی ہے۔ پورٹ مہنگے فرنس آئل پر چلنے والے چار اعشاریہ پانچ میگا واٹ کے پاور پلانٹ کے ذریعہ اپنی بجلی خود بناتا ہے۔ تین لاکھ اسی ہزار لیٹر کا ڈی۔سیلینیشن پلانٹ روزانہ موجودہ ضرویات کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام آسائشیں پورٹ پر دستیاب ہیں یا پھر علاقے کے واحد فائیو اسٹار ہوٹل میں۔ باقی ماندہ علاقہ بجلی کی طویل بندش کے دوران اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔ چاروں طرف سمندر سے گھرے ہونے کے باوجود، پانی گوادر کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہے۔ پینے کے پانی کی شدید قلّت کا شکار صحرائی شہر۔ پورٹ کی کارروائیاں بڑھنے اور GPFZ بن جانے کے بعد بجلی اور پانی کی طلب مزید بڑھے گی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت گوادر سے چالیس کلومیٹر دور کروٹ میں ایک سو پچاس میگا واٹ والے کوئلے کے دو پاور پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے جنکی لاگت 55 ارب روپے (52 کروڑ امریکی ڈالر) ہے۔ یہ پروجیکٹ بنا کسی نیلامی کے پہلے ہی چینی سرکاری فرم کو دے دیا گیا ہے۔
داداللہ یوسف کہتے ہیں کہ GPFZ کوئلے سے بننے والی بجلی استعمال نہیں کرے گا۔ ” میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ہم نے حال ہی میں سرمایہ کاروں کے ساتھ ماحولیاتی معاہدہ دستخط کیا ہے جس کے مطابق ہم آلودہ ایندھن استعمال نہیں کریں گے۔ حکومت ایک 2050 ماسٹرپلان تشکیل دے رہی ہے جس میں پانی سے متعلق تمام مسائل جیسے پانی کی فراہمی، تقسیم، سیوریج کا انتظام اور ٹریٹمنٹ پلانٹ شامل ہیں جنکی لاگت کا اندازہ تقریباً 13 کروڑ امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ فی الوقت، ٹاؤن کے مکین پینے کا پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (گوادر اور آس پاس کے علاقوں کے لیے پانی کا وسیلہ) انقرہ۔کور بند مطلوبہ ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے۔ شہر کی روزانہ طلب 46 لاکھ گیلن پانی ہے، جو کہ توقع ہے 2020 تک 1 کروڑ 20 لاکھ گیلن ہوجائے گی۔ نئے بند اور پلان شدہ ڈی۔سیلینیشن پلانٹ مقامی لوگوں کی صاف پانی کی ضرورت پورا کرسکیں گے۔ بہرحال، حقائق کچھ خاص واضح نہیں۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے پانچ چھ سالوں سے پانی کا مسئلہ بھگت رہے ہیں۔ حکومت کو وقتاً فوقتاً ہنگامی طور پر میران اور بیلار ڈیمز سے ٹینکر پر پانی منگوانا اور گھر گھر فراہم کرنا پڑتا ہے۔لیکن
حکام کے مطابق مہارتوں کی تربیت پورٹ کی تعمیر کے دوسرے مرحلے کا حصّہ ہے۔ وہ دو سال سے گوادر میں پیشہ ورانہ تربیت کا مرکز بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ “فزیبلٹی اور ڈیزائن بلآخر مکمّل ہوچکے ہیں اور اگلے چند ہفتوں میں باقاعدہ کام شروع ہوجائے گا۔ یہاں سترہ کلاسز ہیں جن کی مرمّت کی جائے گی اور دو ماہ کے اندر اندر موٹر چلانے، کرین اور فورک۔لفٹر کی دیکھ بھال، ویلڈنگ کرنے اور چینی زبان کے کورسز کروائے جائیں گے۔لیکن اگر مقامی لوگ یہ ہنر سیکھ بھی لیں، تب بھی وہ اتنا نہیں کما پائیں گے جتنا ابھی کماتے ہیں۔ ایک ہفتے میں ماہی گیر 20 ہزار روپے (188امریکی ڈالر) سے 50 ہزار روپے (471 امریکی ڈالر) تک کماتے ہیں۔پورٹ پر ایک غیر ہنرمند کارکن کی تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے اور ہنرمند مزدور 28 ہزار روپے (264 امریکی ڈالر) سے 50 ہزار روپے ماہانہ تک کما پاتے ہیں۔ ان کی آمدنی موجودہ کمائی کا ایک چوتھائی یا شاید اس سے بھی کم حدتک گر جائے گی۔
مقامی لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
پورٹ کے اطراف میں بھاری سیکیورٹی نے ماہی گیروں کو مزید عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے۔ افواجِ پاکستان نے تیس ہزار اہلکاروں پر مشتمل سیکورٹی فورس متعین کی ہے تاکہ انفراسٹرکچر اور سی پیک کے چینی ورکرز کی حفاظت ہو سکے، خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں جہاں افسران کے دعوے کے مطابق مزاحمت کار پوری اسکیم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اپنا قومی شناختی کارڈ اور فشنگ لائسنس اور حتیٰ کہ اپنی کشتی کی فوٹو بھی ساتھ رکھنے کو کہا جاتا ہے، جیسے ہم کوئی دہشتگرد ہیں”، مقامی مکین الہٰی بخش نے شکوہ کیا۔الہٰی بخش کے مطابق “یہ ہمارا سب سے اہم ماہی گیری کا مقام ہے جہاں ہم صدیوں سے مچھلیاں پکڑتے آئے ہیں، اور یہ جگہ چھوڑنے کا کہنا ناانصافی ہے۔ چند چینیوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں چھوٹے ماہی گیروں کا ذریعہ معاش نظرانداز کردیا گیا ہے۔”الہٰی بخش شکوہ کرتے ہیں کہ جب کوئی معزز مہمان گوادر کا دورہ کرنے آتے ہیں، اور ایسا اکثر ہی ہوتا ہے، تب ماہی گیروں کو سمندر پر جانے سے پابند کردیا جاتا ہے۔ “جس دن ہم سمندر پر نہیں جاتے اس دن گھر پہ کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔”
علاقے کے ضعیف مکین خدا بخش ملاح کہتے ہیں کہ “اس سائیڈ کی سمندری تہہ مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش کے لیے انتہائی مناسب جگہ ہے لیکن پورٹ پر ہونے والے کام کی وجہ سے اس میں خلل پڑ رہا ہے”۔فراق کہتے ہیں کہ ایک بار ماہی گیر کہیں اور منتقل ہوگئے تو کشتی بنانے والے، برف کی فیکٹریاں، پانی، ایندھن، ویلڈنگ اور موٹر کی مرمّت جیسے پیشوں سے وابستہ لوگ بھی متاثر ہوں گے۔بہرام بلوچ واضح کرتے ہیں کہ “مسئلہ یہ ہے کہ اگر مقامی مکین اپنے خدشات کا اظہار کریں تو انہیں سی پیک کے خلاف سمجھا جاتا ہے، یہ ایک قومی ایجنڈا اور مقدس سمجھا جانے لگا ہے”۔ ماضی میں لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے، احتجاج کرتے تھے، لیکن اب یہ سب بند ہوگیا ہے۔ بہرام کے مطابق “لوگوں کو سیاسی اور معاشی دونوں طریقوں سے خاموش کردیا گیا ہے۔”
پورٹ کی تعمیر سست رفتار ہے
800 چینی اور پاکستانی کارکنوں کی موجودگی کے باوجود یہ پورٹ اور فری زون بڑی سنسان جگہ ہے۔ داد اللہ یوسف کے مطابق پورٹ کے اندر کوئی تین سو پاکستان نیوی کے جوان تعینات ہیں۔ گوادر پورٹ اتھارٹی چیئرمین کے پرائیویٹ سیکرٹری، شبیر احمد نے بتایا کہ وہ پورٹ کے سب سے پرانے ملزمین میں سے ایک ہیں اور 2004 سے یہاں ملازم ہیں۔مارچ 2008 میں جب پہلا بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہوا تھا تب سے آج تک یہاں کم از کم 200 بحری جہاز گندم سے لیکر کھاد تک، کھجوروں سے لے کر اونٹ تک لے کر آئے ہیں۔”ہم پاکستان سے اب تک صرف سارڈینز کے کنٹینر ہی باہر بھیج سکے ہیں”، یوسف نے بتایا۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چین گوادر کو بحیرہ عرب کے تجارتی راستے سے زیادہ ممکنہ بحری اڈہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستانی حکمران اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پالیسی ریفارم یونٹ کے سابق سربراہ قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ “گوادر میں بحری مفاد واضح ہے لیکن ایک مضبوط اقتصادی مفاد بھی ہے۔”پہلے مرحلے میں، پورٹ 17 ارب روپے کی لاگت سے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مشترکہ تعاون سے تیار کیا گیا تھا اور مارچ 2007 میں اس کا افتتاح کیا گیا تھا۔ پھر 40 سال کے لیے ایک رعایتی معاہدے کے تحت اس کا کنٹرول پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی (PSA) کے حوالے کر دیا گیا تھا۔تاہم، پی ایس اے پورٹ میں توسیع کرنے یا کاروبار لانے میں ناکام رہی چنانچہ سال 2013 میں رعایتی حقوق واپس COPHC کو منتقل کردے گئے۔کسی بھی وقت، پورٹ پر 50,000 ڈیڈ ویٹ ٹن (DWT) گنجائش والے دو یا تین بڑے بحری جہاز لنگرانداز ہوسکتے ہیں۔ سال 2045 تک پورٹ 150 بحری جہازوں اور 40 کروڑ ٹن کارگو رکھنے کے قابل ہوجائے گا، ساتھ ہی مختلف لاجسٹکس خدمات، وسیع اسٹوریج کی سہولت اور نو مربع کلومیٹر کا ایک صنعتی فری ٹریڈ زون (GPFZ) بھی موجود ہوں گے۔GPFZ کا پہلا مرحلہ سال 2018 کے اوائل میں مکمّل ہوجائے گا اور اس میں شامل ہونگے ایک پائپ پلانٹ، ایک کولڈ اسٹوریج اور فش پروسیسنگ ایریا، ایک ای۔بائیک فیکٹری اور چینی مصنوعات کے لیے ڈسپلے سینٹر۔ پورا زون سات سے آٹھ سالوں میں مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گا، یہاں چار سو کمپنیز ہونگی اور پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے۔
جب ہم واپس شہر کی جانب روانہ ہوئے تو محسوس ہوا گوادر شہر اب سویا ہوا نہیں ہے لیکن ابھی یہ پوری طرح جاگا بھی نہیں ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے فش ہاربر کی شاہراہ پر دوسرے سمندر کنارے شہروں کی طرح سیاح نظر نہیں آتے، اور نہ ہی سمندری کھانوں کے ریسٹورنٹ اور نا ہی یادگاری تحائف کی دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں ریئل اسٹیٹ کے دفاتر تو نظر آتے ہیں لیکن سرمایہ کار نہیں۔ ان دفاتر کے اندر لوگ بیکار بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ڈویلپر اور سرمایہ کار مستقبل کے حوالے سے پرامید ہیں اور زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ لیکن بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2000 کے عشرے میں جب پورٹ تعمیر ہورہا تھا تب انہوں نے اپنی زمینیں بہت سستے داموں بیچ دیں۔اس نئی لہر میں یہ “باہر والے” ہیں جو زمینیں مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ ایک بڑے رئیل اسٹیٹ گروپ نے پچھلے سال دس گنا منافع کمایا، ان زمینوں کی فروخت سے جو اس نے 12سال پہلے خریدی تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ لگتا ہے غریب مچھیروں کے علاوہ یہاں ہر کوئی فائدہ حاصل کر رہا ہے۔
ابن عماد بن عزیز


متعلقہ خبریں


پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی وجود - جمعه 11 اپریل 2025

  زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے ،مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟ عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہوچکے ہیں۔ شرعاً الاقرب ...

پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی

ہمارے ملک کی حکومت پھٹی ہوئی قمیض کی طرح ہے، مولانا فضل الرحمن وجود - جمعه 11 اپریل 2025

پی ڈی ایم حکومت کررہی ہے اور صدر اپوزیشن میں ہے ، بجائے اس کے وہ صدر کی مانیں معلوم نہیں کس کی مان رہے ہیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ضروری ہے مسلمان اہل غزہ اور فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر...

ہمارے ملک کی حکومت پھٹی ہوئی قمیض کی طرح ہے، مولانا فضل الرحمن

کینالزمنصوبے کیخلاف قرارداد قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پرپیپلزپارٹی کا احتجاج وجود - جمعه 11 اپریل 2025

پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے جمعرات کو پارلیمنٹ میں 6نہروں کے منصوبے کے خلاف ایک قرارداد کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر احتجاج کیا، ترجمان پی پی دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف قرارداد کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر پیپلزپار...

کینالزمنصوبے کیخلاف قرارداد قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پرپیپلزپارٹی کا احتجاج

ساڑھے 8 لاکھ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جاچکا ،وزیر مملکت وجود - جمعه 11 اپریل 2025

غیر ملکیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی، فیصلہ کچھ زمینی حقائق پر کرنا پڑا دہشت گردی کے بہت سے واقعات افغان شہریوں سے جڑ رہے ہیں، طلال چودھری وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی، افغا...

ساڑھے 8 لاکھ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جاچکا ،وزیر مملکت

امن تباہ کرنے والوں کوگرفتار کیا جائے ، آفاق احمد وجود - جمعه 11 اپریل 2025

ہیوی ٹریفک کے نظام پر آواز اٹھائی توالزام لگا آفاق شہر میں مہاجر اور پختونوں کو لڑوا رہا ہے کراچی میں گزشتہ روز منصوبہ بندی کے تحت واقعات رونما ہوئے ، سربراہ مہاجر قومی موومنٹ مہاجرقومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ آفاق احمد نے شہر کے سنگین مسائل حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہ...

امن تباہ کرنے والوں کوگرفتار کیا جائے ، آفاق احمد

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات میں شدت وجود - جمعه 11 اپریل 2025

مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر بھی عاطف خان اور علی امین گنڈا آمنے سامنے آگئے پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی وٹس ایپ گروپ میں ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں جبکہ سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی نے اس کو پار...

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات میں شدت

جماعت اسلامی کی اپیل ، آج فلسطین سے اظہار یکجہتی مارچ ہوگا وجود - جمعه 11 اپریل 2025

تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فلسطین یکجہتی مارچز ،مرکزی مارچ مال روڈ لاہور پر ہو گا ٹرمپ کے غزہ کو خالی کرانے کے ناپاک منصوبے کی مذمت میں گھروں سے نکلیں، بیان امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر آج ملک بھر میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کا انعقاد کیا جائے گا۔مرکزی مارچ مال روڈ لا...

جماعت اسلامی کی اپیل ، آج فلسطین سے اظہار یکجہتی مارچ ہوگا

ریاست مخالف پروپیگنڈا، 20 پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ وجود - جمعرات 10 اپریل 2025

متعدد نوٹسز کے باوجود وقاص اکرم، حماد اظہر، زلفی بخاری، عون عباس، میاں اسلم، فردوس شمیم، تیمور سلیم، جبران الیاس، خالد خورشید، شہباز گل، اظہر مشوانی اور شامل ، جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں قائم جے آئی...

ریاست مخالف پروپیگنڈا، 20 پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ

سندھ کے تحفظات جائز ہیں،سکھر موٹروے کی تعمیر جلد شروع کریں گے ، وزیراعظم کا وزیراعلیٰ کو جوابی خط وجود - جمعرات 10 اپریل 2025

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے چند روز قبل حیدر آباد ، سکھر موٹروے کو ترجیح نہ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی سکھر موٹروے شروع نہ ہونے تک تمام منصوبے روکنے کا کہا تھا حیدرآباد ، سکھر موٹروے پر وفاق اور سندھ کے درمیان جاری تنازع میںوزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کو ...

سندھ کے تحفظات جائز ہیں،سکھر موٹروے کی تعمیر جلد شروع کریں گے ، وزیراعظم کا وزیراعلیٰ کو جوابی خط

عسکری مصنوعی ذہانت کے خطرات پر پاکستان کا اظہار تشویش وجود - جمعرات 10 اپریل 2025

  مصنوعی ذہانت کو کسی نئے مقابلے کے میدان میں تبدیل ہونے سے روکا جائے مصنوعی ذہانت کا استعمال نئے اسلحہ جاتی مقابلوں کا آغاز کر سکتا ہے، عاصم افتخار پاکستان نے اقوام متحدہ میں عسکری مصنوعی ذہانت کے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ عسکری میدان میں آ...

عسکری مصنوعی ذہانت کے خطرات پر پاکستان کا اظہار تشویش

عمران خان سمیت 119 ملزمان کی عدالت میں پیشی کا حکم وجود - جمعرات 10 اپریل 2025

  جی ایچ کیو حملہ کیس تفتیشی ٹیم کو مکمل ریکارڈ سمیت اڈیالہ جیل میں پیش ہونے کا حکم سپریم کورٹ کی 4 ماہ کی ڈائریکشن کے مطابق کیس کا فیصلہ ہو گا ،التوا نہیں ملے گا جی ایچ کیو حملہ کیس کی آئندہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ ش...

عمران خان سمیت 119 ملزمان کی عدالت میں پیشی کا حکم

عمران خان کی بہنوں کی گرفتاری کا حساب لیا جائے گا،گنڈاپور وجود - جمعرات 10 اپریل 2025

اڈیالہ میں پولیس نے بانی کی بہنوں اور دیگر قائدین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا پی ٹی آئی کے قائدین کو ویرانے میں چھوڑنا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ اڈیالہ میں پولیس کی جانب سے عمران خان کی بہنوں اور دیگر قائدین کے...

عمران خان کی بہنوں کی گرفتاری کا حساب لیا جائے گا،گنڈاپور

مضامین
فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں پاکستان کردار ادا کرے وجود جمعه 11 اپریل 2025
فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں پاکستان کردار ادا کرے

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟ وجود جمعه 11 اپریل 2025
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟

ٹیرف کی وجہ سے عالمی سطح پر بے چینی وجود جمعه 11 اپریل 2025
ٹیرف کی وجہ سے عالمی سطح پر بے چینی

بھارت غیر قانونی منشیات سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک وجود جمعرات 10 اپریل 2025
بھارت غیر قانونی منشیات سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک

امن کا درس وجود جمعرات 10 اپریل 2025
امن کا درس

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر