وجود

... loading ...

وجود

امریکی بجٹ تجاویزمیں پاکستان کی امدادسے ہاتھ کھینچنے کا عندیہ

هفته 27 مئی 2017 امریکی بجٹ تجاویزمیں پاکستان کی امدادسے ہاتھ کھینچنے کا عندیہ


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو زچ کرنے اور پاکستان کے لیے امریکی امداد کو زیادہ مہنگا اور ناقابل حصول بنانے کے لیے ایک نیا پھندا تیار کرنا شروع کردیا ہے ،اس حوالے سے پہلے مرحلے میں پاکستان کوفوجی سازوسامان کے لیے دی جانے والی امریکی گرانٹ کو قرض میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے اور اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کو سالانہ بجٹ میں پاکستان کے لیے فوجی ہارڈویئر کے لیے دی گئی گرانٹ قرض میں تبدیل کرنے کی تجویز دیدی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر اس سلسلے میںامریکی انتظامیہ کی جانب سے مسودہ تیار کرکے کانگریس کو بھجوا دیا گیا ہے۔ وائٹ ہائوس کے مطابق بیرونِ ممالک کو پروگراموں اور امداد کی مد میں دی گئی رقوم میں پاکستان کو دی گئی فوجی امداد بھی شامل ہے جسے قرضے میں تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ امریکا نے اگلے سال کے دفاعی اخراجات کے لیے 603‘ ارب ڈالر مختص کیے ہیں جو گزشتہ برس سے 3فیصد زیادہ ہیں۔ تجاویز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ محکمہ خارجہ اور دیگر عالمی پروگراموں پر اگلے سال 29.1 فیصد کم (115 ارب ڈالر) کا بجٹ استعمال کریگی۔ وائٹ ہائوس میں مینجمنٹ اور بجٹ کے ڈائریکٹر مکی ملوینی نے اس سلسلہ میں بتایا کہ امریکا براہ راست بہت سے غیرملکی فوجی امداد کے پروگراموں کو قرضوں میں بدل دیگا تاہم اس حوالے سے اسرائیل اور مصر کو دی گئی امداد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی غیرملکی گرانٹ سے پاکستان‘ تیونس‘ لبنان‘ یوکرائن‘ فلپائن اور ویت نام متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا نے 2015ء میں اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کو 13.5‘ ارب ڈالر امداد دی تھی جس میں زیادہ تر امداد اسرائیل‘ مصر‘ اردن‘ پاکستان اور عراق کو دی گئی جسے اب بعض ممالک کے لیے قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ کانگریس ریسرچ سینٹرکے مطابق امریکی کانگریس ٹرمپ کی یہ تجویز مسترد کرسکتی ہے۔ وائٹ ہائوس کے ڈائریکٹر نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کی امداد کم کردی جائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو پیسہ نہیں‘ صرف گارنٹی دیگا‘ پاکستان کو 2015ء میں ساڑھے 13 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی گئی تھی جو کم کرکے قرضوں میں تبدیل کی جائیگی۔
بدقسمتی سے ہماری قومی خارجہ پالیسی کی سمت کبھی بھی ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کی روشنی میں متعین نہیںکی جاسکی، اگرچہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہم نے ہر سرد وگرم میں امریکا کا ساتھ نبھایا ہے اور نائن الیون کے بعد ہمارے اس وقت کے جرنیل آمرپرویز مشرف نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے قومی سلامتی و خودمختاری عملاً امریکا کے پاس گروی رکھوا دی جبکہ امریکا نے ہماری بے لوث دوستی اور تعاون پر کبھی ہمارے جذبے جیسا ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے بے پایاں تعاون اور قربانیوں کے باوجود امریکا ہمارے کردار پر تحفظات کا اظہار اور ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے کرتا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سے جو بھی برسراقتدار رہا اس کا ہمارے ساتھ تعلقات کا سلسلہ گرمجوشی کے بجائے سردمہری کی ہی عکاسی کرتا رہا۔ 71ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے ہمیں فوجی امداد کے لیے ساتواں بحری بیڑہ بھجوانے کا چکمہ دیا مگر پاکستان اس بحری بیڑے کا منتظر ہی رہا اورپاکستان کو سقوط ڈھاکا کے سانحہ سے دوچار کردیا۔ اسی طرح سوویت یونین کے ساتھ امریکی سرد جنگ کے دوران جنرل ضیاالحق نے پاکستان کا سارا وزن امریکا کے پلڑے میں ڈال دیا اور روسی فوجوں کی مزاحمت کے لیے افغان مجاہدین کی پوری کھیپ تیار کرکے امریکا کو بطور کمک فراہم کی۔ پاکستان کے اس کردار کے باعث امریکا کو سردجنگ میں سرخروئی حاصل ہوئی اور سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے مگر امریکا نے اس کا صلہ پاکستان کو افغان مجاہدین کی سرپرستی چھوڑ کر دیا جو روپے پیسے اور اسلحہ کی ریل پیل کی پڑی ہوئی لت کو برقرار رکھنے کے لیے سرکشی کی راہ پر چل نکلے۔ انہی مجاہدین نے القاعدہ اور طالبان کا روپ اختیار کیا تو سردجنگ والے یہ حلیف امریکا کے لیے دشمن بن گئے اور اسی ناطے سے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا کردار بھی مشکوک ٹھہرا۔
امریکا کی ہمارے ساتھ طوطا چشمی ہر حوالے سے ہمارے لیے چشم کشا رہی ہے۔ بھارت سوویت یونین کا اتحادی اور بدترین سامراج دشمن رہا ہے‘ اس کے باوجود امریکا نے اپنے اتحادی پاکستان کیخلاف 65اور 71کی جارحیت پر بھارت کے کان مروڑنے کے لیے پاکستان کو امداد فراہم نہ کی اور جب بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو امریکا نے اس پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی ضرورت بھی محسوس نہیںکی۔ اس کے برعکس جب پاکستان نے بھارتی جارحانہ عزائم کے توڑ کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور 28 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تو امریکا نے اقوام متحدہ کے ذریعے اپنے اس اتحادی پر بدترین اقتصادی پابندیاں لگوا دیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل کرکے اپنے مفادات اسی امریکا کے ساتھ وابستہ کرلیے جس کیخلاف وہ سامراج مردہ بادکے نعرے لگوایا کرتا تھا۔ اسی تناظر میں امریکا نے ایٹمی عدم پھیلائو کی پالیسی میں پاکستان اور بھارت کے لیے الگ الگ معیار مقرر کیا۔ بھارت کی ایٹمی پھیلائو پر سرپرستی کی اور پاکستان کو گردن زدنی قرار دیا۔
2001ء میں امریکا ایک بڑی دہشت گردی کا شکار ہوا جسے امریکی نائن الیون سے تعبیر کیا گیا تو پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا لیکن اس کے باوجود معتوب ٹھہرا اور اسے القاعدہ اور طالبان کی شکل میں موجود انہی دہشت گردوں کی سرپرستی کا موردالزام ٹھہرایا گیا جو امریکی چھتری کے نیچے پل بڑھ کر دہشت گردی کی راہ پر آئے تھے۔ ان دہشت گردوں کو پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی فنڈنگ اور سرپرستی حاصل تھی جبکہ امریکا نے بھارت کی سرکوبی کے بجائے اسے اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اس کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے لاتعداد معاہدے کرلیے جن کے تحت اسے ہرقسم کا جدید اور روایتی اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرکے اسے علاقے کا تھانیدار بنانے کی سازش کی گئی جو درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازش تھی۔ جب پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے امریکا سے اس کے ساتھ بھی بھارت جیسا ایٹمی دفاعی تعاون کا معاہدہ کرنے کا تقاضا کیا تو امریکا نے ٹھینگا دکھا دیا جس پر پاکستان کو مجبوراً چین کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرنا پڑے۔
امریکا نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی کے معاہدے میں بھی بہت تنگ کیا اور ان طیاروں کی فروخت کے معاہدے کے بعد اس کی پوری رقم وصول کرنے کے باوجود طویل عرصے تک یہ طیارے پاکستان کے حوالے نہیں کیے گئے ، جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں کو تقویت پہنچانے کے مترادف تھا۔
پوری دنیایہ تسلیم کرتی ہے کہ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے اپنے بھاری جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں جبکہ پاکستان اپنے اس کردار کے ردعمل میں ہی بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ نتیجتاً ہمارے دس ہزار کے قریب سیکورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں سمیت ملک کے 60 ہزار سے زائد بے گناہ شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ امریکا نے اپنے فرنٹ لائن اتحادی کی ان قربانیوں کے عوض اتحادی سپورٹ فنڈ میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر سول اور فوجی امداد کی منظوری دی جو درحقیقت پاکستان کے بے بہا نقصانات کی معمولی سی تلافی تھی مگر پھر اس امداد کو بھی کڑی شرائط کے ذریعے دودھ میں ڈالی ہوئی مینگنیاں بنا دیا گیا۔ ڈیموکریٹ اوباما کے دور حکومت میں کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کی فوجی امداد کے استعمال پر کڑی شرائط کے پہرے بٹھائے گئے اور اس کے ذریعے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ پھر اس امداد میں کٹوتی بھی کردی گئی۔ اسی طرح پاکستان کی سول امداد کو بھی امریکی کانگرس میں بالخصوص ری پبلکنز ارکان کی جانب سے پابندیوں کی زد میں لانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور اوباما کے دوسرے دور کے آخری ایام میں ری پبلکن ارکان کی اکثریت کے بل بوتے پرامریکی کانگرس میں پاکستان کی فوجی امداد میں کٹوتی کا بل منظور بھی کرلیا گیا جسے اوباما نے بطور صدر ویٹو کرنے کا عندیہ دیا مگر ان کا یہ ارادہ نقش برآب ثابت ہوا۔
اگرچہ ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سے کوئی بھی پاکستان کا خیرخواہ نہیں رہا تاہم ری پبلکن پارٹی کی پالیسیاں ہمیشہ پاکستان کو راندہ درگاہ بنانے والی ہی رہی ہیں۔ اس تناظر میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے پاکستان کے لیے امریکی سختیوں کا آغاز فطری امر تھا جو اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر ملبہ ڈالنے میں پیش پیش رہے ہیں اور اس طرح وہ عملاً بھارتی عزائم کو تقویت پہنچاتے رہے ہیں۔
ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی امریکا نواز پالیسیوں کی وجہ سے فوجی سازوسامان کی بنیاد پر ہمارے دفاع کا انحصار امریکی فوجی امداد پر ہی ہے اور اس کے تحت ہمیں جو اسلحہ ملتا ہے‘ چین کا اسلحہ اس کا متبادل نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکا کو جدید ٹیکنالوجی والے اسلحہ کی تیاری میں چین پر برتری حاصل ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی عیاری کے ساتھ پاکستان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ چاہے بھی توبھی آسانی سے امریکا کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا ، ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد کو قرضے میں تبدیل کرنے کی تجویز درحقیقت امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک انتباہ اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ کتنی بھی پینگیں بڑھالے اسے اپنے دفاع کے لیے امریکا کے سامنے کشکول پھیلانا پڑے گا اور چونکہ اب پاکستان چین کے زیادہ قریب ہونے کی کوشش کررہاہے اس لیے امریکا پاکستان سے اپنی فوجی برتری کی پوری پوری قیمت وصول کرے گا۔ اس صورت حال میں اب امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور پاکستان کو امریکی فوجی سازوسامان کے بغیر اپنا دفاع کس طرح کرنا ہے ،یہ سوچنا اور اس حوالے سے واضح حکمت عملی وضع کرنا ہماری حکومت اور فوجی قیادت کاکام ہے اور ہماری حکومت اور فوجی قیادت کو اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ سوچ بچار کے بعد متبادل حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی کانگریس کو بھجوائی گئی سفارشات واضح طورپر پاکستان دشمنی پر مبنی ہیں کیونکہ اس سے جہاں ہمارا دفاعی نظام کمزور ہوگا وہیں اس سے ہماری سلامتی کے خلاف ہمارے دشمن بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوںگے۔ اس تناظر میں حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار کیونکر برقرار رکھا جائے۔ بہتر ہے اب ملک کی قومی خارجہ پالیسی کو خالصتاً قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے خود کو امریکی پلڑے سے نکال لیا جائے۔ آج خطے میں چین‘ روس اور پاکستان کے اتحاد کی فضا استوار ہو رہی ہے تو اسے مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ بھارت کی جانب سے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ اور توڑ کیا جاسکے۔
ابن عماد بن عزیز


متعلقہ خبریں


ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

آرمی چیف کا کراچی میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ وجود - بدھ 20 نومبر 2024

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر قائد میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ کیا اور دوست ممالک کی فعال شرکت کو سراہا ہے ۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 ...

آرمی چیف کا کراچی میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ

پی ٹی آئی کا احتجاج ، حکومت کا سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ وجود - منگل 19 نومبر 2024

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلام آباد میں 5 یا 5 سے زائد...

پی ٹی آئی کا احتجاج ، حکومت کا سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ

علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت وجود - منگل 19 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی، 24نومبر بہت اہم دن ہے ، عمران خان نے کہا کہ ...

علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت

سیکیورٹی فورسز شہادتوں سے گورننس کی خامیوں کو پورا کررہی ہیں، آرمی چیف وجود - منگل 19 نومبر 2024

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی میں رکاوٹ بننے اور فوج کو کام سے روکنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے ، کوئی یونیفارم میں ...

سیکیورٹی فورسز شہادتوں سے گورننس کی خامیوں کو پورا کررہی ہیں، آرمی چیف

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر