... loading ...
گزشتہ دنوں وطن عزیز میں ایک ٹھہرائو کے بعد دو المناک دہشت گردی کے واقعات نے قوم کو ہلا دیا۔ ان میں سے ایک مستونگ کے علاقے میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملہ تھا جس میں تیس کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے بعد گوادر میں تقریباً گیارہ پاکستانی مزدوروں کو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ سیاسی حکومت جو ایک طرف ’’ڈان لیکس‘‘ کے معاملے پر سویلین بالادستی کے ڈونگرے بجانے لگی ہے اس نے دوسرا بڑا خطرناک کام یہ کیا کہ ڈان لیکس کے معاملے کی آڑ میں سیکورٹی اداروں کے مورال پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے، وہ ادارے جو پاکستان اور پاکستانی قوم کا، سرحدوں پر اور اندرون ملک دفاع کررہے ہیں۔ اس سے پہلے جان بوجھ کر ’’نیشنل سیکورٹی پلان‘‘ کو ٹھکانے لگایا گیاجس کے نتائج اب مستونگ اور گوادر میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ اب افغانستان اور اس خطے میں نیا کھیل شروع ہونے لگا ہے۔جبکہ حکمرانوں کو اب صرف آئندہ الیکشن نظر آرہے ہیں کہ الیکشن ہوگا اور وہ دوبارہ برسراقتدار آجائیں گے لیکن اب وہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ الیکشن 2017ء میں ہو یا 2018ء میں اب حالات 2013ء والے نہیں رہے۔اس وقت اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔حکمران جماعت نواز لیگ ہو یا نام نہاد اپوزیشن کی جماعت پی پی پی اور ان کی دونوں کی اتحادی جماعتیں ،کسی کو بھی ملک میں ہونے والی معاشی ومعاشرتی تباہی کا ادراک نہیں، سب ملکی لوٹ کھسوٹ میں اپنا حصہ طلب کررہے ہیں۔اس تمام معاملے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جس طرح حکمرانوں کو پاناما لیکس پر عدالتی فیصلہ چار روز بعد سمجھ میں آیا تھا، اسی طرح’’ڈان لیکس‘‘ میں حکمرانوں کی پھرتیاں کیا رنگ جمائیں گی وہ بھی ایک دن سامنے آجائے گا۔کیونکہ یہ رپورٹ یا تو عدالت کے ذریعے افشا ہوگی جس کی ابتدا رائو تحسین کی جانب سے حکومت کو قانونی نوٹس ارسال کرکے ہوچکی ہے یا پھر یہ رپورٹ لیک ہوجائے گی جبکہ اب پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ بھی سر پر لٹک رہی ہے ،پھر کیا ہوگا؟ حکمرانوں کواس کا اندازہ نہیں۔۔۔
یہ سب معاملات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب مشرق وسطیٰ مزید جنگوں کا ایندھن بننے جارہا ہے تو دوسری جانب امریکا افغانستان میں نئے کھیل کا آغاز کرچکا ہے جس کے اثرات سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ میں چاروں طرف جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے امریکا نے سعودی عرب کے ساتھ سو بلین ڈالر مالیت کے اسلحے کا سودا کرلیا ہے جس کے بارے میں عرب صحافتی ذرائع بتارہے ہیں کہ یہ معاہدہ آگے چل کر تین سو بلین ڈالر کے معاہدے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔غالباً تاریخ انسانی میں اتنا بڑا عسکری معاہدہ شاید ہی سننے کو ملا ہو۔ اندازہ لگایا جائے کہ اتنی بھارتی مالیت کا اسلحہ ان سمندروں کے ادگرد آنے والا ہے، جن میں پاکستانی سمندر بھی شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوباما دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے ایران کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا گیا تھا کہ اب اسے خطے میں کوئی روکنے والا نہیں۔ عالمی سیاست میں چہرے اسی لیے تبدیل کیے جاتے ہیں کہ آنے والے کو ان معاہدوں کو منسوخ کرنے میں کوئی عار محسوس نہ ہو، نیا آنے والا یہی کہے گا کہ یہ ’’پچھلے‘‘ کی پالیسی تھی جو اس کے خیال میںملک کے مفاد میں نہیں ، یہی بات ٹرمپ نے کی اور اوباما کے ایران کے ساتھ معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناکر اسے ختم کرڈالا۔ اوباما دور میں ایرانی اسی خوشی کے نشے میں سرشارہوکرعراق کے بعد شام پر چڑھ دوڑے تھے، یمن اور لبنان میں اپنی پراکسیز کو مضبوط کرنے لگے تھے لیکن اب کیا ہوگا۔ اس سارے معاملے کا ایک فائدہ عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ نے یہ اٹھایا کہ عربوں کو ایرانی پیش قدمی سے خوفزدہ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تاکہ عرب ریاستیں اپنے دفاع کے لیے بھاری مالیات کا اسلحہ اسی امریکا سے خریدیں جس سے وہ ایران کی قربتوں کی وجہ سے ناراض بھی ہیں۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے مکمل غلبے سے پہلے عربوں اور ایرانیوں کو مسلک کی بنیاد پر لڑاکر اسرائیل کا راستہ پوری طرح صاف کردیا جائے۔ایران پر سے جب اوباما دور میں پابندیاں ختم ہوئیں تو اس نے سالوں سے منجمد اثاثوں کو اپنی بدحال عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اسے عرب ملکوں میں اپنی پراکسیز مضبوط کرنے میں صرف کردیا۔یوں یہ قیمتی سرمایہ ایرانی عوام کے کام نہ آسکا۔اس کے ساتھ ہی عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ نے داعش جیسے عناصر کو جنم دیا جنہوں نے سلفی مسلک کا دعویٰ کرکے نام نہاد خلافت کا اعلان کیا اورعراق اور شام میں سنی مزاحمت کاروںکے خلاف ہی ہتھیار اٹھا لیے اور سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ایک مرحلے پر انہوں نے شمالی عراق سے جنوب کی جانب اس تیزی سے یلغار کی کہ امریکیوں کی تربیت یافتہ عراقی فوج اور ایران نواز جنگی ملیشیاؤں نے تیزی کے ساتھ پسپائی اختیار کی اس کے بعد انہی جنگی ملیشیائوں کو ہوائی کور دے کر امریکا داعش پر حملہ آور ہوگیا۔۔۔ ایک ایسا خونی کھیل جس میں امریکا نے خوب کردار ادا کیا۔۔۔اب اس نے اس سعودی عرب کے ساتھ سو بلین ڈالر کے اسلحے کا معاہدہ کیا ہے جو بشار الاسد کو اقتدار سے نہ ہٹانے پر امریکا سے ناراض تھا۔یوں اب کھیل کا دوسرا اور اہم حصہ شروع ہونے والا ہے جس کی لپیٹ میں وسطی اور جنوبی ایشیا بھی آنے والے ہیں۔
افغانستان میں راستہ ہموار کرنے کے لیے جب طالبان پر مذاکرات کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو حکمت یار کو سیاسی عمل کی شروعات کا لالی پاپ دیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں ہم اشرف غنی اور اس کی نام نہاد سیکورٹی فورس یا این ڈی ایس کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ ان کا اس کھیل میں کردار ایک معمولی مہرے کا ساہے۔امریکی اس بات سے واقف ہیں کہ آنے والے وقت میں اگر خطے میں جنگ مزید بھڑکتی ہے تو حکمتیار کا افغان طالبان کے ساتھ جنگی اتحاد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مزید تنگنی کا ناچ نچادے گا، وہ بھی اب ایسی سورت میں جبکہ روس اور چین کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابل میں حکمتیار کا شاندار استقبال کیا گیا اور اب کابل انتظامیہ انہیں حکومت میں وزارتیں دینے سے پہلے ان کے جنگجوئوں کو غیر مسلح کرنے پر زور دے رہی ہے جسے حکمتیار کی حزب اسلامی نے مسترد کردیا ہے۔ جبکہ کابل آمد کے بعد انہوں نے افغان عوام سے خطاب میں افغان طالبان کو ہتھیار ڈال کر سیاسی عمل میں شریک ہونے کی دعوت بھی دی تھی لیکن افغان طالبان کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔غالباً وہ حکمتیار سے پہلے ہی اس بات کو جانتے تھے کہ یہ سارا کھیل امریکی بندوبست کے تحت کھیلا جارہا ہے۔پاکستان نے حکمتیار کی کابل آمد کو اس لیے سراہا تھا کہ افغانستان کے حالات جلد از جلد ٹھیک ہوں، وہاں سیاسی نظام مستحکم ہو تاکہ اس کے خوشگوار اثرات پاکستان پر بھی پڑیں۔ یہ خواہش اپنی جگہ صائب ہے لیکن حالات کچھ اور ہی ہونے جارہے ہیں۔ ایسا صاف محسوس ہورہا ہے کہ حزب اسلامی اور اشرف غنی کٹھ پتلی حکومت کا ہنی مون اب چند دنوں کی بات ہے۔
ایسا ہی کھیل امریکا نے چند برس قبل بھی کھیلا تھاجب خطے میں دو اہم واقعات رونما ہوئے تھے ایک جانب امریکا نے ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کو دہشت گرد قرار دیا تھا تو دوسری جانب پاکستانی سول حکومت نے بھارت کے ساتھ دوستی کی مزید پینگیں بڑھاتے ہوئے وزارت خارجہ سطح پر مذاکرات کرکے نئے’’ آزادانہ ویزہ نظام‘‘ کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے اس کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت کی جانب سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس کے مطابق ’’ماضی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے‘‘ ۔ اس اعلان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف امریکا کی مدد سے کس قسم کی سفارتی کامیابیاں حاصل کررہا تھا۔ حالانکہ پاکستان تو اپنے قیام کے بعد سے ہی بھارت کی سازشوں کے حوالے سے یرغمال بناہوا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا پاکستانی دریائوں پر بند باندھنے کی ساز ش ہو یا دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاملات ہوں، اس میں پاکستان کو ہی یرغمال بنایا گیا، جبکہ بھارت امریکا اور اسرائیل کی آشیرواد سے مسلسل پیش قدمیوں میں مصروف رہا اس لیے اس معاہدے میںپاکستانی وزارت خارجہ کا کردار نہ تو پاکستانی عوام کی ترجمانی کرتا تھا اور نہ ہی ایک آزاد ملک کے سفارتی اصولوں کے مطابق سمجھا جاسکتا تھا ۔ دوسری جانب مغربی سمت سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے دہشت گرد گروپ قرار دے کر خطے میں اپنی دہشت گردانہ پالیسیوں کی ایک نئی چال متعارف کرائی تھی۔جہاں تک مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک کا تعلق ہے تو سرے سے اس نیٹ ورک کا پاکستان میںکوئی وجود نہیںتھا۔ یہ ہمیشہ سے افغانستان کے طالبان کا حصہ رہا ہے اور حقانی کا لاحقہ محض جلال الدین حقانی کی وجہ سے امریکا نے وضع کیا تھا۔ جلال الدین حقانی اپنے دور طالب علمی میں اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ کے فارغ التحصیل تھے اس لیے وہ اعزازی طور پر اپنے نام کے آگے حقانی کا لاحقہ استعمال کرتے تھے ورنہ نہ تو یہ جلال الدین حقانی کا خاندانی نام تھا اور نہ ہی قبائلی نام ۔ اس نام کا چرچہ امریکا نے خطے میں اپنے مفادات کے تحت کیا۔ جبکہ جلال الدین کے گروپ کی جانب سے ہمیشہ سے اس بات کی تردید کی گئی کہ ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ افغانستان کے طالبان کا حصہ ہیں اور طالبان کے رہنما کو اپنا امیر تسلیم کرتے ہیں اور ان کے حکم کے برخلاف کسی بھی قسم کی پالیسی اختیار نہیں کرسکتے۔جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے قبیلہ سے ہے اور اسی لیے وہ طالبان کے ساتھ افغانستان کی جنگ آزادی میں امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکا نے ہمیشہ حقانی گروپ کی رٹ لگا کر اسے افغان طالبان سے منفرد کرنے کی کوشش کی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب سے امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا ہے اس کی کوشش رہی ہے کہ افغان طالبان کے اندر پھوٹ ڈالی جائے اور پھر انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ہر گروپ سے اپنے من مانے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ ان معاملات کا آغاز 2005ء سے ہوا تھا جب افغان طالبان کے حملوں میں شدت آنا شروع ہوئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اچانک صورتحال بدلنا شروع ہوگئی۔ امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی جو کابل میں فتح کا جھنڈا گاڑ کر بیٹھ گئے تھے، ان کا کابل سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا۔ طالبان 2005ء تک اپنی صفیں درست کرچکے تھے اور امریکا اور نیٹو کو اب وہ فصل کاٹنا تھی جو وہ گزشتہ پانچ برسوں میں افغانستان میں بو چکے تھے۔یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر افغان طالبان 2005ء میں اپنی تحریک مزاحمت میں تیزی نہ لاتے تو امریکا مشرف دور میں ہی پاکستان کے خلاف اپنے معاندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات پر اتر آتا کیونکہ وہ افغانستان میں صرف افغانستان کے لیے نہیں آیا تھابلکہ پاکستان کے جوہری اثاثے اس کا سب سے بڑا ہدف تھے اور ہیں،کیونکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر ہاتھ صاف کیے بغیر وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے دجالی ایجنڈے کو مکمل نہیں کرسکے گا۔ لیکن ان سارے منصوبوں پر پانی اس وجہ سے پھر گیاکہ افغان طالبان امریکا کو افغانستان میں تاریخ کا سبق سکھانے پہاڑوں سے اترنا شروع ہوگئے اور امریکا اور اسرائیل کے دجالی منصوبے جہاں تھے وہیں رک گئے۔
ان حالات سے بچنے کے لیے امریکا میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ طالبان کو مختلف کیٹیگریوں میں تقسیم کرکے انہیں آئندہ حکومت میں شمولیت اور مفادات کی ترغیب دے کر نام نہاد امن پر مجبور کیا جائے اور ان کے اندر پاکستان دشمنی کا بیج بویا جائے تاکہ انہیں یہ باور کرایا جاسکے کہ پاکستان ہی نے امریکا کو افغانستان میں سب سے زیادہ سہولیات مہیا کرکے افغانوں کے ساتھ غداری کی ہے اس طرح افغان طالبان کے اندر پاکستان کی ہمدردیاں ختم ہوں گی اورآئندہ آنے والے حکومتی سیٹ اپ میں پاکستان نواز عناصر نہ ہونے کے برابررہ جائیں گے جس کا امریکا کے بعد سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوگا جو افغانستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے نیٹ ورک بچھائے بیٹھا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی نظر التفات سب سے زیادہ مبینہ ’’حقانی گروپ‘‘ پر تھی کیونکہ یہ افغان طالبان کا ایک بہت مضبوط ونگ کہلاتا ہے مگر امریکا نے ہمیشہ سے طے شدہ پالیسی کے تحت اس گروپ کو مذاکرات پر مجبور کیا تاکہ اسے باقی افغان طالبان سے الگ کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی کس حد تک مجبور تھے اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2005ء سے امریکی اس حوالے سے صبر کیے بیٹھے تھے کہ کسی نہ کسی طرح حقانی گروپ کو طالبان سے الگ کیا جاسکے یا ان کے ذریعے باقی طالبان کو بھی مذاکرات کی میز تک لایا جاسکے ۔امریکا کے اس صبر کی کمر 2012ء میں جاکر ٹوٹی جب اسے اس بات کا پوری طرح ادراک ہوچکا تھا کہ اس گروپ کو کسی بھی قیمت پر توڑا نہیں جاسکتا۔
اب نئے حالات میں امریکا نے افغانستان میں جس نئے کھیل کی بنا ڈالی ہے وہ بھی مستقبل قریب میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ایک طرف حکمتیار کو کابل بلایا گیا تو دوسری جانب مزید پانچ ہزار امریکی فوج افغانستان بھیجنے کا اعلان کیااور مزیدیہ کہ برطانیہ نیٹو مملک سے بھی مزید فوج بھیجنے کی درخواستیں کررہا ہے۔ لیکن اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر روس ایشیا میں اپنے مفادات کی خاطر افغان معاملات میں مداخلت کربیٹھا تو جنگی توازن فوراًافغان طالبان کے حق میں پلٹ جائے گا۔خطے میں عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کو سب سے بڑی رکاوٹ کا سامنا پاکستانی فوج کی شکل میںہے جس کے لیے کئی برس قبل این آر او کی شکل میں ایک عالمی سیاسی بندوبست کے تحت زرداری اور نواز شریف کی شکل میں بھی پاکستان میں بڑے کھیل کی ابتدا کی گئی تھی، یہ کھیل اب اپنے کلائیمکس کو پہنچ چکا ہے۔ امریکا اور عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے دفاعی اداروں کو داخلی سیاسی بحرانوں میں بری طرح الجھاکر ان کے مورال کو گرانا چاہتی ہے ۔غالباً اسی نکتے کو سمجھتے ہوئے پاک فوج نے ڈان لیکس جیسے بحران میں ایک قدم پیچھے ہٹایا تاکہ داخلی بحرانوں سے بچتے ہوئے پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا جائے ۔ایل او سی پر بھارت کی مسلسل شرانگیزی، چمن بارڈر پر افغانستان کی جارحیت کی کوشش اور ایران کی جانب سے پاکستان کو دھمکی، ایک ہی منصوبے کے کئی رخ ہیں۔ عالمی شطرنج کی بساط میں کلیدی مہرے اپنی جگہ بدل چکے ہیں۔ اگر پاکستان نے بروقت اس بساط پر مناسب چال نہ چلی توتمام نقصان اس خطے میں بسنے والے مسلمانوں کا ہوگا۔اس کے لیے جلد ہی سخت اور کڑوے فیصلے لینا ہوں گے کیونکہ اب وقت بہت ہی کم ہے۔۔۔