... loading ...
پاکستان کی سیاست وصحافت نے ڈان لیکس پرجیسے تیور تبدیل کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ لڑائی اپنے آغاز میں دراصل سیاسی وعسکری تنازع کی تاریخ سے جڑی تھی مگر اس نے اپنے ابتدائی نتائج تاریخ سے مختلف دیے۔ کچھ” نادان دانشور“ اِسے بدلے ہوئے پاکستان سے تعبیر کررہے ہیں۔ درحقیقت اس کے ابتدائی نتائج سے یہ خوش کن اور آرزو گزیدہ فیصلہ صادر کرنا زیادہ تباہ کن ثابت ہوگا۔ یہ پہلو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اقتدار اور اختیار کی جنگ کے نتائج اخلاقی نہیں ہوتے۔اگرچہ اس کا اظہاراور طریقہء پیشکش اخلاقی نوعیت کا ہوتا ہے۔لیکن اپنی نہاد میں یہ نتائج خالصتاً وقتی اور جبری ہوتے ہیں جسے متعلقہ قوتیں زبردست الفاظ اورزرق برق اخلاقی پیغامات میں لپیٹ کر پیش کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ذرائع ابلاغ سے نشست دراصل اس کے سوا کچھ نہیں۔ ٹھیک اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی پر اس وقت فوج کو مبارک باد دینا بھی دراصل عسکری انا کو پہنچنے والی ٹھیس پر اُنہیں شاد رکھنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شیر کو زخمی چھوڑنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ چنانچہ اب فوج کوہمارا وقار واعتبار باور کرا کر اُسے ڈان لیکس کے نتائج سے پہنچنے والے دھچکے سے باہر نکالنے کی ایک شعوری کوشش کی جارہی ہے جو کچھ اتنی غلط بھی نہیں۔ مگر اس پورے بکھیڑے کا واحد یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی و عسکری تعلقات کی بحث کا تناظر دراصل طاقت کے فلسفے میں چُھپا ہے۔ قومی ریاستوں کا پورا کھیل طاقت کے گزشتہ مظاہر کو دراصل تہذیب دینے کے لیے تھا۔ دنیا اس میں ناکام ہوگئی۔ پاکستان میں بھی اُلٹ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یاد رکھیں! طبیعات (فزکس) میں توانائی کو جو حیثیت حاصل ہے ٹھیک وہی حیثیت اجتماعیت میں ”قوت“ کو حاصل ہے۔
برٹرنڈ رسل نے اپنی کتاب”POWER – A NEW SOCIAL ANALYSIS“ میں لکھا تھا کہ قدیم ادوار میں اکثر لوگ طلسمی قوت حاصل کرنے کے لیے خود کو شیطان کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے اور آج کے اس جدید دور میں لوگ سائنس سے یہی قوت حاصل کرتے ہیں۔ہم جس سائنس کے ابھی بَھرّے میں ہیں، اس کے متعلق یہ حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ بنیادی طور پر کس کی خدمت گار رہی ہے۔ بنی نوعِ انسانیت سے زیادہ کہیں یہ طاقت کی ایک ایجنٹ کے طور پر تو بروئے کار نہیں رہی؟ اس نقطہء فروع سے قطع نظر درحقیقت سائنس بھی ایک قوت ہی ہے۔ فطرت پرست جان رے بھی اپنے ذہن کو غلبہ کی اس نفسیات سے نہیں نکال سکا تھا۔ چنانچہ سترہویں صدی میں جب اُس نے ایک خوب صورت چہرے کی تعریف کرنا چاہی تو اُس کے پاس الفاظ جنگجویانہ ہی تھے کہ خوب صورتی ایک طاقت اور مسکراہٹ اُس کی ایک تلوار ہے۔ بہرحال برٹرنڈ رسل طلسمی قوت کے حصول کے لیے انسانوں کو جس شیطان کے ہاتھ فروخت ہوتا دیکھتا ہے۔ اُس کی اصل دُرگت تو جدید تہذیب نے بنائی ہے۔ ملٹن کے ”شیطان“ کو پڑھ لیجیے بات پوری طرح سمجھ میں آجائے گی۔ ملٹن کا شیطان گناہ گاری و بدچلنی اور پرہیزگاری ونیکوکاری میں کوئی فرق نہیں کرتا۔طاقت کے حصول میں دونوں طرح کی اقدار کی اسی یکجائیت کے ساتھ آج کی جدید ریاستیں پوری طرح جلوہ گرہیں۔چنانچہ اُن کے اعمال کا کوئی اخلاقی نتیجہ نکالنا خود کومحض ایک فریب میں ڈالنا ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی وعسکری بالادستی کی بحث میں لوگ خود کو دو مختلف صفوں میں منقسم کرکے اپنی اپنی تعبیرات کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر وہ خود فریبی میں ایک ہی جیسے لگ رہے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے سیاسی وعسکری تناؤ میں جنم لینے والے واقعات نے پاکستان کے سیاسی وصحافی حلقوں میں ایک ایسی کھیپ تیار کردی ہے جو اس تناؤ میں منفعت بخش راہیں تلاش کرتے ہیں۔ دولت بجائے خود قوت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ۔ جدید ریاستوں نے معاشی قوت کو قومی قوت کی تشریح کا ایک غالب ذریعہ مان لیا ہے۔ افراد بھی معاشرتی زندگی میں بروئے کار آنے کے لیے نفسیاتی طور پر اسی ذہن سے آلودہ ہے۔ پاکستان کے اندر تمام انفرادی سرگرمیاں اسی نقطہء نظر سے جاری ہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی وعسکری تنازع میں کسی فریق کو حمایت دینے کا معاملہ بھی اسی بدترین نفسیات سے جڑاہوا ہے۔ اس کھیل نے رفتہ رفتہ سیاسی وعسکری فریقین کو کمزور کردیا ہے اور اس کے حامی ومخالف عناصر کو طاقت ور بنا دیا ہے۔ یہ بالکل وہی ماجرا ہے جو کبھی دشمن کے خلاف پہلی دفاعی قطار بنانے کے لیے غیر ریاستی جتھوں کو ”مجاہدین“ کے نام پر پالنے کی صورت میں سامنے آیا اور پھروہی مجاہدین اپنے بنانے والے کے ہاتھوں سے نکل کر دشمن کے ہی ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ ڈان لیکس کے تنازع میں اس کا ایک دلچسپ ترین مگر افسوس ناک مظاہرہ ہوا ہے۔ انگلی والی سرکار کے اشارے کے انتظار میں عمران خان کے 2014 کے دھرنے میں کیا ہوا تھا؟ صحافتی حلقے اسی طرح تقسیم تھے۔ تب محترم مجیب الرحمان شامی نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو مستعفی ہونے کے لیے کہا تھا۔آج کل مجیب شامی صاحب کا ذکرحمایت ومخالفت کی ایک خاص فضاءمیں ہونے لگاہے۔ مگر وہ اپنے مخالفین کے نقطہ نظر سے بھی جو کچھ قراد یے جائیں ، اُن کے بارے میں یہ سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک قاعدے اور قرینے سے گفتگو کرتے ہیں اور اُن کے پروگرام میں الفاظ کی نشست وبرخاست کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اُن کے تب کے الفاظ نہایت محتاط اور شائستہ تھے۔ مگر اُنہیں فوراً ہی اس پر سخت ترین ردِ عمل برداشت کرنا پڑا، اور ٹیلی ویژن کی انتظامیہ کو ”تنبیہ آمیز نصیحت“ کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ذرا دوسرامنظر ملاحظہ کیجیے۔ ڈان لیکس کے معاملے میں جو حالات رونما ہوئے اُس پر خود عسکری حلقوں کے حامی عناصر نے وہ اودھم اور ہڑبونگ مچایا کہ اُن کی جانب سے فوجی سربراہ تک کے استعفیٰ کی بات سامنے آگئی۔ مگر اس پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ2014 سے یہاں تک آتے آتے اس عرصے میں فرق کیا پڑا ہے؟ مگر سیاسی وعسکری تناؤ کے دل دہلادینے والے حالات میں ہمیں کم ازکم اس امر پر لطف لینے کا یہ موقع تو ضرور ملا ہے کہ اب تک عسکری حلقوں کے خلاف بات کرنے والے سیاسی بالادستی کے حامی عناصر فوج کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ اور سیاسی حکومت کے خلاف لعن طعن اور زبانیں دراز رکھنے اور عسکری حمایت پر کمربستہ رہنے والے عناصر اپنے ہی ”سرپرستوں“ کے خلاف لب کشاں ہیں۔ دلچسپ طور پر اپنے سرپرستوں کے خلاف تنقید کرنے والے یہ عناصر جس لب ولہجہ اور لغت میں بات کررہے ہیں ، وہ تو سیاسی حکومت کے حامی عناصر نے بدترین حالات میں بھی اُن کے خلاف استعمال نہیں کی تھی۔ یہاں ملٹن کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں جس میں بدچلنی اور نیک چلنی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔یہ پورا کھیل طاقت کا ہے۔ اور طاقت کے مظاہر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جس کا تناظر نیک وبد نہیں بلکہ بس فائدہ ونقصان ہوتا ہے۔ عسکری حلقوں کے لیے اپنے گھگھو گھوڑوں اور چابی بھرے کھلونوں کی یہ” نرم بغاوت“ اس لیے قابل قبول ہے کہ یہی کھلونے بعد میں بھی بجیں گے۔ اور سیاسی بالادستی کے حامی عناصر کی طرف سے فوج کی حمایت میں ادا کیے گئے حالیہ حامیانہ الفاظ اس لیے بھی قابل قبول نہیں کیونکہ یہ کل ایک بار پھر نئے بحران میں اپنی وہی پرانی ڈفلی بجا رہے ہوں گے۔ ہم ایسے عامیوں کو اِسے صحیح و غلط کی میزان پر تولنے کی ضرورت نہیں یہ محض منفعت ومضرت کا گوشوارہ ہے۔مگر اس پر لطف لینے میں کیا قباحت ہے؟