وجود

... loading ...

وجود

لطف

پیر 15 مئی 2017 لطف


پاکستان کی سیاست وصحافت نے ڈان لیکس پرجیسے تیور تبدیل کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ لڑائی اپنے آغاز میں دراصل سیاسی وعسکری تنازع کی تاریخ سے جڑی تھی مگر اس نے اپنے ابتدائی نتائج تاریخ سے مختلف دیے۔ کچھ” نادان دانشور“ اِسے بدلے ہوئے پاکستان سے تعبیر کررہے ہیں۔ درحقیقت اس کے ابتدائی نتائج سے یہ خوش کن اور آرزو گزیدہ فیصلہ صادر کرنا زیادہ تباہ کن ثابت ہوگا۔ یہ پہلو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اقتدار اور اختیار کی جنگ کے نتائج اخلاقی نہیں ہوتے۔اگرچہ اس کا اظہاراور طریقہء پیشکش اخلاقی نوعیت کا ہوتا ہے۔لیکن اپنی نہاد میں یہ نتائج خالصتاً وقتی اور جبری ہوتے ہیں جسے متعلقہ قوتیں زبردست الفاظ اورزرق برق اخلاقی پیغامات میں لپیٹ کر پیش کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ذرائع ابلاغ سے نشست دراصل اس کے سوا کچھ نہیں۔ ٹھیک اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی پر اس وقت فوج کو مبارک باد دینا بھی دراصل عسکری انا کو پہنچنے والی ٹھیس پر اُنہیں شاد رکھنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شیر کو زخمی چھوڑنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ چنانچہ اب فوج کوہمارا وقار واعتبار باور کرا کر اُسے ڈان لیکس کے نتائج سے پہنچنے والے دھچکے سے باہر نکالنے کی ایک شعوری کوشش کی جارہی ہے جو کچھ اتنی غلط بھی نہیں۔ مگر اس پورے بکھیڑے کا واحد یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی و عسکری تعلقات کی بحث کا تناظر دراصل طاقت کے فلسفے میں چُھپا ہے۔ قومی ریاستوں کا پورا کھیل طاقت کے گزشتہ مظاہر کو دراصل تہذیب دینے کے لیے تھا۔ دنیا اس میں ناکام ہوگئی۔ پاکستان میں بھی اُلٹ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یاد رکھیں! طبیعات (فزکس) میں توانائی کو جو حیثیت حاصل ہے ٹھیک وہی حیثیت اجتماعیت میں ”قوت“ کو حاصل ہے۔
برٹرنڈ رسل نے اپنی کتاب”POWER – A NEW SOCIAL ANALYSIS“ میں لکھا تھا کہ قدیم ادوار میں اکثر لوگ طلسمی قوت حاصل کرنے کے لیے خود کو شیطان کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے اور آج کے اس جدید دور میں لوگ سائنس سے یہی قوت حاصل کرتے ہیں۔ہم جس سائنس کے ابھی بَھرّے میں ہیں، اس کے متعلق یہ حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ بنیادی طور پر کس کی خدمت گار رہی ہے۔ بنی نوعِ انسانیت سے زیادہ کہیں یہ طاقت کی ایک ایجنٹ کے طور پر تو بروئے کار نہیں رہی؟ اس نقطہء فروع سے قطع نظر درحقیقت سائنس بھی ایک قوت ہی ہے۔ فطرت پرست جان رے بھی اپنے ذہن کو غلبہ کی اس نفسیات سے نہیں نکال سکا تھا۔ چنانچہ سترہویں صدی میں جب اُس نے ایک خوب صورت چہرے کی تعریف کرنا چاہی تو اُس کے پاس الفاظ جنگجویانہ ہی تھے کہ خوب صورتی ایک طاقت اور مسکراہٹ اُس کی ایک تلوار ہے۔ بہرحال برٹرنڈ رسل طلسمی قوت کے حصول کے لیے انسانوں کو جس شیطان کے ہاتھ فروخت ہوتا دیکھتا ہے۔ اُس کی اصل دُرگت تو جدید تہذیب نے بنائی ہے۔ ملٹن کے ”شیطان“ کو پڑھ لیجیے بات پوری طرح سمجھ میں آجائے گی۔ ملٹن کا شیطان گناہ گاری و بدچلنی اور پرہیزگاری ونیکوکاری میں کوئی فرق نہیں کرتا۔طاقت کے حصول میں دونوں طرح کی اقدار کی اسی یکجائیت کے ساتھ آج کی جدید ریاستیں پوری طرح جلوہ گرہیں۔چنانچہ اُن کے اعمال کا کوئی اخلاقی نتیجہ نکالنا خود کومحض ایک فریب میں ڈالنا ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی وعسکری بالادستی کی بحث میں لوگ خود کو دو مختلف صفوں میں منقسم کرکے اپنی اپنی تعبیرات کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر وہ خود فریبی میں ایک ہی جیسے لگ رہے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے سیاسی وعسکری تناؤ میں جنم لینے والے واقعات نے پاکستان کے سیاسی وصحافی حلقوں میں ایک ایسی کھیپ تیار کردی ہے جو اس تناؤ میں منفعت بخش راہیں تلاش کرتے ہیں۔ دولت بجائے خود قوت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ۔ جدید ریاستوں نے معاشی قوت کو قومی قوت کی تشریح کا ایک غالب ذریعہ مان لیا ہے۔ افراد بھی معاشرتی زندگی میں بروئے کار آنے کے لیے نفسیاتی طور پر اسی ذہن سے آلودہ ہے۔ پاکستان کے اندر تمام انفرادی سرگرمیاں اسی نقطہء نظر سے جاری ہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی وعسکری تنازع میں کسی فریق کو حمایت دینے کا معاملہ بھی اسی بدترین نفسیات سے جڑاہوا ہے۔ اس کھیل نے رفتہ رفتہ سیاسی وعسکری فریقین کو کمزور کردیا ہے اور اس کے حامی ومخالف عناصر کو طاقت ور بنا دیا ہے۔ یہ بالکل وہی ماجرا ہے جو کبھی دشمن کے خلاف پہلی دفاعی قطار بنانے کے لیے غیر ریاستی جتھوں کو ”مجاہدین“ کے نام پر پالنے کی صورت میں سامنے آیا اور پھروہی مجاہدین اپنے بنانے والے کے ہاتھوں سے نکل کر دشمن کے ہی ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ ڈان لیکس کے تنازع میں اس کا ایک دلچسپ ترین مگر افسوس ناک مظاہرہ ہوا ہے۔ انگلی والی سرکار کے اشارے کے انتظار میں عمران خان کے 2014 کے دھرنے میں کیا ہوا تھا؟ صحافتی حلقے اسی طرح تقسیم تھے۔ تب محترم مجیب الرحمان شامی نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو مستعفی ہونے کے لیے کہا تھا۔آج کل مجیب شامی صاحب کا ذکرحمایت ومخالفت کی ایک خاص فضاءمیں ہونے لگاہے۔ مگر وہ اپنے مخالفین کے نقطہ نظر سے بھی جو کچھ قراد یے جائیں ، اُن کے بارے میں یہ سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک قاعدے اور قرینے سے گفتگو کرتے ہیں اور اُن کے پروگرام میں الفاظ کی نشست وبرخاست کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اُن کے تب کے الفاظ نہایت محتاط اور شائستہ تھے۔ مگر اُنہیں فوراً ہی اس پر سخت ترین ردِ عمل برداشت کرنا پڑا، اور ٹیلی ویژن کی انتظامیہ کو ”تنبیہ آمیز نصیحت“ کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ذرا دوسرامنظر ملاحظہ کیجیے۔ ڈان لیکس کے معاملے میں جو حالات رونما ہوئے اُس پر خود عسکری حلقوں کے حامی عناصر نے وہ اودھم اور ہڑبونگ مچایا کہ اُن کی جانب سے فوجی سربراہ تک کے استعفیٰ کی بات سامنے آگئی۔ مگر اس پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ2014 سے یہاں تک آتے آتے اس عرصے میں فرق کیا پڑا ہے؟ مگر سیاسی وعسکری تناؤ کے دل دہلادینے والے حالات میں ہمیں کم ازکم اس امر پر لطف لینے کا یہ موقع تو ضرور ملا ہے کہ اب تک عسکری حلقوں کے خلاف بات کرنے والے سیاسی بالادستی کے حامی عناصر فوج کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ اور سیاسی حکومت کے خلاف لعن طعن اور زبانیں دراز رکھنے اور عسکری حمایت پر کمربستہ رہنے والے عناصر اپنے ہی ”سرپرستوں“ کے خلاف لب کشاں ہیں۔ دلچسپ طور پر اپنے سرپرستوں کے خلاف تنقید کرنے والے یہ عناصر جس لب ولہجہ اور لغت میں بات کررہے ہیں ، وہ تو سیاسی حکومت کے حامی عناصر نے بدترین حالات میں بھی اُن کے خلاف استعمال نہیں کی تھی۔ یہاں ملٹن کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں جس میں بدچلنی اور نیک چلنی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔یہ پورا کھیل طاقت کا ہے۔ اور طاقت کے مظاہر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جس کا تناظر نیک وبد نہیں بلکہ بس فائدہ ونقصان ہوتا ہے۔ عسکری حلقوں کے لیے اپنے گھگھو گھوڑوں اور چابی بھرے کھلونوں کی یہ” نرم بغاوت“ اس لیے قابل قبول ہے کہ یہی کھلونے بعد میں بھی بجیں گے۔ اور سیاسی بالادستی کے حامی عناصر کی طرف سے فوج کی حمایت میں ادا کیے گئے حالیہ حامیانہ الفاظ اس لیے بھی قابل قبول نہیں کیونکہ یہ کل ایک بار پھر نئے بحران میں اپنی وہی پرانی ڈفلی بجا رہے ہوں گے۔ ہم ایسے عامیوں کو اِسے صحیح و غلط کی میزان پر تولنے کی ضرورت نہیں یہ محض منفعت ومضرت کا گوشوارہ ہے۔مگر اس پر لطف لینے میں کیا قباحت ہے؟


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر