... loading ...
قبرستان جانا ہمارے لیے کبھی بھی کوئی خوش کن تجربہ نہیں رہا اور ہمارے قبرستان تو ویسے بھی گندگی اور بے ترتیبی کی وہ تصویر بنے ہوتے ہیں جن کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آپ لوگوں کا بھی قبرستانوں کے حوالے سے تجربہ کچھ کم مختلف نہیں ہوگا۔ لیکن کیا کریں دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے جانے والے اپنے پیاروں کی محبت اور تعلق ان کی قبروں پر جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شب برأت پر قبرستان جانا یوں بھی روایت ہے سو ہم بھی مغرب کے بعد وارد گورستان ہوئے کہ ہمارے والدین اور ایک بھائی وہاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ بڑی رات ہونے کی وجہ سے قبرستان کے داخلی راستے پر کچھ صفائی ستھرائی نظر آئی۔ کسی تنظیم نے ایک جنریٹر کا انتظام بھی کر رکھا تھا جس کی مدد سے قبرستان میں روشنی کا انتظام کردیا گیا تھا۔لیکن یہ انتظام پورے قبرستان میں کیا جانا مشکل تھا اس لیے کچھ حصہ تو روشن تھا باقی آگے جانے والے اپنے موبائل فونز کی ٹارچ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ بہت رش تھا لوگ چلنے کے لیے کوئی راستہ نہ ہونے کے باعث قبروں پر کودتے پھاندتے ہوئے اپنے پیاروں کی قبروں تک پہنچ رہے تھے۔ کوئی قبر کچی ،کوئی پکی ،کوئی ایک منزلہ تو کوئی دو منزلہ اس لیے یہ کود پھاند بھی بچوں کا کھیل نہیں تھی۔ ایک ہاتھ میں پانی کا کین دوسرے ہاتھ میں گلاب کی پتیوں سے بھرا شاپر تھامے توازن قائم رکھتے ہوئے اونچی نیچی قبروں کو پھلانگنا کسی پل صراط پر چلنے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ قبروں کی بے حرمتی اور ان میں محو خواب لوگوں کی بے سکونی الگ روح کو زخمی کیے دیتی تھی لیکن مجبوری تھی کہ اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنی بھی ضروری تھی۔ ایسے میں وہ لوگ خوش نصیب لگے جن کے عزیزوں کی قبریں قبرستان کے شروع میں تھیں کہ زیادہ تگ و دو کے بغیر قبروں تک پہنچ گئے، پانی ڈالا ،پھول چڑھائے اور فاتحہ پڑھ کے فارغ ہو گئے۔
کبھی آپ نے سوچا بھی ہے کہ ہمارے قبرستان کیوں اس قدر گندے، بے ترتیب اور اجاڑ ہوتے ہیں، قبرستان ہمارے معاشرے کے مجموعی رویے کا آئینہ ہیں ہمارے مجموعی رویے ایسی ہی بے حسی، سفاکی اور منافقت پر مبنی ہیں جب معاشرے میں ترتیب نہیں ہوگی ،جب معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا، جب معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہوگا، تو معاشرے کے تمام طبقے اور حصے اس سے متاثر ہوں گے۔ ہمارے قبرستان نا ہموار ہوتے ہیں جیسے ہمارا معاشرہ ناہموار ہے۔ بے ترتیب معاشرے کی طرح ہمارے قبرستانوں میں قبریں بھی بے ترتیب ہوتی ہیں کوئی آگے کوئی پیچھے کوئی اوپر تو کوئی نیچے، کوئی چھوٹی کوئی بڑی۔۔
جس طرح ہمارے معاشرے کے افراد کسی قاعدے قانون پر چلنے کو تیار نہیں، اسی صورت ہمارے قبرستانوں میں قبروں تک رسائی کے لیے راستے نہیں ہوتے، جھاڑ جھنکاڑ سے الجھتے قبروں سے کود کر گزرنا پڑتا ہے،زیادہ مصیبت اس وقت پڑتی ہے جب کسی مردے کو دفنانا ہو۔ ڈولی میں رکھی میت کو اس کی قبر تک پہنچانا بعض قبرستانوں میں امتحان بن جاتاہے۔
جب معاشرے اور فرد کے درمیان تضادات بڑھ جاتے ہیں تو یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے شعوری سطح پر کمزوری کا سامان بن جاتے ہیں، پھر روایات بھی کمزور پڑجاتی ہیں اور روایتوں سے فرد کا تعلق بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ روایت اور فرد میں کمزور تعلق کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جائز، نا جائز ہر طرح کے کام پیسے کے زور پر آرام سے ہو جاتے ہیں۔ سو قبرستان میں بھی پیسہ چلتا ہے۔ کراچی شہر کے اکثر قبرستان بیس سال پہلے بھر چکے ہیں لیکن آج بھی ان میں قبریں بن رہی ہیں، مردے دفن کیے جا رہے ہیں۔ بس آپ کے پاس پیسے ہونے چاہئیں، کسی بھی پرانی قبر کو کھود کر آپ کا مردہ اس میں ڈال دیا جائے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہمارے قبرستانوں میں بھی چلتا ہے جس کے پاس پیسے عہدے یا عقیدت کا ڈنڈا ہے اس نے اتنی ہی بڑی جگہ گھیر لی ہے۔ ہمارے یہاں زندہ لوگوں کو پانی نہیں ملتا اس لیے قبرستان میں پانی کی تلاش جنون ہی کہلائے گی۔
شہروں میں جس طرح بلند عمارتیں بن رہی ہیں اسی طرح ہمارے قبرستانوں میں بھی کثیرالمنزلہ قبروں کا رواج بن گیا ہے۔ یعنی ایک قبر پر دوسری قبر اور پھر تیسری قبر، یقین نہ ہو تو کراچی کے کسی پرانے قبرستان میں جا کر دیکھ لیں۔ سرکاری اہلکار سیاسی گماشتے اور گورکن پورا مافیا ہے جو قبریں بیچ کر اپنیپیٹ میں دوزخ کا ایندھن بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ ویسے ہمارے قبرستان ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے اگر آپ نے مکلی کا شہر خموشاں دیکھا ہے یا چوکنڈی کا قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ ان قبروں کے تعمیراتی حسن سے ضرور متاثر ہوں گے اور ان قبرستانوں کی کشادگی اور ترتیب آپ کو حیران کر دے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیسے اقتدار اور طاقت کی ہوس ہمارے معاشرے کی تمام اقدار کو کھا گئی ہے لیکن معاشرے کو بگاڑنے والے یہ نہیں سوچتے کہ انہیں بھی مرنے کے بعد کسی قبر میں ہی جانا ہے۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہی، گور پیا کوئی ہور۔۔۔۔۔۔!