وجود

... loading ...

وجود

قبر کی خبر

هفته 13 مئی 2017 قبر کی خبر


قبرستان جانا ہمارے لیے کبھی بھی کوئی خوش کن تجربہ نہیں رہا اور ہمارے قبرستان تو ویسے بھی گندگی اور بے ترتیبی کی وہ تصویر بنے ہوتے ہیں جن کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آپ لوگوں کا بھی قبرستانوں کے حوالے سے تجربہ کچھ کم مختلف نہیں ہوگا۔ لیکن کیا کریں دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے جانے والے اپنے پیاروں کی محبت اور تعلق ان کی قبروں پر جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شب برأت پر قبرستان جانا یوں بھی روایت ہے سو ہم بھی مغرب کے بعد وارد گورستان ہوئے کہ ہمارے والدین اور ایک بھائی وہاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ بڑی رات ہونے کی وجہ سے قبرستان کے داخلی راستے پر کچھ صفائی ستھرائی نظر آئی۔ کسی تنظیم نے ایک جنریٹر کا انتظام بھی کر رکھا تھا جس کی مدد سے قبرستان میں روشنی کا انتظام کردیا گیا تھا۔لیکن یہ انتظام پورے قبرستان میں کیا جانا مشکل تھا اس لیے کچھ حصہ تو روشن تھا باقی آگے جانے والے اپنے موبائل فونز کی ٹارچ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ بہت رش تھا لوگ چلنے کے لیے کوئی راستہ نہ ہونے کے باعث قبروں پر کودتے پھاندتے ہوئے اپنے پیاروں کی قبروں تک پہنچ رہے تھے۔ کوئی قبر کچی ،کوئی پکی ،کوئی ایک منزلہ تو کوئی دو منزلہ اس لیے یہ کود پھاند بھی بچوں کا کھیل نہیں تھی۔ ایک ہاتھ میں پانی کا کین دوسرے ہاتھ میں گلاب کی پتیوں سے بھرا شاپر تھامے توازن قائم رکھتے ہوئے اونچی نیچی قبروں کو پھلانگنا کسی پل صراط پر چلنے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ قبروں کی بے حرمتی اور ان میں محو خواب لوگوں کی بے سکونی الگ روح کو زخمی کیے دیتی تھی لیکن مجبوری تھی کہ اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنی بھی ضروری تھی۔ ایسے میں وہ لوگ خوش نصیب لگے جن کے عزیزوں کی قبریں قبرستان کے شروع میں تھیں کہ زیادہ تگ و دو کے بغیر قبروں تک پہنچ گئے، پانی ڈالا ،پھول چڑھائے اور فاتحہ پڑھ کے فارغ ہو گئے۔
کبھی آپ نے سوچا بھی ہے کہ ہمارے قبرستان کیوں اس قدر گندے، بے ترتیب اور اجاڑ ہوتے ہیں، قبرستان ہمارے معاشرے کے مجموعی رویے کا آئینہ ہیں ہمارے مجموعی رویے ایسی ہی بے حسی، سفاکی اور منافقت پر مبنی ہیں جب معاشرے میں ترتیب نہیں ہوگی ،جب معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا، جب معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہوگا، تو معاشرے کے تمام طبقے اور حصے اس سے متاثر ہوں گے۔ ہمارے قبرستان نا ہموار ہوتے ہیں جیسے ہمارا معاشرہ ناہموار ہے۔ بے ترتیب معاشرے کی طرح ہمارے قبرستانوں میں قبریں بھی بے ترتیب ہوتی ہیں کوئی آگے کوئی پیچھے کوئی اوپر تو کوئی نیچے، کوئی چھوٹی کوئی بڑی۔۔
جس طرح ہمارے معاشرے کے افراد کسی قاعدے قانون پر چلنے کو تیار نہیں، اسی صورت ہمارے قبرستانوں میں قبروں تک رسائی کے لیے راستے نہیں ہوتے، جھاڑ جھنکاڑ سے الجھتے قبروں سے کود کر گزرنا پڑتا ہے،زیادہ مصیبت اس وقت پڑتی ہے جب کسی مردے کو دفنانا ہو۔ ڈولی میں رکھی میت کو اس کی قبر تک پہنچانا بعض قبرستانوں میں امتحان بن جاتاہے۔
جب معاشرے اور فرد کے درمیان تضادات بڑھ جاتے ہیں تو یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے شعوری سطح پر کمزوری کا سامان بن جاتے ہیں، پھر روایات بھی کمزور پڑجاتی ہیں اور روایتوں سے فرد کا تعلق بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ روایت اور فرد میں کمزور تعلق کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جائز، نا جائز ہر طرح کے کام پیسے کے زور پر آرام سے ہو جاتے ہیں۔ سو قبرستان میں بھی پیسہ چلتا ہے۔ کراچی شہر کے اکثر قبرستان بیس سال پہلے بھر چکے ہیں لیکن آج بھی ان میں قبریں بن رہی ہیں، مردے دفن کیے جا رہے ہیں۔ بس آپ کے پاس پیسے ہونے چاہئیں، کسی بھی پرانی قبر کو کھود کر آپ کا مردہ اس میں ڈال دیا جائے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہمارے قبرستانوں میں بھی چلتا ہے جس کے پاس پیسے عہدے یا عقیدت کا ڈنڈا ہے اس نے اتنی ہی بڑی جگہ گھیر لی ہے۔ ہمارے یہاں زندہ لوگوں کو پانی نہیں ملتا اس لیے قبرستان میں پانی کی تلاش جنون ہی کہلائے گی۔
شہروں میں جس طرح بلند عمارتیں بن رہی ہیں اسی طرح ہمارے قبرستانوں میں بھی کثیرالمنزلہ قبروں کا رواج بن گیا ہے۔ یعنی ایک قبر پر دوسری قبر اور پھر تیسری قبر، یقین نہ ہو تو کراچی کے کسی پرانے قبرستان میں جا کر دیکھ لیں۔ سرکاری اہلکار سیاسی گماشتے اور گورکن پورا مافیا ہے جو قبریں بیچ کر اپنیپیٹ میں دوزخ کا ایندھن بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ ویسے ہمارے قبرستان ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے اگر آپ نے مکلی کا شہر خموشاں دیکھا ہے یا چوکنڈی کا قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ ان قبروں کے تعمیراتی حسن سے ضرور متاثر ہوں گے اور ان قبرستانوں کی کشادگی اور ترتیب آپ کو حیران کر دے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیسے اقتدار اور طاقت کی ہوس ہمارے معاشرے کی تمام اقدار کو کھا گئی ہے لیکن معاشرے کو بگاڑنے والے یہ نہیں سوچتے کہ انہیں بھی مرنے کے بعد کسی قبر میں ہی جانا ہے۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہی، گور پیا کوئی ہور۔۔۔۔۔۔!


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر