... loading ...
٭ افغان اور اتحادی فوجیوں کو سنبھلنے کاموقع نہیں دیاجائے گا،افغان طالبان نے آپریشن منصوری کا آغازکردیا ٭کٹھ پتلی افغان فورسزاور انکے اتحادی پے درپے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں، تازہ دھمکی سے ان کی تشویش میں اضافہ
طالبان کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ وہ افغانستان میں افغان حکومت وامریکی واتحادی فوج کے خلاف دوبارہ بھر پور کارروائیاں شروع کریں گے، مستقبل قریب میں امن کی امیدیں دم توڑتی محسوس ہورہی ہیں۔طالبان کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین بیان میں جنگ زدہ افغانستان میں مضبوط سیاسی بنیاد قائم کرنے اور اسلام کا انتہائی سخت گیر عدالتی نظام قائم کرنے کے عزم کابھی اظہار کیا گیا ہے۔ افغان طالبان نے دعویٰ کیاہے کہ نصف سے زیادہ افغانستان پر اب بھی ان کا قبضہ ہے اور اگلے حملوں میں وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرلیں گے ، بیان میں دعویٰ کیاگیاہے کہ ان کے حملوں کی شدت میں کمی نہیں آئی اور ان حملوں میں وقفوں کا سبب افغانستان میں افغان فوج اور امریکا اور اتحادی افواج کے زیر قبضہ علاقوں پر حملے کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے اور حملوں کی منصوبہ بندی میں لگنے والا وقت ہے۔
اس وقت جبکہ افغان فوج اور امریکا اور اتحادی ممالک کی افواج طالبان کے پے درپے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے پریشان ہیں، افغان طالبان کے حالیہ بیان نے ان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ،طالبان نے اپنے اس بیان میں افغان فوج پر نئے حملوں کے پروگرام کواپنے کمانڈر ملا اخترمنصور کے نام پرآپریشن منصوری کانام دیاہے۔ طالبان نے دعویٰ کیاہے کہ آپریشن منصوری کے تحت اب بڑے پیمانے پر حملے کئے جائیں گے اور افغان اور اتحادی فوجیوں کو سنبھلنے کاموقع نہیں دیاجائے گا یہاں تک کہ انھیں اقتدار سے بے دخل کرکے پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیاجائے گا،جس کے بعد اس ملک پر اسلام کے اصولوں پر سختی سے عمل کیاجائے گااور اسلام کا سخت گیر عدالتی نظام قائم کردیاجائے گا۔
جہاں تک اس وقت تک کی صورت حال کا تعلق ہے تو اس وقت تک صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے ماسکو کے زیر انتظام ہونے والی کانفرنسیں اب تک نشستند، گفتندو برخواستند تک محدود ثابت ہوئی ہیں ، جبکہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے افغان طالبان کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کیلئے انھیں مذاکرات کی میز پر لانے کی تمام کوششیں ناکام اور بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ان کوششوں کی ناکامی کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ ابھی تک یہ بھی پتہ نہیں چلا یاجاسکاہے کہ طالبان کا کون ساگروپ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرکے سیاسی دھارے میں شامل ہونے پر تیار ہے یا تیار ہوسکتاہے۔
یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں موجود طالبان کے اندرونی اختلافات اس قدر شدید قسم کے ہیں اور ان پر انتہاپسندوں کا اتنا زیادہ غلبہ ہے کہ ان انتہا پسند عناصر کومذاکرات کی میز پر لانا دونوں ہی ملکوں کیلئے تقریبا ً ناممکن ہوگیاہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر طالبان کا کوئی گروہ پاکستان یا افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہوکر اس حوالے سے کسی معاہدے میں شریک ہوبھی جاتاہے تو دوسرے دھڑے کیلئے اس معاہدے کو سبوتاژ کرنا بہت آسان ہے اور وہ معاہدہ ہونے سے قبل ہی ایسی صورت حال پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ معاہدہ طے پانے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے یاختم ہوجائے۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال کاجائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ افغانستان کی حکومت اپنے انتظامی اور خاص طورپر اپنے سیکورٹی سے متعلق اداروں کو امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی بھرپور مدد کے باوجود منظم اور مضبوط نہیں کرسکی ہے، افغان انتظامیہ اور سیکورٹی ادارے انتہائی بودے نظام پر قائم ہیں جن پر حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے،اور یہ ملک مختلف علاقائی قوتوں کی جانب سے مفادات کے حصول کی جنگ کامرکز بن کر رہ گیاہے۔علاقائی ممالک اور قوتوں کی جانب سے مفادات کی یہ جنگ اتنی گہری اور تیز ہوچکی ہے کہ اب اس کی تپش خود افغان حکومت اور انتظامیہ میں بھی محسوس ہونے لگی ہے اور بعض اوقات حکومت کو اپنے زیر قبضہ علاقے پر بھی اپنی مرضی کے احکام پر عملدرآمد کرانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتاہے۔اس صورتحال کی بنیادی وجہ خود افغان حکومت کی اندرونی چپقلش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی وہ کوشش ہے جو موجودہ مخلوط حکومت کے قیام کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی پیدا ہوتی جارہی ہے ۔
یہ صورت حال اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس خطے کے بنیادی اسٹیک ہولڈر ز جن میں چین ، روس،امریکا ، بھارت اور پاکستان شامل ہیں افغانستان میں بامعنی اتحاد اور امن واستحکام کے کسی ایسے فارمولے پر متفق نہ ہوجائیں جس کے تحت ان کے مفادات کا بھی تحفظ ہوسکے اور افغان حکومت کو بھی مستحکم اور منظم ہونے کا موقع مل سکے۔موجودہ صورت حال میں اگر یہ تمام اسٹیک ہولڈر کسی ایک فارمولے یا مسئلے کے کسی ایک حل پر فوری تیار نہیں ہوتے تو طالبان کو حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کاموقع مل سکتاہے اور اگر طالبان نے اپنے دعووں کے مطابق پے درپے بڑے حملے کرکے بڑی کامیابیاں حاصل کرلیں تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور انتشار و افتراق پھیلانے کے درپے قوتوں کے ایجنٹ کامیاب ہوجائیں گے اور یہ ملک ایک دفعہ پھر خونریزی اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
اس حوالے سے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے ہمیشہ افغان حکومت کو مذاکرات کے ذریعے تمام غلط فہمیاںدور کرنے اورایک مستحکم افغانستان کی تعمیر میں ہر طرح کی مدد دینے کی پیشکش کی ہے لیکن موجودہ افغان حکومت بھارت کے اتنے زیادہ اثر میں ہے کہ اس نے اب اس حوالے سے پاکستان کی مخلصانہ پیشکشوں کا مثبت جواب دینے کے بجائے لایعنی پیشگی شرائط عاید کرنا شروع کردی ہیں جس کا اندازہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی قیادت میں افغانستان جانے والے وفد کی جانب سے افغان صدر کو دی جانے والی پاکستان کے دورے کی دعوت پر افغان صدرکی جانب سے انکار اور ان کے اس جواب سے لگایا جاسکتاہے جس میں انھوںنے کہا کہ میں اس وقت تک پاکستان کادورہ نہیں کروں گا جب تک پاکستان افغانستان میں حملہ کرنے والے مطلوب دہشت گردوں کو پکڑ کر افغانستان کے حوالے نہیں کردیتا گویاانھوںنے یہ کہہ کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان میں حملہ کرنے والے دہشت گرد حکومت پاکستان کی تحویل میں ہیں اور پاکستان کے اشارے پر ہی یہ حملے کررہے ہیں۔جبکہ افغانستان میں موجود طالبان کی جانب سے پاکستان پر پے درپے حملوں کے بعد جب پاکستان نے اسی طرح کامطالبہ افغان حکومت سے کیاتھا تو افغان حکومت اس کا کوئی مثبت جواب دینے سے قاصر رہی تھی یہاں تک کہ خود پاک فوج کو افغانستان میں طالبان کے ان ٹھکانوں کے خلاف کارروائی پر مجبور ہونا پڑا جہاں سے نکل کر افغان طالبان پاکستان کی سرزمین کو دہشت گرد حملوں کانشانہ بنایاکرتے تھے۔
موجودہ صورت حال میں دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ افغان حکمراں نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں اور کسی دوسرے ملک خاص طورپر بھارت کے اشاروں پر چلنے کے بجائے اپنے ملک کی سلامتی اور استحکام کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر متحارب افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں اور افغان طالبان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ عقلمندی یہی ہے کہ وہ افغانستان کے اقتدار میں شریک ہونے کے لئے پرامن مذاکرات کی راہ اختیار کریں اور پھر سب مل کر اپنے وطن افغانستان کی ترقی اور افغان عوام کی خوشحالی کیلئے کوششیں کریں۔یہ درست ہے کہ یہ کام بظاہر بہت ہی مشکل اور ناممکن نظر آتاہے لیکن مصمم عزم کے ساتھ مخلصانہ کوششیں کی جائیں تو شاید افغان عوام کو ا س طویل اور صبر آزما دور سے نجات دلانا ممکن ہوجائے اور افغان عوام کو بھی سکون کاسانس لینے کا موقع مل سکے۔
افغانستان سے متصل بلوچستان کے شہر چمن کے قریب گولہ باری سے 9افرادجاں بحق اور کم از کم 42 زخمی ہو گئے ہیں جس کے بعد چمن سرحد کو بند کر دیا گیا ہے۔ایک طرف افغان فورسز اپنے ملک میں عسکریت پسندوں کو قابوکرنے میں ناکام ہیں اور انکے آگے بھیگی بلی بنے پھرتے ہیں اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بعض اوقات اپنی چوکیاں اور قلعے تک فروخت کردیتے ہیں ،دوسری جانب سرحد پار نہتے شہریوں پر بلاجواز فائرنگ کرکے شرانگیزی پھیلا رہے ہیں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کے درمیان رابطہ ہوا اور پاکستان کے ڈی جی ایم او میجر جنرل شیر شمشاد مرزا نے پاکستانی دیہات اور سکیورٹی فورسز پر بلا اشتعال فائرنگ کی شدید مذمت کی ہے۔بیان کے مطابق’ ’افغان حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔‘‘
چمن کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اختر نے میڈیا کو کو بتایا تھا کہ جمعہ کوہسپتال میں کئی لاشیں لائی گئیں ہیں۔
آئی ایس پی آرکے مطابق افغان سرحدی فورس نے چمن سرحد کے قریب ایک گاؤں میں مردم شماری کی سکیورٹی پر تعینات ایف سی کے اہلکاروں اور شہریوںپر فائرنگ کی۔حالانکہ افغان حکام کو سرحد پر منقسم دیہات کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کے بارے میں پیشگی طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا تاہم افغان سرحدی فورس 30 اپریل سے مردم شماری کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔
واضح رہے کہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر منقسم دیہات ہیں جو کہ سرحد کے دونوں جانب واقع ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر مسعود نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں مردم شماری جیسا عمل شروع کرنے سے پہلے چار مختلف سطحوں پر رابطے کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مقامی سطح پر یقیناً رابطہ کیا گیا ہو گا اور انھیں اس بارے میں عمل ہو گا۔انھوں نے کہا کہ فائرنگ کرنا تو انتہائی قدم ہے اور ایسا اقدام کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کے نکتہ نگاہ سے بین الاقوامی سرحد ہے اور اس کے پار افغانستان کی کوئی عملداری نہیں جس افغانستان کو سمجھنا چاہیے۔یہ پاکستان اور افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندہار اور دیگر جنوبی علاقوں کے درمیان اہم گزرگاہ ہے۔
مقامی صحافی نے بتایا کہ انتظامیہ کے افسر کے بقول افغانستان کی جانبے سے فائر کیے گئے گولے جمعہ کو علی پاکستانی سرحد کے حدود میں واقع دیہاتوں میں گرے جس سے شہادتیں ہوئیں اور درجنوں شہری زخمی ہوئے جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔
سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہی نہیں بلایا گیا پاکستان میں استحکام نہیں ،قانون کی حکمرانی نہیں تو ہارڈ اسٹیٹ کیسے بنے گی؟عمرایوب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے حکومتی اتحاد پر...
پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...
وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...
واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...
حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...
کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...
ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...
اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...
ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...
قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...
8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...