وجود

... loading ...

وجود

امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس اورری پبلیکنز آمنے سامنے

پیر 01 مئی 2017 امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس اورری پبلیکنز آمنے سامنے

کانگریس نے سرکاری اخراجات کے لیے رقم کی فراہمی کے عارضی بل کی منظوری اگلے جمعہ سے قبل نہ دی تو حکومت کو جزوی ‘شٹ ڈاؤن’ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ‘ اگر قانون ساز اخراجات کے کسی نئے قلیل المیعاد معاہدے تک نہیں پہنچتے، تو اس صورت میں غیر لازمی سرکاری خدما ت روک دی جائیں گی

امریکی کانگریس اس ہفتے کے لیے کام پر واپس آ گئی ہے جو سرکاری خدمات کے لیے ایک اہم ہفتہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جمعرات کی صبح امریکی قانون سازوں نے ایک ٹریلین سے زیادہ ڈالر کے قلیل المیعاد اخراجات کے اس بل کی مہلت میں اضافہ کر دیا تھا جس کے لیے سینیٹ سے 29 اپریل تک بل کی منظوری یا پھر حکومت کی جزوی بندش کا خطرہ کھڑا ہو جاتا۔ اس مہلت کے باوجود وائس آف امریکا سے گفتگو کرنے والے ماہرین نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اس بار حکومت کی اس قسم کی بندش کا اعادہ نہیں ہوگا جس صورت حال کا سامنا 2013ءمیں کرنا پڑا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متصادم ایجنڈے اتفاق رائے کو مشکل بھی بنا سکتے ہیں اور ضروری بھی۔
قبل ازیںڈیموکریٹس سینیٹرز نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ ری پبلکن اکثریت کے حامل امریکی ایوانِ نمائندگان کی جانب سے حکومت کے ہنگامی اخراجات سے متعلق منظور کردہ بل کو مسترد کردیں گے جس کے بعد امریکا میں سرکاری اداروں کی بندش کا خطرہ ایک بار پھر پیدا ہوگیا تھا۔ایوانِ نمائندگان کی جانب سے جمعہ کی صبح 203 کے مقابلے میں 219 ووٹوں سے منظور کردہ بل کے نتیجے میں حکومت کو 18 نومبر تک کے سرکاری اخراجات کے لیے درکار فنڈز فراہم ہوسکیں گے۔بِل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی مد میں 3 ارب 65 کروڑ ڈالرز کی رقم مختص کی گئی ہے۔ تاہم بِل میں امریکی حکومت کے ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے لیے درکار رقم میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کٹوتی کردی گئی ہے جس پر سینیٹ کی اکثریتی جماعت ڈیموکریٹس کے ارکان سخت برہم ہیں۔ ڈیموکریٹ سینیٹرز نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ سرکاری اخراجات سے متعلق ایک دوسرا بل منظور کریں گے جس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے لگ بھگ 7 ارب ڈالرز رکھے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ اگر کانگریس کی جانب سے سرکاری اخراجات کے لیے رقم کی فراہمی کے عارضی بل کی منظوری اگلے جمعہ سے قبل نہ دی گئی تو حکومت کو جزوی ‘شٹ ڈاؤن’ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم بِل کی فوری منظوری نہ ہونے کی صورت میں امریکہ میں آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے ‘فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی’ کو اپنے آپریشنز بیان کردہ مدت سے قبل ہی بند کرنا پڑ سکتے ہیں کیونکہ پیر کے بعد اخراجات کے لیے ادارے کے اکاؤنٹس میں رقم موجود نہیں۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئندہ ہفتے کانگریس کے دونوں ایوانوں کی تعطیلات طے ہیں۔ڈیموکریٹس سینیٹرز نے جس بل کی منظوری کا عندیہ دیا ہے وہ ایوانِ نمائندگان نے بدھ کو مسترد کردیا تھا۔ بل کا استرداد ان 48 ری پبلکن اراکین کی اپنے رہنماؤں سے بغاوت کے نتیجے میں ہوا تھا جن میں سے بیشتر رجعت پسند ‘ٹی پارٹی تحریک’ کے حامی ہیں۔ان ری پبلکن اراکین نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس بل کی منظوری نہیں دیں گے کیوں کہ اس میں سرکاری اخراجات میں نمایاں کٹوتیاں تجویز نہیں کی گئیں۔
اگر قانون ساز اخراجات کے کسی نئے قلیل المیعاد معاہدے تک نہیں پہنچتے، جس کی مہلت میں اب ایک ہفتے تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے، تو اس صورت میں غیر لازمی سرکاری خدما ت روک دی جائیں گی، ہزاروں سرکاری ملازموں کو کام سے چھٹی دے دی جائے گی اور لاکھوں ڈالرز کے چیکس اور ٹیکسوں کے ری فنڈز تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
سینیٹ کے ری پبلیکن لیڈر مچ کونیل کا کہنا ہے کہ میں اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا کہ آیا یہ معاملہ اس ہفتے واقعی طے ہو جائے گا لیکن ہم30 ستمبر تک کوئی مستقل معاہدہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اب جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے ساتھ ایک سرحدی دیوار کے لیے ابتدائی فنڈنگ کو زیر غور لانے کے لیے رضامند ہو گئے ہیں، زیادہ امکان یہ ہے کہ کوئی معاہدہ طے پا جائے گا۔ کانفرنس کے بورڈ کے رکن جو مینارک کا کہنا ہے کہ یہ ایک اعتراف ہے کہ جمہوریت میں مفاہمت ضروری ہوتی ہے۔انہوں کے کہا کہ سینیٹ میں ضروری قانون کی منظوری کے لیے، انہیں 60 ووٹ درکار ہیں جو ری پبلیکن خود سے پورے نہیں کر سکتے۔ اس لئے ڈیمو کریٹس کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے وہ ڈیمو کریٹس کو لازمی طور پر کچھ مراعات کی پیش کش کریں گے۔
لیکن ایک اور سیاسی مسئلہ بدستور باقی ہے۔ ری پبلیکنز اخراجات کے بل سے ایفورڈ ایبل ایکٹ سے اخراجات میں شراکتی ادائیگیاں ختم کرانا چاہتے ہیں، ڈیمو کریٹس کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے کم آمدنی والے لگ بھگ 60 لاکھ امریکی متاثر ہوں گے۔بینک ریٹ ڈاٹ کام کے مارک ہامرک نے اسکائپ کے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ دنوں جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ووٹر جن کی نظر میں پہلے ہی قانون سازوں کی قدرو منزلت کم ہو چکی ہے، اس میں مزید کمی کر دیں گے، اور اس لیے یہ سب سے بنیادی ہدف ہے جو حکومت کو حاصل کرنا چاہیے۔
2013 ءمیں معاملہ ایسا نہیں تھا جب مٹھی بھر ری پبلکن قانون سازوں نے حکومت کو سولہ دن کی بندش پر مجبور کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں میوزیم، نیشنل پارکس اور غیر لازمی سرکاری سہولیات بند ہو گئی تھیں، اور اس سیاسی حربے سے امریکی ٹیکس دہندگان کو سہولیات سے محرومی کی وجہ سے لگ بھگ دو ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ لیکن اس بار کوئی جماعت بھی الزام تراشی کا کھیل نہیں کھیلنا چاہتی۔کانفرنس بورڈ کے جو مینارک کہتے ہیں کہ کبھی کبھی لوگ اس قسم کے کھیل میں بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کھیل میں آخر کار نقصان امریکی لوگوں ہی کو ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کوشش کریں گے اور کوئی مفاہمتی راستہ تلاش کریں اور اس مسئلے کو حل کریں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اخراجات کے بل کی منظوری یا مہلت میں توسیع میں ناکامی نئی انتظامیہ کے لیے بہت مہنگی ثابت ہو سکتی ہے ، جو اپنے پہلے سو دنوں میں حکومت کی کسی بندش کو شامل کرنے سے بظاہر ہچکچارہی ہے۔
ڈیموکریٹس سینیٹرز نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ری پبلکن اکثریت کے حامل امریکی ایوانِ نمائندگان کی جانب سے حکومت کے ہنگامی اخراجات سے متعلق منظور کردہ بل کو مسترد کردیں گے جس کے بعد امریکہ میں سرکاری اداروں کی بندش کا خطرہ ایک بار پھر پیدا ہوگیا ہے۔ایوانِ نمائندگان کی جانب سے جمعہ کی صبح 203 کے مقابلے میں 219 ووٹوں سے منظور کردہ بل کے نتیجے میں حکومت کو 18 نومبر تک کے سرکاری اخراجات کے لیے درکار فنڈز فراہم ہوسکیں گے۔بِل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی مد میں 3 ارب 65 کروڑ ڈالرز کی رقم مختص کی گئی ہے۔ تاہم بِل میں امریکی حکومت کے ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے لیے درکار رقم میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کٹوتی کردی گئی ہے جس پر سینیٹ کی اکثریتی جماعت ڈیموکریٹس کے ارکان سخت برہم ہیں۔ڈیموکریٹ سینیٹرز نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ سرکاری اخراجات سے متعلق ایک دوسرا بل منظور کریں گے جس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے لگ بھگ 7 ارب ڈالرز رکھے گئے ہیں۔
اگر کانگریس کی جانب سے سرکاری اخراجات کے لیے رقم کی فراہمی کے عارضی بل کی منظوری آئندہ جمعہ سے قبل نہ دی گئی تو حکومت کو جزوی ‘شٹ ڈاؤن’ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔تاہم بِل کی فوری منظوری نہ ہونے کی صورت میں امریکہ میں آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے ‘فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی’ کو اپنے آپریشنز بیان کردہ مدت سے قبل ہی بند کرنا پڑ سکتے ہیں کیونکہ پیر کے بعد اخراجات کے لیے ادارے کے اکاؤنٹس میں رقم موجود نہیں۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئندہ ہفتے کانگریس کے دونوں ایوانوں کی تعطیلات طے ہیں۔ڈیموکریٹس سینیٹرز نے جس بل کی منظوری کا عندیہ دیا ہے وہ ایوانِ نمائندگان نے بدھ کو مسترد کردیا تھا۔ بل کا استرداد ان 48 ری پبلکن اراکین کی اپنے رہنماؤں سے بغاوت کے نتیجے میں ہوا تھا جن میں سے بیشتر رجعت پسند ‘ٹی پارٹی تحریک’ کے حامی ہیں۔ان ری پبلکن اراکین نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس بل کی منظوری نہیں دیں گے کیوں کہ اس میں سرکاری اخراجات میں نمایاں کٹوتیاں تجویز نہیں کی گئیں۔
تہمینہ حیات


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر