... loading ...
نکسن نے اپنی مشہور کتاب ”لیڈرز“ میں عظیم لیڈرز کی پہچان یوں بتائی تھی کہ ” اُن کی قوت فیصلہ میں تیزی ہوتی ہے جس سے وہ مہلک قسم کی اغلاط سے بچے رہتے ہیں۔ اور کسی بہتر موقع کو پہچاننے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔“ ایک ”عظیم“ رہنما کے طور پروزیرا عظم نوازشریف کو اس میزان پر تولا نہیں جاسکتا۔ اُن کے دستر خوان پر بیٹھے عقیدت مند بھی جب اُن کے بحرانوں سے نکلنے کی بات کرتے ہیں تو اُن کی سیاسی دانائی،قوت فیصلہ میں تیزی یا پھر بہتر موقع کی شناخت کا ذکر نہیں کرتے۔ بلکہ وہ نہایت رسان سے کہتے ہیں کہ تقدیر اُن پر ہمیشہ مہربان رہی ہے۔
جنرل ضیاءالحق کے سائبان میں بھی نوازشریف تقدیر کی مہربانیوں سے پہنچے تھے۔تب ایک جنرل کی سیاسی ضرورتوں نے اُن کی ”پرورش“ کی ۔اُن کے بعد آنے والے یکے بعد دیگرے جرنیلوں کے ساتھ اُن کے معاملات میں بناؤاوربگاڑ میں تقدیر کی فیاضیوں کا بڑا عمل دخل رہاہے۔جنرل ضیاءکے حادثے کے بعد تقدیر کی مہربانی سے فوجی سربراہ بننے والے جنرل اسلم بیگ کے ساتھ بھی اُن کا تنازع رہا۔عراق جنگ میں جنرل اسلم بیگ کی رائے حکومت کے برعکس سامنے آئی۔ تب صدرِمملکت غلام اسحاق خان تھے۔ میاں نوازشریف اُن سے بھی خوش نہیں تھے۔ تقدیر کی مہربانیوں سے وہ دونوں سے نجات پانے میں کامیاب رہے۔ اُن کے بعد آنے والے جنرل آصف نواز اُن کا انتخاب نہیں تھے۔ وزیرا عظم نوازشریف کے پاس جو تین نام آئے تھے۔ اُن میں جنرل شمیم عالم، جنرل حمید گل اور جنرل آصف نواز کے نام شامل تھے۔ نوازشریف کا انتخاب تب ترتیب میں تیسرے نمبر پر موجود جنرل آصف نواز ہر گز نہیں تھے۔ جنرل آصف نواز سے نوازشریف کے اختلافات کوئی ڈھکے چھپے نہ تھے۔ خود وزیراعظم نوازشریف کے اپنے الفاظ میں”وہ بہت ہی خود سر قسم کے آدمی تھے اور بیٹھ کر کھلم کھلا حکومت وقت اور وزیراعظم کی بُرائیاں کرتے تھے۔“ جنرل آصف نواز جب نوازشریف سے بددل ہوکر سیاست دانوں سے خاموش ملاقاتیں کررہے تھے تو اپنے دل کے ہاتھوں دنیا سے اُٹھ گئے۔ بلاشبہ تقدیر نواشریف پر بہت مہربان تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کے پہلے دوروزارتِ عظمیٰ میں اُن کو میسر آنے والے تیسرے فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ تھے۔ نوازشریف کے اُن سے بھی اختلافات پیدا ہوئے۔ صدر کی جانب سے اسمبلی توڑنے اور پھر عدلیہ کی جانب سے بحالی کے بعد وزیراعظم نوازشریف یہی سمجھتے تھے کہ عدلیہ کا فیصلہ دراصل غلام اسحاق خان کے خلاف ہے اس لیے اُنہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم نوازشریف نے بعد ازاں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ”کاکڑ صاحب اُن کی حوصلہ افزائی کررہے تھے کہ آپ نہ جائیں۔ جہاں تک میری اطلاع ہے وہ یہی تھی کہ کاکڑ صاحب اس میں منفی کردار ادا کررہے ہیں۔“نوازشریف کو ظاہر ہے یہ سب اچھی طرح یاد رہا ہوگا جو اُنہوں نے جنرل وحید کاکڑ کی بطور فوجی سربراہ میعاد ملازمت میں توسیع کی کھل کر مخالفت کی۔ تب وہ حزب اختلاف کا حصہ تھے۔ اگلے فوجی سربراہ کے طور پر آنے والے جہانگیر کرامت سے بھی اُن کے اختلافات فوراً ہی ہوگئے۔جنرل جہانگیر کرامت کسی بھی دوسرے فوجی سربراہ کے مقابلے میں زیادہ جمہوریت پسند واقع ہوئے تھے۔ مگر اُن کی طرف سے نیشنل سیکورٹی کونسل کی تجویز کا نواز شریف نے بُہت بُرا منایا ۔ یہاں تک کہ جہانگیر کرامت کو قبل ازوقت اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ نوازشریف پر تقدیر مہربان رہی۔
جہانگیر کرامت کے بعد نواز شریف کی نگاہِ انتخاب جنرل پرویز مشرف پر پڑی۔ تب تک فوجی جرنیل نوازشریف کے فوج کے حوالے سے رویے پر ایک طے شدہ رائے تک پہنچ چکے تھے۔ ایک آزاد تاریخی تجزیے میں ترتیب ِواقعات کی روشنی میں کوئی بھی شخص اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ 12 اکتوبر 1999 کو بہرحال پیش آنا تھا ،چاہے اُس وقت کوئی بھی فوجی سربراہ ہوتا۔ تقدیر ہمیشہ تو مہربان نہیں ہوتی۔ نوازشریف کے ساتھ بہت سے دیگر حوالے بھی جڑے ہوئے ہیں جو دوبارہ اُبھرنے میں کامیاب رہے اور جنرل پرویزمشرف کے زوال کے بعد اُنہوں نے ایک بار پھر اقتدار کی راہداریوں کو تکنا شروع کیا۔ وہ ایک بار پھر وزیراعظم بننے میں کامیاب رہے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد اُنہوں نے جنرل راحیل شریف کو بھی رخصت ہوتے دیکھا۔ پاکستان میں جمہوریت کو زندگی کا متبادل سمجھنے والوں کے لیے یہ بات ایک نعمت سے کم نہ تھی کہ اُنہیں اگلے فوجی سربراہ کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ میسر آئے جو سیاسی نظام پر اعتماد رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ایک صاحبِ مطالعہ کے طور پر اُن کا تعارف عسکری اُمور کے علاوہ کم سے کم مداخلت کے شوقین کا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اگر اُن سے بھی نباہ نہ کرسکے تو یہ قومی سیاست کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی۔ ڈان لیکس کے حوالے سے سامنے آنے والے واقعات نے یہ خطرہ پیدا کردیا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی سب سے لائق فائق ٹیم ڈان لیکس کے معاملے میں اس طرح بروئے کار ہے جیسے کسی سیاسی مسئلے کا سامنا کررہی ہو۔ عسکری ادارے اپنی ساکھ اور اپنی چھوی (امیج) کے حوالے سے نہایت حساس ہوتے ہیں۔ یہ حساسیت تب زیادہ ہوجاتی ہے جب وہ قوت کے ساتھ مقبولیت بھی رکھتے ہوں۔ معاملے کی یہ منہج دراصل صحیح وغلط کے زاویے سے نہیں بلکہ امر واقعہ کے طور پر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈان لیکس کے معاملے پر ایسا کیا اتفاق ہوا تھا کہ جو وزیراعظم ہاؤس سے جاری خط سے ظاہر نہیں ہوتا۔ اور جس پر صرف ایک گھنٹے میں آئی ایس پی آر کا ٹوئٹر ہینڈل حرکت میں آگیا۔ فوج نے الفاظ چبائے بغیر دوٹوک رویہ اختیار کرتے ہوئے نوٹیفکیشن کو مسترد کردیا۔ وزیرداخلہ چودھری نثار نے جس پر فرمایا کہ ”ٹوئٹس جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔“ اچانک اُنہیں یہ یاد آیا کہ اداروں میں گفتگو کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ ٹوئٹس بات چیت کا کوئی طریقہ نہیں۔ خبطِ عظمت میں مبتلا وزیرداخلہ چودھری نثار صاحب یہ بات پریس کانفرنس میں کر رہے تھے۔ کیا فوج سے بات کرنے کا طریقہ پھر پریس کانفرنس ہے؟ اُنہیں معلوم نہیں کہ وہ رینجرز کے اختیار ات کے حوالے سے اور سندھ حکومت سے کسی بھی معاملے میں بات چیت کے لیے اسی پریس کانفرنس کا سہارا لیتے آئے ہیں۔ تب ایک سے زائد مرتبہ توجہ دلائی گئی کہ کیا وفاق کے پاس صوبے سے بات چیت کا کوئی مناسب ذریعہ ہی نہیں جو اُنہیں ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے پریس کانفرنس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ پریس کانفرنسوں کے ذریعے سندھ سے بات چیت کرنے والے وزیرداخلہ کو اب ٹوئٹر سے جواب ملا ہے تو وہ جمہوریت کے لیے اِسے زہرِ قاتل سمجھ رہے ہیں۔وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے متعلقین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تقدیر ہمیشہ مہربان نہیں رہتی۔یہ پورا کالم دراصل ایک چیک کہاوت کے لیے پھیلایا گیا کہ ”تقدیر کی ہر وہ بُرائی جو گھر میں کسی دروازے سے داخل ہوتی ہے وہ خود ہم اُس کے لیے کُھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ “نوازشریف صاحب دروازہ بند کیجیے!