... loading ...
افسوس صد افسوس کہ وطن عزیز میں سیاستدانوں نے ملک اور قوم کو ایسے مدار کے گرد گھما دیا ہے جو اسے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے آگاہی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں ۔ دنیا تیزی کے ساتھ تبدیلی کی جانب گامزن ہے لیکن وطن عزیز میں ہر انسان اس عالمی تبدیلی کو محض اپنے دائرے میں ہی محسوس کررہا ہے۔ انفرادی طور پر انسانی دماغ میں اس قدر ہی گنجائش ہوتی ہے۔ مثلاً کرہ ارض ہر وقت ایک مدار میں حالت سفر میں ہے اور روز اپنے مدار کے گردچالیس ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے لیکن انسان بس یہی کہتا ہے کہ ’’ایک اور دن گزر گیا‘‘۔اسی طرح قوموں کے معاملات بھی ہوتے ہیں ، دنیا میں تبدیلی کی لہریں اٹھتی ہیں تو کچھ بے خبر قومیں اسے محسوس نہیں کرپاتیں لیکن جب یہ لہریں ان قوموں کے دروازوں سے ٹکراتی ہیں تو انہیں گویا ہوش آجاتا ہے، یہی حالات آج نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے زرداری گروپ نے وطن عزیز میں بنادیے ہیں ۔ ان سیاسی رسہ گیروں کی وجہ سے ملک معاشی تباہی کے دہانے پر جالگا ہے، روٹی پانی کے چکر اور کمر توڑ مہنگائی اور مالیاتی کرپشن نے وطن عزیز میں بسنے والے ہر انسان کو اس چکر کی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اس صورتحال میں رہتے ہوئے شاید ہمیں معلوم نہیں کہ دنیا میں دو بڑی تبدیلیاں انتہائی خاموشی کے ساتھ روبعمل ہیں ۔ جس طرح ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں روزانہ سونے کی نئی قیمت لندن کے اکنامک زون سے جاری ہوتی ہے اس کے بعد ہی تمام دنیا میں سونے کے نرخ مقامی کرنسیوں میں جاری کیے جاتے ہیں ،اسی طرح تیل کی قیمت کا تعین نیویارک کی وال اسٹریٹ سے ہوتا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں متعین کی جاتی ہیں ،کیونکہ عالمی سطح پر پھیلے ہوئے دجالی بینکنگ نظام کا مرکز اس وقت نیویارک ہے۔عالمی سطح پر پھیلا ہوا یہ شیطانی عالمی نظام ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظام بھی اس کے ساتھ کارفرما ہے جس کی ہمیں کچھ خبر نہیں ، یہ دنیا بھر میں کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور سیل فون کے ذریعے دنیا بھر کی جاسوسی کا نظام ہے جس کا مرکزی ڈیٹا بینک امریکا کے نیشنل سیکورٹی ادارے این ایس اے NSA میں ہے۔ اس نظام کا پھیلا ؤاس طرح ہے کہ اس کے ذیلی مراکز آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ میں واقع ہیں ، جن کی مدد سے دنیا بھر میں ہونے والی الیکٹرونک مواصلات کی جاسوسی کرکے اسے ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے۔
قارئین کی یاد داشت کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سونا اور اس کے بعد تیل اس وقت عالمی مالیاتی عمل میں سرمایے کی قیمت متعین کرتے ہیں ۔ سونا زمانہ قدیم سے لین دین کے لیے استعمال ہوتا تھا اس کے بعد بینکوں کے ذریعے فراڈ کاغذ کی کرنسی دنیا میں رائج کرکے سونا پر عالمی صہیونی ساہوکاروں نے اپنا قبضہ جما لیا اور سونے کو کرنسی کے طور پر استعمال کرنا ناقابل معافی جرم بنادیا۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ہنری کسنجر نے عربوں کو شیشے میں اتار کر تیل کی قیمت کو امریکی ڈالر سے منسلک کروادیا جس سے دنیا میں ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کی اصلاح معرض وجود میں آئی اور کاغذ کا ڈالر چھاپ کر اسے سونے کی قیمت میں استعمال کرکے دنیا بھر سے بیش بہا دولت جمع کرلی۔اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ جس ملک کی کرنسی عالمی طور پر طاقتور ہوتی ہے وہی ملک دنیا پر راج کرتا ہے جب تک پونڈ اسٹرلنگ دنیا میں طاقتور کرنسی کے طور پر شمار ہوتا تھا برطانیہ کا راج تھااس کے بعد یہ اسٹیٹس ڈالر کو منتقل کردیا گیا۔
جس بڑی تبدیلی کی ہم بات کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ سونے اور تیل کے نرخوں کے تعین کے ادارے اب انتہائی خاموشی کے ساتھ اسرائیل منتقل کیے جارہے ہیں ۔۔۔جی ہاں ۔۔۔ یعنی جو کام لندن کے اکنامک زون اور نیویارک کی وال اسٹریٹ میں ہوا کرتا تھا اب وہ مقبوضہ فلسطین یعنی یروشلم سے ہوا کرے گا۔۔۔!! یہ کام ایک یا دو دن کا نہیں ہے بلکہ اس کام میں کافی عرصہ درکار ہوتااس لیے عالمی صہیونیت پر نظر رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ 2018ء کے آخر تک یہ کام مکمل طور پر پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اتنی بڑی ’’منتقلی‘‘ کو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے اس لیے تمام مشرق وسطیٰ میں جنگ کا دھواں اڑا دیا گیا ہے ، عراق، یمن، شام،بحرین، لبنان اور لیبیا میں جنگ اور مسلکی فسادات کی آگ بھڑکانے اور روس کو شام کی جنگ میں پھسانا اور امریکا کا منصوبہ بندی کے ساتھ خطے سے پسپائی اختیار کرنے کے پیچھے ہٹنے میں یہی دجالی منصوبہ کارفرما ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک یا دو برس بعد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا مرکز یروشلم میں ہوگا اس کے علاوہ دنیا بھر میں ہونے والی الیکٹرونک جاسوسی کے نظام کا مرکزجو اس وقت امریکا میں ہے ڈیٹا سمیت اسرائیل منتقل ہوجائے گا تاکہ دنیا بھر میں ہونے والی مالیاتی، معاشی، معاشرتی وعسکری سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے اور مالیاتی مرکزی بینک کے ذریعے معاشی پالیسیوں کا کنٹرول براہ راست ہاتھ میں لے کر دنیا کی معاشی اور عسکری گردن اسرائیل کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ یعنی اسرائیل کی عالمی دجالی حاکمیت کے لیے راہ ہموار کی جاچکی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل رقبے کے لحاظ سے انتہائی چھوٹا ملک ہے پھر عالمی حاکمیت کے لیے اتنی بڑی دنیا کو کیسے قابو کیا جائے گا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسرائیل بڑا نہیں ہوسکتا تو دنیا کو چھوٹا کردیا جائے لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے دنیا بھر میں ایک مرتبہ پھر قوم پرستی کا زہر گھولا گیا ہے، برطانیہ سے آئرلینڈ نہیں سنبھل رہا تو امریکا کی کئی ریاستوں میں مرکز سے بغاوت کی آگ سلگنا شروع ہوگئی ہے ، یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی آبادکاری کو بہانہ بناکر وہاں کی مقامی قوم پرست جماعتوں نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے ،فیڈریشن اور یونین کا نظریہ دم توڑتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔ جس طرح پاکستان میں پہلے مسلک کی آگ لگانے کی کوشش کی گئی اس میں ناکامی کے بعد اب پنجابی، پختون، بلوچی ، سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں مقامی میڈیا اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹسں آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہی ہیں ۔عالمی سطح پر اس فتنے کی تیاری کا کام کئی دہائیاں پہلے شروع ہوچکا ہے جب انٹر نیٹ کی سہولت مہیاکرنیوالی کمپنیوں ،سیل فون کی کمپنیوں اور مائیکروسوفٹ جیسی عالمی کمپنیوں کے ذریعے سیل فونز اور کمپیوٹرز میں ایسے خفیہ آلات نصب کروائے گئے جس کی وجہ سے دنیابھر میں ہر طرح کی جاسوسی کا کام آسان ہوگیا۔ اب جس کی جیب میں سمارٹ فون ہے وہ سمجھ لے کہ اس کی جیب میں عالمی دجالیت کا ایک جاسوس چھپا بیٹھاہے ،وہ جس فون کیمرے سے کچھ دیکھ رہا ہے اسی کیمرے سے اس کی سرگرمیاں بھی نوٹ کی جارہی ہیں اس کے گھر میں لگاہوا سمارٹ ٹی وی اسے کے گھر کا بھیدی بن کر ہزاروں میل دور معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بناہوا ہے جہاں وہ ایک خودکار پروگرام کے ذریعے خودبخود ایک بڑے ڈیٹا بینک میں منتقل ہورہا ہے یہ ہے دنیا کو چھوٹا کردینے کا تصور، جس کی بنیاد پر دجال یروشلم سے دنیا پر اپنی عالمی حاکمیت قائم رکھ سکے گا۔
یہ سب کچھ اس آگ اور دھویں کی آڑ میں ہورہا ہے جو اس وقت تمام مشرق وسطیٰ میں پھیل چکی ہے اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ یہ آگ اور دھوان اس وقت پھیلا ہے جب مشرق وسطیٰ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ۔ لیکن ایشیا میں ایک بڑی رکاوٹ موجود ہے، روس اور چین اپنی جگہ ہیں لیکن ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اس خطے میں عالمی دجالیت کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے گوادر کی بندرگاہ کو فعال بناکر اور سی پیک کا منصوبہ شروع کرکے خطے کی دو بڑی قوتوں یعنی روس اور چین کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا نون لیگ اور زرداری گروپ کے کرتا دھرتا جس انداز میں عالمی قوتوں کے ہاتھوں میں قومی اثاثوں کے نام پر سب کچھ دائو پر لگانے کے لیے تیار ہیں اس نے صورتحال زیادہ خطرناک کردی ہے۔ معاشی لوٹ مار نے ملک کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ معاشی دہشت گردو قومی سلامتی سے متعلق اہم رازوں کو افشاکرچکے ہیں ، سب کو معلوم ہے کہ ڈان لیکس کس کے کہنے پر ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ حسین حقانی کس کے ایما پر امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں کو پاکستان کے ویزے جاری کرتا رہا۔ معلوم نہیں ان میں سی آئی اے کے کتنے اور اسرائیلی موساد کے کتنے ایجنٹ امریکیوں کے کور میں وطن عزیز میں داخل ہوئے؟کون کون ایوان صدر میں مہمان بن کر قیام پذیر رہا۔ کیا یہ حقیقت آج سب کو معلوم نہیں ؟ یہ معاشی دہشت گردملک میں دندناتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی ادارہ ان پر ہاتھ نہیں ڈا لتا۔۔۔ !!
جس وقت قوم پاناما کیس کے ’’محفوظ فیصلے‘‘ کے انتظار میں سوکھتی جارہی ہے اس وقت دنیا میں یہ ــ’’بھیانک منتقلی ــ‘‘کا منصوبہ جاری ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھا جائے کہ 2018ء کے آخر تک دنیا کو ایک بہت بڑا مالیاتی جھٹکا دیا جائے گا اس معاشی جھٹکے سے جو کوئی تھوڑا بہت بچ پایا وہی کسی نہ کسی حد تک معاملات چلانے کے قابل تصور ہوسکے گا۔یہ مالیاتی جھٹکا عربوں کولینڈ کروزر سے نکال کر ایک مرتبہ پھر اونٹ پر بٹھا دے گا۔ جس وقت شاہ فیصل ؒشہید نے امریکا اور یورپ کا تیل بند کیا اس وقت ہنری کسنجر نے شاہ فیصل سے ملاقات کا احوال ان الفاظ میں رقم کیا ہے کہ ’’میں نے شاہ فیصل کو کہا کہ جناب میرے طیارے میں واپس جانے کے لیے پیٹرول نہیں ہے اگر مہربانی ہو تو اس میں پیٹرول بھرنے کی اجازت دے دیں تو شاہ فیصل نے انتہائی سنجیدگی سے کہا، ہمارے آباء شروع سے اونٹ پر سفر کرنے اور کھجور پر گزارا کرنے کے عادی رہے ہیں ، ہم بھی یہی طرز زندگی دوبارہ اختیار کرلیں گے‘‘۔ اگر اس وقت عرب واقعی دوبارہ اونٹ پرسوار ہوجاتے تو باقی دنیا کو پیدل کرسکتے تھے، مگر افسوس کہ تیل کی سنہری دھار سب کچھ بہاکر لے گئی۔آنے والا مالیاتی جھٹکا ڈالر نام کی کرنسی کا تنزل ہے جس کی سب سے بڑی قیمت عرب اپنی غفلت کی وجہ سے چکائیں گے۔ کیونکہ دنیا میں جس کا سرمایہ ڈالر میں ہوگا وہ سب کچھ کھو دے گا۔ چین نے اسی جھٹکے سے نمٹنے کے لیے کئی سال قبل اپنا محفوظ سرمایہ ڈالر کی جگہ سونا میں بدل دیا تھا یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں سونا چوبیس ہزار روپے تولہ تھا اس کے فوراً بعد چند ماہ میں ہی سونے کی قیمت چوبیس ہزار سے بڑھ کر 47ہزار روپے پر چلی گئی تھی، اتنی بڑی تبدیلی اس لیے آئی تھی کہ چین عالمی مارکیٹ سے سونا اٹھاکر اپنے محفوظ ذخائر کو مضبوط بنارہا تھا جبکہ وطن عزیز کے سونار بھی اس تبدیلی کی حقیقت کو نہیں پہنچ پائے تھے، اس کے بعد یہی کام روس نے بھی کیا۔ رہ گئے عرب تو ان کے ساتھ جو ہونے جارہا ہے وہ اوپر بیان کردیا ہے پاکستان کے پالیسی ساز ادارے اگر وطن عزیز کو اس صورتحال میں مستحکم رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ملک کے معاشی دہشت گردوں پر فوراً ہاتھ ڈال دیں اور ان معاشی لٹیروں نے جو دولت لوٹ کر مغرب میں جائیدادیں بنائی ہیں یا بینک بھرے ہیں انہیں وطن عزیز میں جلد لاکر اسے سونے میں تبدیل کر لیں ، بصورت دیگر معاشی لٹیروں کے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا وطن عزیز بھی قوم کے اس سرمائے سے محروم ہوجائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل ہوسکتا ہے لیکن اسے منصوبہ بندی سے وائٹ ہائوس لانے والے ہرگز پاگل نہیں ہیں ۔ جو کام عالمی صہیونیت نے گورباچوف سے لیا تھا اب وہی کام عالمی دجالی صہیونیت ڈونلڈ ٹرمپ سے لینے جارہی ہے۔ٹرمپ اگر غیر ملکیوں کو نکالنے کی بات کررہا ہے تو اس کے پیچھے یہی چھپا ہوا ایجنڈا ہے کہ آنے والے وقت میں امریکی حکومت امریکیوں کو روزگار مہیا کرے گی یا تارکین وطن کو ؟ اسی لیے امیگریشن کے سخت قوانین بنانے کی کوشش جاری ہے بہت جلد یہ کام یورپ میں شروع ہونے والا ہے، نام اسلام اور دہشت گردی کا استعمال ہو رہا ہے لیکن اس کے پردے میں اصل منصوبہ معاشی ہب کو مقامی افراد میں منتقل کرنے کا ہے۔
دنیا ایک نئے دجالی مالیاتی نظام کے دہانے پر کھڑی کی جانے والی ہے، جیسے ہی عالمی مرکزی بینک یروشلم میں قائم ہوگا فوراً دنیا بھر کی کاغذ کی کرنسیاں متروک قرار دے دی جائیں گی اس کی جگہ ’’پلاسٹک منی‘‘ لے گی جس کا نام ہر ملک کی مقامی کرنسی کے نام پر ہوگا جس دکان سے جو چیز خریدی جائے گی اس کی کٹوتی اس ’’پلاسٹک منی‘‘ کے کارڈ سے ہوا کرے گی جس کا ریکارڈ آن لائن بینکنگ کے ذریعے علاقے کے بینک اور وہاں سے ’’مرکزی بینک‘‘ منتقل ہوا کرے گاتاکہ عالمی دجالی نظام اس بات سے آگاہ رہے کہ ہمارے گھر میں ایک مہینے کا جو سامان آیا وہ کیا تھا اور کتنی مالیت اس پر خرچ ہوئی۔ اسی دجالی مرکزی بینک کے ذریعے ملکوں پر اپنے فیصلے مسلط کیے جائیں گے جو اس فیصلے سے روگردانی کرے گا اس کا عالمی حقہ پانی بند کردیا جائے گاکوئی دوسرا ملک دجالی قوانین کی وجہ سے اس سے لین دین نہیں کرسکے گا۔ کس ملک کو کونسی فصل کتنی مقدار میں کاشت کرنی ہے اور کونسی فصل کس دوسرے ملک سے لینی ہے اس کا فیصلہ بھی’’ عالمی دجالی مرکزی بینک‘‘ کرے گا۔اس سارے دجالی نظام سے وہی ملک محفوظ رہ سکیں گے جو زیادہ سے زیادہ کاشت کرسکیں گے اور جن کے پاس اپنا سونا ہوگا اور طاقتور فوج کو کھلانے کی سکت رکھ سکیں گے۔ اسی لیے پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پانی کوبھارت کے ہاتھوں فروخت کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا، بھارت سے اپنا پانی ہر صورت واگزار کرانا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ ڈیم بناکر توانائی کی کمی پوری کرنا ہوگی اور جو کالا باغ ڈیم کی طرح سیاسی طور پر اس کی مخالفت کرے اسے اسی ڈیم میں لٹکانا ہوگا ، وڈیروں اور جاگیرداروں سے زمینیں واپس لیکر جو کاشت کرسکے زمین ان میں تقسیم کرنا ہوگی، ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کو مزید مضبوط بناکر اس کے ساتھ ساتھ ’’سریع الحرکت‘‘ فوج بھی تشکیل دینا ہوگی اگر ہم یہ اقدامات کرپائے تو یقیناً آنے والے دجالی نظام کا حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گے۔۔۔ کیونکہ دو برسوں کے اندر ’’گلوبلائزیشن ‘‘ کا تصور اپنے وجود کے ساتھ سامنے آجائے گا ۔
٭٭…٭٭