... loading ...
(پہلی قسط)
نوٹ(اسماء الرجال و مقام کے حالات و واقعات کم و بیش وہی ہیں جو کالموں میں بیان کیے گئے ہیں)
پچھلے دنوں آپ نے ہمارے تین کالم’’ دشمنوں کے درمیاں‘‘ یقینا پڑھے ہوں گے۔مونٹی میاں کی ہمشیرہ ڈاکٹر مینو ماں جو ماہر امراض جلد اور تن تراش ہیں وہ تو آپ کو یاد ہی ہوں گی۔ان کی ایک دوست اور شریک کار ہیں،نام ہے زینب۔پیشے کے لحاظ سے یہ ایک فیزیو تھیراپسٹ ہیں۔بچپن میں جب یہ پنجاب کے علاقے میلسی میں رہتی تھیں تو والدین کی شفقت سے محروم ہوگئیں۔خالہ اور خالو دونوں کی اولاد نہ تھی۔وہ کراچی میں ڈاکٹر تھے۔زینب کو وہ اپنے پاس کراچی لے آئے۔چاند چہرہ ،ستارہ آنکھوں والی زینب قوت گویائی سے محروم ایک بچی تھی۔
ایسے افراد کو ہم گونگے کہتے ہیں۔شائستہ افراد اس محرومی کی تلخی کم کرنے کے انگریزی کا لفظ Dumb استعمال کرتے ہیں مگر چونکہ انگریزی زبان میں یہ لفظ محاورتاً ایسے افراد کے لیے بولا جاتا ہے جو نسبتاً بے وقوف گردانے جاتے ہوں۔سیاسی درستگی یعنی Political Correctness کے لیے انگریزی زبان مزید شائستگی کا اہتمام کرتے ہوئے گونگے افراد کے لیے اب لفظ Mute استعمال کرتی ہے۔آپ کے ٹی وی ریموٹ پر اس لفظ کا ایک بٹن ہوتا ہے جس پر بھونپو کے اوپر لال رنگ کا X بنا ہوتا ہے جو آپ اپنے ٹی وی پر نون لیگ کی مریم اورنگ زیب،طلال چوہدری اور پی پی کی
شرمیلا فاروقی کو بولتا ہوا پاکر عجلت سے دبا دیتے ہیں۔یوں آپ کے کان اس جھوٹ کو سننے سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو یہ اپنی سیاسی جماعت کی حمایت میں دھڑلے سے بول رہے ہوتے ہیں۔
زنیب کو چونکہ پاکستان کے اسکول کالج کسی جسمانی معذوری کا شکار بچوں کے لیے کوئی خصوصی سہولت فراہم نہیں کرتے لہذا یہ بے چاری ڈاکٹر تو نہ بن پائی مگرفیزیو تھیراپسٹ بن گئی۔جس ہسپتال میں یہ ملازم تھی وہاںلکھنوئی خاندان کے منصور بھی ایک ریڈیالوجسٹ تھے۔
گونگے ،بہرے ، جوڑے پیار کے مراحل کیسے طے کرتے ہیں ،یہ تو خود سے ایک انوکھا موضوع ہے مگر پنجاب اور لکھنوء کے ایسے ہی ایک ملاپ میں میاں شاعر تھے۔اپنا سلسلہء نسب کھینچ کھانچ کر لکھنوء کے مرحوم نواب آصف الدولہ تک لے جاتے تھے۔
بیوی ہیر کی ماں جائی، جھنگ کی، دُّرِ نجف جٹّی تھی۔ میاں کی نستعلیق اردو شاعری سن سن کر جب اُوب گئی تو مچل کر شکوہ سنج ہوئی کہ ہر شعر اردو میں ٹھونک دیتے ہو کدی ساڈا وی خیال کرو۔ کوئی ایک آدھ مصرعہ ہی ہماری شان میں عطا کرو ۔میاں صاحب مان گئے
اور ایک مشاعرے میں ان کو سامنے بٹھا کر وہ شعر پڑھا کہ اس کی تجلیوں کے سامنے شمع محفل ماند پڑگئی۔شعر تھا ع
اب تو یہ آرزو ہے کہ تم کہتی چلی آئو
کی گل ہے بادشاہو، کی گل ہے بادشاہو
زینب اور منصور میاں کے مقامات عشق کب کیسے کیوں کر طے ہوئے یہ تواوپر والاجانے ۔سب نے البتہ یہ خوش گوار منظر حیرت سے دیکھا کہ گفتگو اور سماعت کی تمام تر محرومیوں کے باوجود دونوں میں پیار ہوا،اقرار ہوا اور یہ رشتہء ازدواج سے منسلک ہوگئے۔قدیم چین میںسیانے کہا کرتے تھے کہ اچھی شادی وہ ہوتی ہے جس میں میاں بہرا اور بیوی گونگی ہو۔اس معیار پر جانچیں تو یہ بڑی کامیاب شادی تھی۔
امریکہ میں شہریت کی لاٹری میں ہمیشہ کی بھاگوان زینب کا نام نکل آیا تو یہ امریکہ چلی گئی۔زینب کے ارادے مصمم،خواب بڑے اور پاکستان میں بسر ہونے والی زندگی سے ناآسودگی ،لا متناہی تھی۔منصور کی کزن روحی کا مین ہیٹن نیویارک میں ایک فلیٹ تھا ۔روحی دیکھنے میںبس یوں ہی سی تھی۔موٹی ،تازی،لمبی،چوڑی مگر کارپوریٹ لاء میں Mergersکی بڑی چنیدہ ماہر۔سندھ میں بنے ہوئے کھیس کے لمبے چوڑے کرتے جینز پر پہنتی تھی۔اس کے دوستوں کا حلقہ زیادہ تر ہم جنس پرستوں پر مشتمل تھا۔ ہم اسے اکثر چھیڑتے تھے کہ وہ اگر سندھ کے سیکرٹیریٹ میں داخلے کی کوشش کرتی تو کبھی اس کے بے ڈول اجرک اور کھیس والے کرتے اور اپنے افرو ہیر اسٹائل کی وجہ سے سندھ سیکرٹریٹ کی ساری مقامی بیوروکریسی اسے کسی درگاہ کا ملنگ سمجھتی باہر موجود سیکورٹی اسے بھاگ کر چائے بھی پلاتی اور کسی وزیر کا ڈرایئور اسے بھرا ہوا چرس کا سگریٹ بھی تھما دیتا مگر وہ کسی طور سیکرٹیریٹ کے اندر اپنی اردو اور حلیے کے باعث کامیاب نہ ہوپاتی۔ جواباًوہ کہتی تھی کہ میں اگر یہ ٹھان لوں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں
تمہارے چیف سیکرٹری کوE-Bay پر کوڑیوں کے مول بیچنا ہے تو اسے پتہ بھی نہ چل پائے۔زینب جب امریکہ پہنچی توروحی یورپ میں دو بڑی فضائی کمپنیوں کے انضمام کی ڈیل کی موشگافیاں طے کررہی تھی۔ چھ ماہ کے لیے اس کا اپارٹمنٹ خالی تھا ۔زینب کو اس نے اپنے اپارٹمنٹ میں رہنے کی اجازت دی۔چابی نیچے بلڈنگ کے ساتھ باپو پٹیل کے اسٹور سے لینی تھی۔
نیویارک کے جے۔ایف۔کے ائیر پورٹ سے باہر نکلی تو زینب سواری کے حوالے سے پریشان تھی۔پولیس سے رابطہ کیا تو وہ کہیں سے سائین لینگوئیج والا ساتھی پکڑ لایا۔انہون نے ایک ٹیکسی کرکے دی اسے کرایہ اور سفر کا ممکنہ دورانیہ بتایا۔یہ بھی بتایا کہ اگر کرائے اور ممکنہ دورانیے میں ذرا سی گڑبڑ ہوئی تو ٹیکسی لاک ہوجائے گی اور پولیس دو منٹ سے بھی کم وقت میں اس کی مدد کو پہنچ جائے گی۔اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول ہی رہی تھی تو پڑوس سے دو عرب لڑکیاں آگئیں۔اس کو اس نئی جگہ میں ڈھل جانے میں مدد کی اور کہا کہ رمضان ہیں لہذا سحری اور افطاری وہ یہاں بلڈنگ میں رہائش پزیر آٹھ دس عرب مسلمان لڑکیوںکے ساتھ کرے گی۔
روحی کی کوششوں سے اسے یہودیوں کے ایک بڑے ہسپتال میں تین ماہ کی بلا معاوضہINTERNSHIP مل گئی۔دو تین دن تو وہ نئی نویلی فیزیو تھیراپی کی مشینوں سے الجھتی رہی مگر پھر اس کاا چانک تبادلہ بوڑھے لوگوں کے geriatric وارڈ میں کردیا گیا۔وہاں اسے تین یہودی بڑی عمر کی خواتین اور ایک بڑے میاں کی دیکھ بھال،دل جوئی اور تیمارداری پر لگا دیا۔
زینب کو یہ اچھا نہ لگا۔اسے محسوس ہواکہ یہ تو سراسر وقت کا زیاں ہے۔ ہر وقت کی شفیق بڑی بی انچارج سے شکایت کی تو اس نے بھی ٹکا سا جواب دیا کہ وہ اس کی مدد سے قاصر ہے کہ کیوں کہ یہ ڈیوٹی بطور خاص ہسپتال کے ڈائیریکٹر صاحب نے لگائی ہے۔زینب کو ان سے بمشکل ملاقات کا موقع ملا۔اس کی شکایت سن کر وہ زور سے ہنسنے لگے۔زینب کو یہ بھی برا لگا۔ دل میں یہودیوں سے متعلق سنے سنائے تمام تعصبات پھنکارنے لگے۔زینب کے چہرے پر تلملاتے تاثرات کا بغورمشاہدہ کرکے کہنے لگے۔معالج کا پہلا وصف صبر و تحمل اور بیمار سے ہمدردی ہے۔یہ خوبیاںمریض میں صحت یابی کی جانب عازم سفر ہونے کے لیے خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔
بیمار بچوں اور بوڑھے لوگوں سے زیادہ آپ کی ہمدردی اور صبر کامستحق کوئی اور نہیں ہوتا۔ہمارے بوڑھے بیمار ضرور ہیںمگر غیر اہم اور بے اثر نہیں۔وہ اپنے فرائض دل جوئی سے ادا کرے۔ممکن ہے اس سے اس کی آئندہ زندگی میں نئے راستے وا ہوں۔
ہسپتال کے یہ یہودی ڈائیریکٹر صاحب عجیب تھے۔امریکہ کے شعبہء طب میں نام چیں افراد میںان کا شمار ہوتا تھا۔صبح جب اپنی کار سے ہسپتال آتے تو ساتھ والی نشست پر ایک نوجوان بیٹھا ہوتا۔یہ اپنے دفترچلے جاتے ۔وہ نوجوان لباس دفتر تبدیل کرکے ہسپتال کے کسی ایک ونگ کی ٹوایلیٹس کی دل جمعی سے ،جنہیں امریکہ میں ریسٹ روم کہتے ہیں، صفائی میں جت جاتا۔چار گھنٹے بعد لباس تبدیل کرکے ہسپتال کے قریب سب وے اسٹیشن سے ریل میں بیٹھ کر چلا جاتا۔زینب کو پتہ چلا کہ وہ ڈائریکٹر صاحب کا بیٹا ہے۔بایو کمیسٹری میں پی ایچ ڈی کررہا ہے۔ امریکہ میں چونکہ مزدوری کی اجرت فی گھنٹہ کے حساب سے ادا کی جاتی ہے وہاں ٹوائیلٹس کی صفائی کرنے والوں کو معاوضہ زیادہ ملتا ہے۔ یوں یہ حضرت اس کام کو اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔زینب کے دل میں ان باپ بیٹیوں کی عزت پہلے سے اور بھی سوا ہوگئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ تین ماہ گزر گئے۔اس دوران وہ اپنے چار مریضوںمیں سے بڑی بی دینا کے بہت قریب آگئی۔دینا بی بی کی خواہش تھی کہ وہ صحت یاب ہوکرسڑک پر بارش کے جمع پانی کے چھوٹے چھوٹےPuddles پر چھلانگیں لگائیں۔ایک معصوم خواہش۔
کئی دنوں سے زینب اس کوشش میں تھی کہ اسے موسیقار اے آر رحمن کے میوزیکل بمبئی ڈریمز کے برواڈوے تھیٹر میں ٹکٹ مل جائیں۔شو چھ ماہ کے لیے مکمل طور پر بک تھا۔روحی بھی ایک ہفتے کے لیے نیویارک آئی تھی۔اس کی کوششیں بھی بار آور ثابت نہ ہوئیں۔
انٹرن شپ کے آخری دن جب اس کی الوداعی پارٹی تھی۔دینا بی بی زینب کی خدمات کا اعتراف کرکے بہت روئیں۔اسے سونے کا ایک بریسلٹ تحفے میں دیا اور اپنا فون نمبر دے کر کہنے لگیں کہ امریکہ میںاگر کبھی اسے لگے کہ اس کے سامنے کوئی ایسی پتھریلی دیوار آگئی ہے جسے وہ عبور کرنے سے قاصر ہے تو وہ انہیں کال کرے۔ شاید وہ اس کی کوئی مدد کرسکیں۔ڈائریکٹر صاحب نے پوچھا کہ وہ اس کی خدمات پر کیا تحفہ پیش کریں تو نادان زینب نے وہی بمبئے ڈریمز کی دو ٹکٹوں کی فرمائش کی۔وہ پھر قہقہہ مار کر کہنے لگے کہ وہ اگر اوباما سے ملنے کی فرمائش کرتی تو یہ پوری کرنا شاید زیادہ آسان ہوتا۔
دل گرفتہ زینب ابھی گھر پہنچی ہی تھی کہ اس کے سیل فون پر ڈائریکٹر صاحب کی سیکرٹری کا ٹیکسٹ میسج آگیا کہ کل کے شو کے چار ٹکٹ مل گئے ہیں۔انہیں کل شام کو ایک لیموزین بمع ٹکٹ کے ان کے گھر سے پک کر لے گی۔
تین ماہ ختم ہوئے تو زینب کو فکر لگ گئی کہ وہ اپنا رہائش کا بندوبست بھی کرے اور منصور کو بھی بلا لے۔ یہ سب کچھ مگر اسی وقت ممکن تھا جب اسے کہیںملازمت مل جاتی۔
نائن الیون کے بعد امریکہ مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور دیگر تارکین وطن کے لیے اب پہلے کی سی آغوش مادر کی طرح مہربانیوں سے محروم ہوچلا تھا۔دس بارہ جگہ درخواست ملازمت کے باوجود جب جواب نہ ملا تو زینب کو مایوسیوں نے گھیر لیا۔بڑی بی دینا کو فون کرنے کی سجھائونی اسے فلسطینی پڑوسن نائمہ نے دی۔زینب نے تو جیسے تیسے فون کرکے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا مگر بڑی بی دینا سے اس کی ملازمت کی بپتا اسی نائمہ نے
سنائی۔فون مختصر تھا صرف اس کی رہائش کا پوچھا گیا ۔ یقین دہانی ندارد۔نائمہ نے اللہ از گریٹ کہہ کر بات سمیٹ دی گو یہ دونوں ہم جولیاں رہائش کے بارے میں سوال پر حیران ضرور ہوئیں۔ تہجد اور فجر پڑھ کر روتے روتے زینب سوگئی اٹھی توچارج پر چڑھے سیل فون پر ایک میسج جگمگا رہا تھا جس میں گھر سے کچھ فاصلے پر واقع کے ایک بڑے ہسپتال میں اسے واک۔ ان انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ رعایت بھی دی گئی تھی کہ وہ طب کے پیشے سے غیر متعلق کسی بھی ایک فرد کو وہ اپنی معاونت کے لیے ساتھ لا سکتی تھی ،ہمیشہ کی مہرباں نائمہ نے ساتھ چلنے کی حامی بھری۔