وجود

... loading ...

وجود

تنقیدبادشاہ گرپرکریں

اتوار 23 اپریل 2017 تنقیدبادشاہ گرپرکریں

یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں اب کوئی کسی کواس بنیاد پرالیکشن نہیں ہراسکتا کہ اگلاکرپٹ ہے، دوسرے معنوں میں اگرکسی شخص کے بارے میں یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ کرپٹ ہے، بدمعاش ہے توکم ازاکم ایسے شخص کوالیکشن تونہیں ہراسکتے ۔لوگ ایسے آدمی کوآج بھی پسندکرتے ہیں جس نے جیل کاٹی ہو۔ہمارے ملک میں جیل جاناکوئی شرمندگی کی نشانی نہیں ہے بلکہ جوآدمی جیل سے ہوکرآیاہولوگ اس کوبہادر،دلیر،نڈراورمظلوم سمجھتے ہیں ،ایسے آدمی کاذکرلوگ فخر یہ اندازمیں کرتے ہیں کہ اس نے اتنے سال جیل کاٹی ہے ۔جیسے کہ اس نے کوئی کارنامہ سرانجام دیاہو۔
مگرہماری قوم کایہ رویہ بھی ایک خاص وجہ سے ہے دراصل ہم نے انگریزکی غلامی دیکھی ہے ۔غلامی کے زمانے میں جوشخص قانون توڑتاتھااس کولوگ باغی کے طورپرلیتے تھے ۔اورقانون توڑنے پرسخت سخت سزائیں ملتی تھیں ۔لہذاایساانسان جس نے قانون توڑاہواوراس کے نتیجے میں اس نے جیل کاٹی ہولوگ اسے بہادرسمجھتے تھے، لوگ دل سے ایسے انسان کی عزت کرتے تھے کیونکہ قانون انگریزکاتھااورانگریزنے برصغیرپردھوکے سے قبضہ کیاتھا۔اس نے لاکھوں انسانوں کاقتل کیاتھااس لیے لوگ ایسے شخص کی عزت کرتے تھے جوانگریزکے قانون کی خلاف ورزی کرتاتھا۔ یہ رد عمل ہندوئوں ،مسلمانوں ،سکھوں سب کاتھا۔قانون ظلم کی علامت کے طورپرسامنے آیاتھا۔آزادی کے جتنے ہیروہیں ان کی اکثریت نے کبھی نہ کبھی انگریزکاقانون توڑاتھا،اور کئی مرتبہ جیل گئے تھے۔لہذایہ تمام لوگ ہمارے قومی ہیروہیں ۔ قوم ان کوعزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔حدیہ ہے کہ محمدعلی جناح صاحب پرناقدین یہ تنقید کرتے ہیں کہ کیونکہ انہوں نے جیل نہیں کاٹی اس لیے وہ حقیقی قائد نہیں تھے ۔
برصغیرتقسیم ہوااوردوحصوں میں بٹ گیا۔دونوں حصوں پرجوحکمران بنے انہوں نے وہی انگریزکاقانون تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ نافذکردیا۔انگریزچلے گئے مگرطرزحکمرانی چھوڑگئے، پولیس کے پاس انگریزدورمیں بھی تفتیش کاطریقہ چھترول ہی تھااورآج 2017ء میں بھی انڈیااورپاکستان کی پولیس کے پاس طریقہ تحقیق چھترول ہی ہے ۔اس لیے آج بھی ہمارے ملک کے لوگ قانون کوظلم کی علامت کے طورپرلیتے ہیں اورقانون توڑنے کواچھاسمجھتے ہیں ۔ہم اپنے بچوں کوگھروں سے بے ایمانی اورقانون توڑنے کی تربیت چھوٹی عمرسے دیتے ہیں ،جوکہ صحیح بھی ہے ۔ہم اپنے بچے کوبتاتے ہیں کہ بیٹاپولیس انکل اگرآپ سے گاڑی کے کاغذمانگیں جوکہ آپ کے پاس ہوں تب بھی آپ ان کونہ دینابلکہ ان سے پوچھناکہ وہ کتنے پیسے لیں گے۔کیونکہ اگرآپ کے سارے کاغذپورے بھی ہوئے توبھی پولیس انکل کوئی نہ کوئی دفعہ لگاکرآپ کاچالان کرینگے پھرآپ سے کاغذرکھ لیں گے اوریہ کاغذہوسکتا ہے گم بھی کردیں ۔اس لیے کاغذدینے کے بجائے ان سے پیسے پوچھناکتنے لیں گے ۔اسی طرح اگرکسی روز صبح ہماری آنکھ وقت پرنہ کھلے اورہمارابچہ اسکول نہ جاسکے تواسے یہ درخواست نہیں لکھ کے دی جاتی کہ بچہ اسکول اس لیے نہیں آیاکہ ہم صبح جاگ نہیں سکے بلکہ درخواست لکھ کردی جاتی ہے کہ یہ کل بیمار تھا۔ہم اپنے بچے کوخودجھوٹ بولناسیکھاتے ہیں ۔ہم خود اپنے بچوں کوبے غیرت بناتے ہیں یہ کہہ کرکہ اگرکوئی تمہیں گالی دے توتم اس کے منہ نہ لگنااگرکوئی بدمعاشی کرے توتم اس سے دورہوجانا۔ہم خود اپنے بچوں کوبتاتے ہیں کہ کبھی کسی کوسڑک سے اٹھاکراسپتال نہ لے جاناورنہ پولیس والے تمہارانام لکھ لیں گے پھرتمہیں تھانے اورعدالت کے چکرلگوائیں گے اورتنگ کرینگے ۔اس شہرکراچی میں لوگوں نے آٹھ سال قربانی یاتونہیں کی یاپھرخوداپنے ہاتھ سے جانورذبح نہیں کیاکیونکہ اگرجانورآپ کے دروازے پرکھڑاہوگاتواس کی کھال ایم کیوایم والے چھین لیتے تھے، اب لوگوں کوقربانی بھی کرناہوتی تھی اوران کی غیرت یہ بھی گوارانہیں کرتھی کہ کوئی ان سے کھال زبردستی بدمعاشی سے چھین کرلے جائے لہذالوگ جانورمدرسوں اورمسجدوں میں دے آتے تھے ۔مگرجب ریاست نے شہرسے یہ بدمعاشی اورغنڈہ راج ختم کرنے کافیصلہ کرلیاتوریاست کواس سب کوختم کرنے میں کتنے روزلگے؟چندمہینوں میں سب کیسے ختم ہوگیا؟توپھراس کامطلب ہواکہ اگرریاست پہلے چاہتی توپہلے بھی یہ سب ختم کرواسکتی تھی؟پھرتنقیدالطاف پرکیوں ؟تنقیدتوالطاف کوچھوٹ دینے والوں پرہونی چاہیے ناں ؟محلے میں جس کسی کا پالتو کتاہمیں کاٹتاہے ہم اس کتے کے مالک پرمقدمہ کرواتے ہیں ؟یاکتے پر؟ہمارے کندھے تھک گئے اپنوں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے ،مگرریاست نے ڈنڈااسی وقت اٹھایاجب ریاست پرکوئی جھپٹا۔ہماری ساری تنقیدسیاسی رہنمائوں پرہوتی ہے مگراصل میں تویہ بے چارے پتلی ہیں ۔تنقید اس نظام اوران لوگوں پرہونی چاہیے جنہوں نے ان کوہماراگوشت نوچنے کی آزادی دے رکھی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹونے اپنے دورحکومت میں کم ازکم 6سے 7 ایسے لوگ مروائے جن کے قتل کاالزام بھٹوپرلگایاجاتاہے یاجن کے قتل سے فائدہ بھٹوکوہوامگرریاست نے بھٹوکوجیل بھیجا،اس کوپھانسی دی اوربھٹوآج بھی زندہ ہے ۔بے نظیرکی کرپشن کسی سے چھپی ہے ؟سرے محل کی کہانی زیادہ پرانی نہیں مگرلیاقت باغ میں بی بی کاقتل ہوااوربی بی امرہوگئی ۔نوازشریف صاحب کے قصے سنانے کی کیاضرورت ہے ؟مگروہ جلاوطن ہوئے اورمظلوم ٹھہرے ۔ایم کیوایم نے اتنے ظلم کئے کہ لگتاتھااب ان کازوال کبھی نہیں آئے گا؟مگران کے خلاف آپریشن ایسے طریقوں سے ہوا اوران کے رہنمائوں کوایسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی کہ آج ایم کیوایم کے سارے ظلم ایک طرف رہ گئے اوروہ مظلوم عظیم بن چکے ہیں ۔آصف زرداری کابھی واحد طرہ امتیازاس کی 11سال کی قید ہے ۔الغرض ولی خان سے ایان علی ،اورڈاکٹرعاصم تک جوجوجیل گیااس قوم نے اس کوچوم کرسینے لگالیا۔اس میں قصور قوم کانہیں اس گندے نظام کاہے ،یہ غلامی کے دورکی باقیات ہے، اس سے نجات نہ لی گئی توقیامت تک جیل سے باغی ہیرو بن کر نکلتے رہیں گے،اورباغیوں کی دنیابھرمیں عزت کی جاتی ہے ۔لوگوں کانظام سے اعتماد ختم ہوتاجارہاہے۔ لوگ آج بھی آپس میں جھگڑتے ،دولوگوں کوصلح صفائی کامشورہ دیتے ہیں اورساتھ ہی کہتے ہیں کیوں تھانے عدالت جاکرذلیل ہوناچاہتے ہو، لوگوں کوعدالتیں مایوس کرچکی ہیں ، تھانے ظلم کی نشانی ہیں ۔مگرحیرت ہے پھربھی انقلاب نہیں آرہا۔آخرکیوں ؟کیونکہ ہمارے درمیان کوئی بھی ایساشخص موجودنہیں جواس نظام کوبدلنے کی بات کرے اوراس کے لیے طریقہ بھی وہ بتائے جونظام حاضروموجودسے الگ ہو۔تمام مذہبی جماعتوں کاالمیہ یہ ہے کہ وہ نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں مگرساتھ ہی لوگوں کودودھ اورشہیدکی نہریں نکال دینے کا وعدہ کرتی ہیں ،جولوگ بجلی کے بغیرنہیں رہ سکتے وہ انقلاب لائیں گے ؟ہرگزرتے دن کے ساتھ مذہبی جماعتیں اپنے اکابرین کے طریقوں سے منہ موڑرہی ہیں ۔وہ اپنے اندرہرروزتبدیلی لارہی ہیں اوراس تبدیلی نے ان کاچہرہ ہی مسخ کردیاہے ۔ہرمذہبی رہنماء صرف زمین کے اوپرکی زندگی کوشانداربنانے کے خواب دکھاتاہے ،زمین کے نیچے کی دنیاکسی کی ترجیح نہیں رہی۔ مذہبی لوگ دوتصورِخیرایک ساتھ لے کرچلناچاہتے ہیں ۔لیکن دوتصورخیرایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ زندگی فرعون کی اورخاتمہ موسی علیہ السلام کا،یہ کیسے ممکن ہے؟ اس لیے اب لوگ اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ وہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ اگرنظام تبدیل ہوگاتوان پرمصیبتیں نہیں آئیں گی؟ اگرکسی نے دنیاہی لینی ہے توپھروہ مذہبی آدمی کی دونمبردنیاکیوں لے گا؟ وہ لبرل انسان کی ایک نمبردنیاکیوں نہ لے؟ اس لیے لوگ آج بھی ملک میں مذہبی لوگوں کوکامیاب نہیں کرتے۔ بلکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ہمارے مذہبی لوگ بھی لبرل ہوچکے ہیں اورمسلسل ہورہے ہیں۔ کیسے؟ یہ جلد بتائوں گا ان شاء اللہ۔ آج توہم اس موضوع پربات کررہے ہیں ،کہ تنقید لوگوں پرنہیں نظام پرہونی چاہیے ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تنقیدکریں ضرورکریں مگرپہلے نئی دنیاکی بدمعاشیوں کوسمجھیں پھرتنقید بادشاہ پرنہیں بادشاہ گرپرکریں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر