... loading ...
یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں اب کوئی کسی کواس بنیاد پرالیکشن نہیں ہراسکتا کہ اگلاکرپٹ ہے، دوسرے معنوں میں اگرکسی شخص کے بارے میں یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ کرپٹ ہے، بدمعاش ہے توکم ازاکم ایسے شخص کوالیکشن تونہیں ہراسکتے ۔لوگ ایسے آدمی کوآج بھی پسندکرتے ہیں جس نے جیل کاٹی ہو۔ہمارے ملک میں جیل جاناکوئی شرمندگی کی نشانی نہیں ہے بلکہ جوآدمی جیل سے ہوکرآیاہولوگ اس کوبہادر،دلیر،نڈراورمظلوم سمجھتے ہیں ،ایسے آدمی کاذکرلوگ فخر یہ اندازمیں کرتے ہیں کہ اس نے اتنے سال جیل کاٹی ہے ۔جیسے کہ اس نے کوئی کارنامہ سرانجام دیاہو۔
مگرہماری قوم کایہ رویہ بھی ایک خاص وجہ سے ہے دراصل ہم نے انگریزکی غلامی دیکھی ہے ۔غلامی کے زمانے میں جوشخص قانون توڑتاتھااس کولوگ باغی کے طورپرلیتے تھے ۔اورقانون توڑنے پرسخت سخت سزائیں ملتی تھیں ۔لہذاایساانسان جس نے قانون توڑاہواوراس کے نتیجے میں اس نے جیل کاٹی ہولوگ اسے بہادرسمجھتے تھے، لوگ دل سے ایسے انسان کی عزت کرتے تھے کیونکہ قانون انگریزکاتھااورانگریزنے برصغیرپردھوکے سے قبضہ کیاتھا۔اس نے لاکھوں انسانوں کاقتل کیاتھااس لیے لوگ ایسے شخص کی عزت کرتے تھے جوانگریزکے قانون کی خلاف ورزی کرتاتھا۔ یہ رد عمل ہندوئوں ،مسلمانوں ،سکھوں سب کاتھا۔قانون ظلم کی علامت کے طورپرسامنے آیاتھا۔آزادی کے جتنے ہیروہیں ان کی اکثریت نے کبھی نہ کبھی انگریزکاقانون توڑاتھا،اور کئی مرتبہ جیل گئے تھے۔لہذایہ تمام لوگ ہمارے قومی ہیروہیں ۔ قوم ان کوعزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔حدیہ ہے کہ محمدعلی جناح صاحب پرناقدین یہ تنقید کرتے ہیں کہ کیونکہ انہوں نے جیل نہیں کاٹی اس لیے وہ حقیقی قائد نہیں تھے ۔
برصغیرتقسیم ہوااوردوحصوں میں بٹ گیا۔دونوں حصوں پرجوحکمران بنے انہوں نے وہی انگریزکاقانون تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ نافذکردیا۔انگریزچلے گئے مگرطرزحکمرانی چھوڑگئے، پولیس کے پاس انگریزدورمیں بھی تفتیش کاطریقہ چھترول ہی تھااورآج 2017ء میں بھی انڈیااورپاکستان کی پولیس کے پاس طریقہ تحقیق چھترول ہی ہے ۔اس لیے آج بھی ہمارے ملک کے لوگ قانون کوظلم کی علامت کے طورپرلیتے ہیں اورقانون توڑنے کواچھاسمجھتے ہیں ۔ہم اپنے بچوں کوگھروں سے بے ایمانی اورقانون توڑنے کی تربیت چھوٹی عمرسے دیتے ہیں ،جوکہ صحیح بھی ہے ۔ہم اپنے بچے کوبتاتے ہیں کہ بیٹاپولیس انکل اگرآپ سے گاڑی کے کاغذمانگیں جوکہ آپ کے پاس ہوں تب بھی آپ ان کونہ دینابلکہ ان سے پوچھناکہ وہ کتنے پیسے لیں گے۔کیونکہ اگرآپ کے سارے کاغذپورے بھی ہوئے توبھی پولیس انکل کوئی نہ کوئی دفعہ لگاکرآپ کاچالان کرینگے پھرآپ سے کاغذرکھ لیں گے اوریہ کاغذہوسکتا ہے گم بھی کردیں ۔اس لیے کاغذدینے کے بجائے ان سے پیسے پوچھناکتنے لیں گے ۔اسی طرح اگرکسی روز صبح ہماری آنکھ وقت پرنہ کھلے اورہمارابچہ اسکول نہ جاسکے تواسے یہ درخواست نہیں لکھ کے دی جاتی کہ بچہ اسکول اس لیے نہیں آیاکہ ہم صبح جاگ نہیں سکے بلکہ درخواست لکھ کردی جاتی ہے کہ یہ کل بیمار تھا۔ہم اپنے بچے کوخودجھوٹ بولناسیکھاتے ہیں ۔ہم خود اپنے بچوں کوبے غیرت بناتے ہیں یہ کہہ کرکہ اگرکوئی تمہیں گالی دے توتم اس کے منہ نہ لگنااگرکوئی بدمعاشی کرے توتم اس سے دورہوجانا۔ہم خود اپنے بچوں کوبتاتے ہیں کہ کبھی کسی کوسڑک سے اٹھاکراسپتال نہ لے جاناورنہ پولیس والے تمہارانام لکھ لیں گے پھرتمہیں تھانے اورعدالت کے چکرلگوائیں گے اورتنگ کرینگے ۔اس شہرکراچی میں لوگوں نے آٹھ سال قربانی یاتونہیں کی یاپھرخوداپنے ہاتھ سے جانورذبح نہیں کیاکیونکہ اگرجانورآپ کے دروازے پرکھڑاہوگاتواس کی کھال ایم کیوایم والے چھین لیتے تھے، اب لوگوں کوقربانی بھی کرناہوتی تھی اوران کی غیرت یہ بھی گوارانہیں کرتھی کہ کوئی ان سے کھال زبردستی بدمعاشی سے چھین کرلے جائے لہذالوگ جانورمدرسوں اورمسجدوں میں دے آتے تھے ۔مگرجب ریاست نے شہرسے یہ بدمعاشی اورغنڈہ راج ختم کرنے کافیصلہ کرلیاتوریاست کواس سب کوختم کرنے میں کتنے روزلگے؟چندمہینوں میں سب کیسے ختم ہوگیا؟توپھراس کامطلب ہواکہ اگرریاست پہلے چاہتی توپہلے بھی یہ سب ختم کرواسکتی تھی؟پھرتنقیدالطاف پرکیوں ؟تنقیدتوالطاف کوچھوٹ دینے والوں پرہونی چاہیے ناں ؟محلے میں جس کسی کا پالتو کتاہمیں کاٹتاہے ہم اس کتے کے مالک پرمقدمہ کرواتے ہیں ؟یاکتے پر؟ہمارے کندھے تھک گئے اپنوں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے ،مگرریاست نے ڈنڈااسی وقت اٹھایاجب ریاست پرکوئی جھپٹا۔ہماری ساری تنقیدسیاسی رہنمائوں پرہوتی ہے مگراصل میں تویہ بے چارے پتلی ہیں ۔تنقید اس نظام اوران لوگوں پرہونی چاہیے جنہوں نے ان کوہماراگوشت نوچنے کی آزادی دے رکھی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹونے اپنے دورحکومت میں کم ازکم 6سے 7 ایسے لوگ مروائے جن کے قتل کاالزام بھٹوپرلگایاجاتاہے یاجن کے قتل سے فائدہ بھٹوکوہوامگرریاست نے بھٹوکوجیل بھیجا،اس کوپھانسی دی اوربھٹوآج بھی زندہ ہے ۔بے نظیرکی کرپشن کسی سے چھپی ہے ؟سرے محل کی کہانی زیادہ پرانی نہیں مگرلیاقت باغ میں بی بی کاقتل ہوااوربی بی امرہوگئی ۔نوازشریف صاحب کے قصے سنانے کی کیاضرورت ہے ؟مگروہ جلاوطن ہوئے اورمظلوم ٹھہرے ۔ایم کیوایم نے اتنے ظلم کئے کہ لگتاتھااب ان کازوال کبھی نہیں آئے گا؟مگران کے خلاف آپریشن ایسے طریقوں سے ہوا اوران کے رہنمائوں کوایسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی کہ آج ایم کیوایم کے سارے ظلم ایک طرف رہ گئے اوروہ مظلوم عظیم بن چکے ہیں ۔آصف زرداری کابھی واحد طرہ امتیازاس کی 11سال کی قید ہے ۔الغرض ولی خان سے ایان علی ،اورڈاکٹرعاصم تک جوجوجیل گیااس قوم نے اس کوچوم کرسینے لگالیا۔اس میں قصور قوم کانہیں اس گندے نظام کاہے ،یہ غلامی کے دورکی باقیات ہے، اس سے نجات نہ لی گئی توقیامت تک جیل سے باغی ہیرو بن کر نکلتے رہیں گے،اورباغیوں کی دنیابھرمیں عزت کی جاتی ہے ۔لوگوں کانظام سے اعتماد ختم ہوتاجارہاہے۔ لوگ آج بھی آپس میں جھگڑتے ،دولوگوں کوصلح صفائی کامشورہ دیتے ہیں اورساتھ ہی کہتے ہیں کیوں تھانے عدالت جاکرذلیل ہوناچاہتے ہو، لوگوں کوعدالتیں مایوس کرچکی ہیں ، تھانے ظلم کی نشانی ہیں ۔مگرحیرت ہے پھربھی انقلاب نہیں آرہا۔آخرکیوں ؟کیونکہ ہمارے درمیان کوئی بھی ایساشخص موجودنہیں جواس نظام کوبدلنے کی بات کرے اوراس کے لیے طریقہ بھی وہ بتائے جونظام حاضروموجودسے الگ ہو۔تمام مذہبی جماعتوں کاالمیہ یہ ہے کہ وہ نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں مگرساتھ ہی لوگوں کودودھ اورشہیدکی نہریں نکال دینے کا وعدہ کرتی ہیں ،جولوگ بجلی کے بغیرنہیں رہ سکتے وہ انقلاب لائیں گے ؟ہرگزرتے دن کے ساتھ مذہبی جماعتیں اپنے اکابرین کے طریقوں سے منہ موڑرہی ہیں ۔وہ اپنے اندرہرروزتبدیلی لارہی ہیں اوراس تبدیلی نے ان کاچہرہ ہی مسخ کردیاہے ۔ہرمذہبی رہنماء صرف زمین کے اوپرکی زندگی کوشانداربنانے کے خواب دکھاتاہے ،زمین کے نیچے کی دنیاکسی کی ترجیح نہیں رہی۔ مذہبی لوگ دوتصورِخیرایک ساتھ لے کرچلناچاہتے ہیں ۔لیکن دوتصورخیرایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ زندگی فرعون کی اورخاتمہ موسی علیہ السلام کا،یہ کیسے ممکن ہے؟ اس لیے اب لوگ اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ وہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ اگرنظام تبدیل ہوگاتوان پرمصیبتیں نہیں آئیں گی؟ اگرکسی نے دنیاہی لینی ہے توپھروہ مذہبی آدمی کی دونمبردنیاکیوں لے گا؟ وہ لبرل انسان کی ایک نمبردنیاکیوں نہ لے؟ اس لیے لوگ آج بھی ملک میں مذہبی لوگوں کوکامیاب نہیں کرتے۔ بلکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ہمارے مذہبی لوگ بھی لبرل ہوچکے ہیں اورمسلسل ہورہے ہیں۔ کیسے؟ یہ جلد بتائوں گا ان شاء اللہ۔ آج توہم اس موضوع پربات کررہے ہیں ،کہ تنقید لوگوں پرنہیں نظام پرہونی چاہیے ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تنقیدکریں ضرورکریں مگرپہلے نئی دنیاکی بدمعاشیوں کوسمجھیں پھرتنقید بادشاہ پرنہیں بادشاہ گرپرکریں ۔