... loading ...
ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی بیمار پڑتے ہیں، یعنی بیمار پڑنا بالکل نارمل ہے،زندگی ہے تو دکھ بیماری بھی آئے گی۔ ویسے ہلکی پھلکی بیماری نزلہ زکام کھانسی بخار تو چلتا رہتا ہے ہم اس قسم کی بیماریوں کی کچھ زیادہ فکر بھی نہیں کرتے۔ہاں خدا ناخواسہ کوئی بڑی بیماری لگ جائے یا کوئی حادثہ وغیرہ ہو جائے جس کے نتیجے میں بندہ بستر پر لگ جائے تو تشویش ہونا قدرتی امر ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں صحت سب سے بڑی نعمت ہے۔بیمار ہو کر بندہ اللہ تعالیٰ کی کئی نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا بھی رکھی ہے۔ بندہ بیماری کے دوران علاج کروا سکتا ہے لیکن شفا دینا اللہ کا کام ہے، ویسے علاج معالجے کے نتیجے میں بندہ بیمار شفا یاب تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی صحت یابی میں دوستوں ہمدردوں اور رشتہ داروں کی عیادت اور دل بستگی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔عیادت اور تیمارداری مریض کا بہترین نفسیاتی علاج ہے۔ فطرت کا بھی تقاضہ ہے کہ کوئی بیمار ہوجائے یا کسی شخص کو بیماری یا پریشانی لاحق ہو جائے تو اس کی مدد اور مزاج پرسی کی جائے، یہ ایک معاشرتی ضوررت بھی ہے کیونکہ بیماری کسی کی شکل عمر یا نسل دیکھ کر نہیں آتی، میں یا آپ یا کوئی بھی شخص کبھی بھی بیمار پڑ سکتا ہے۔مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا یہ معاشرتی فرض اور بھی بڑھ جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا ہے اس لےے سب کا دکھ درد سانجھا ہے۔آنحضرت کا فرمان ہے مسلمانوں کی باہمی محبت کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جسم، جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے آرام ہو جاتاہے۔اس حوالے سے اپنے بیمار بھائی کی مزاج پرسی ہم پر دینی فریضہ بھی بن جاتا ہے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہم لوگ بیمار یا مریض کی تیماردی کے لےے جاتے تو ہیں وقت کا خیال نہیں کرتے، یعنی ہمارا جانا اس بیچارے کے لےے مزید کوفت کا باعث بن جاتاہے۔ مریض پہلے ہی مشکل میں ہوتا ہے ایسے میں اگر ہم اس کے پاس جاکر آرام میں خلل ڈال دیں تو اس بیچارے کا کیا حال ہوگا۔ بچوں کے ساتھ مریض کے پاس پہنچ جانا بچوں کا وہاں شور مچانا زور زور سے بولنا یہ بھی بیمار کو مزید تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔
کسی کی تیمارداری کے بھی کچھ اصول کچھ طریقے کچھ آداب ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ تیمار دار کا کام ہے کہ مریض کے پاس جانے سے پہلے اس کے گھر والوں سے سونے جاگنے کے اوقات معلوم کرلے، مریض کے آرام کا یا اس کے کھانے کا وقت ہو تو اس کے پاس نہ جائے۔ مریض کے پاس تیمارداری کے لےے جائے تو زیادہ دیر نہ بیٹھے نہ ہی زیادہ باتیں کرے۔ مریض یا بیمار کے پاس گروپ کی شکل میں جانا بھی مناسب نہیں، کیونکہ اس سے مریض کے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ تیماردار کو چاہیئے کہ بیمار یا مریض کے پاس جاکر مایوسی، موت اور ناامیدی کی باتیں کرنے کے بجائے امید افزا باتیں کرے جس سے مریض کی ڈھارس بندھے اور اس میں جینے کی امنگ پیدا ہو۔ بے چینی کے عالم میں عموماً مریض منہ سے اُف اور ہائے ہائے جیسی آوازیں نکالتا ہے۔ تیماردار مریض کو تلقین کرے کہ وہ ہائے ہائے کرنے کے بجائے اللہ اللہ کرے،بیماری کے عالم میں اللہ کا ذکر کرنے سے ایسے فوائد ملتے ہیں جو زندگی کے دیگر اوقات میں دیر بعد حاصل ہو تے ہیں۔ بیمار کو اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی بھی نصیحت کریں، کیونکہ اس وقت وہ فرشتوں کی طرح گناہوں سے پاک ہوتا ہے، جو دعا کرے وہ قبول ہوجاتی ہے، اور ہاں کسی مریض کی عیادت کے لےے خالی ہاتھ نہ جائیں حسب توفیق کچھ پھل یا میوہ جات اس کے لےے ضرور لے کر جائیں، ایسا کرنے سے مریض کو اپنی اہمیت اور آپ کی محبت کا احساس زیادہ ہوگا۔