... loading ...
سعودی عرب کی حکومت کو ان دنوںگوناگوں مسائل کا سامناہے اور ان مسائل ومشکلات وچیلنجوں میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں قائم بادشاہت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ سعودی حکومت کو ایک طرف تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کی وجہ سے زرمبادلہ کی آمدنی میں زبردست کمی کی وجہ سے مالی مشکلات درپیش ہیں جس میں بتدریج اضافہ ہوتاجارہاہے، اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے پہلے سعودی حکومت نے اپنے وزرا اور شاہی خاندان کے افراد کی تنخواہوں اور مراعات میںکٹوتی کی ، بعد ازاں سعودی عرب میں موجود کمپنیوں پر مختلف طرح کے ٹیکس عاید کئے ،سعودی عوام کوجو ٹیکس دینے کے عادی ہی نہیں ٹیکس نیٹ میں لایاگیا اور ان تمام اقدامات کے باوجود مالی خسارہ کم نہ ہونے پر اب زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش پرتوجہ مرکوز کی گئی ہے اور اب سیاحوں کو ترغیب دینے کے لیے مختلف شعبوں میں حکومت کی سخت پابندیوں کی پالیسیوں میں بتدریج نرمی کی جارہی ہے۔
ایک طرف سعودی حکومت کو مالی مشکلات کاسامنا ہے دوسری جانب اس پورے خطے میں سیاسی اتھل پتھل شروع ہوجانے کے اثرات بھی سعودی عرب پر پڑنا شروع ہوگئے ہیں ،جس کی وجہ سے شاہی حکومت کو مملکت پر کنٹرول قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔سعودی عرب کی شاہی حکومت کواس وقت اندرونی محاذ پر کئی بڑے خطرات اورچیلنجوں کاسامنا ہے، ایک طرف حکومت کو سعودی عرب میں موجود شیعہ آبادی پر کنٹرول رکھنے میں دشواری پیش آرہی ہے جبکہ دوسری طرف داعش اور القاعدہ نے بھی سعودی عرب میں قدم جمانے کی کوششیں تیز کردی ہیں اور سعودی حکومت کی انتہائی سخت گیر پالیسیوں سے نالاں نوجوان داعش اور القاعدہ کے پروپگنڈے کا بڑے پیمانے پر شکار ہورہے ہیں جس کی وجہ سے مملکت میں اب پہلے جیسی ”سب اچھا“ کی کیفیت برقرار نہیں ہے،اور عام آدمی کو اندرون خانہ پیدا ہونے والی ہلچل محسوس ہونے لگی ہے۔
ایک طرف سعودی عرب کو اندرونی محاذ پر ان مسائل اور چیلنجوں کاسامنا ہے اور دوسری جانب روس کے بھرپور تعاون سے اب ایران شام میں قدم جمانے کی بھرپور کوشش کررہاہے، اور شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے اثرات سے سعودی عرب کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہی نہیں بلکہ یمن کے حوثی باغی بھی سعودی عرب کی حکومت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں ،یہاں تک کہ انھوں نے مکہ مکرمہ اور دیگر بڑے شہروں کو اپنے میزائلوں کا نشانہ بناناشروع کردیاہے اوریہ سلسلہ اب رکتا نظر نہیں آتا۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی شاہی حکومت کو بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہے جو تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کی وجہ سے اب میسر نہیں ہیںاور بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کی وجہ سے اب اس مملکت کی روایتی خوشحالی بھی خطرے سے دوچار ہوچکی ہے۔
اس مشکل صورت حال سے نمٹنے میںناکامی کے بعد اب سعودی حکومت کی امیدوں کا آخری سہارا راحیل شریف اور مجوزہ اسلامی اتحاد رہ گیا ہے جو اس مملکت کی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرکے اس کاخاتمہ کرسکتاہے۔
سعودی عرب کی شاہی حکومت کو درپیش یہ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے بلکہ یہ سعودی حکومت کی ان دیرینہ پالیسیوں کانتیجہ ہیں جو انھوں نے شخصی اور خاندانی حکومت قائم رکھنے کے لیے اختیار کر رکھی تھیں۔سعودی حکومت کی جانب سے مملکت میں اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے پوری توجہ شاہی حکومت کو مستحکم اور مضبوط رکھنے پر مرکوز رکھی گئی یہاں تک کہ خارجہ پالیسی میں بھی سعودی حکومت نے مملکتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بجائے مختلف سربراہان مملکت کے ساتھ تعلقات کومستحکم کرنے کی کوشش کی اور تبدیلی کی موجودہ لہر کے دوران ان رہنماؤں کے زوال کی وجہ سے سعودی عرب کی شاہی حکومت نے جن کے ساتھ اپنی دوستی استوار کی تھی، مختلف ممالک کے ساتھ سعودی حکومت کے تعلقات اب پہلے جیسی نہیں رہے۔
دفاع کے شعبے میں بھی سعودی حکومت نے کم وبیش اسی رویے اور سوچ کو فروغ دیا اور ایک متحد قومی دفاعی ادارہ قائم کرنے اور تمام مسلح افواج کوا س ادارے کے ماتحت کرنے کے بجائے ،سعودی فوج کو دو ٹکڑیوں میں تقسیم کردیاگیا ۔فوج کاایک حصہ جو نیشنل گارڈ کہلاتاہے سعودی وزارت نیشنل گارڈ کے ماتحت کام کرتاہے جبکہ فوج کا دوسرا حصہ جو سعودی حکمرانوں اور شاہی گھرانے کازیادہ وفادار تصور کیا جاتاہے سعودی وزارت دفاع کے ماتحت کام کرتاہے۔ اس کے علاوہ سعودی فوج کی کمانڈ کی پالیسی بھی شاہی خاندان اور دوسرے شاہی گھرانے کے بااثر قبیلوں کے ماتحت ہے اور میرٹ کے بجائے ان کی مرضی کے مطابق ہی فوج کے سربراہ اور دوسرے اہم عہدوں پر تقرریاں ہوتی ہیں۔اس طرح سعودی عرب کادفاعی نظام بنیادی ادارہ جاتی اصولوں سے عاری ہے جس میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قابلیت ہی کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔جبکہ پوری دنیا میں صدیوں سے فوج میں تقرریاں اور خاص طورپر اس کی کمانڈرشپ پرتقرریوں کے لیے میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاتا اور
حکمرانوں کی پسند وناپسند کاخیال چند بڑے عہدوں تک ہی محدود رکھا جاتاہے جبکہ فوج کی پوری رینک اور فائل میں تقرریاں خالص میرٹ اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کی فوج کاشمار دنیا کی بہترین اور منظم افواج میں کیاجاتاہے، ایک لڑاکا فوج کی حیثیت سے پوری دنیا میں پاک فوج کی صلاحیتوں کوتسلیم کیاجاتاہے اور حالیہ برسوں کے دوران پاک فوج نے افغان سرحد کے ساتھ ملک کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میںدہشت گردوں کے ٹھکانوں کا کامیابی کے ساتھ صفایا کرکے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا سے منوالیا ہے ۔پاک افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقے یمن میں حوثی باغیوں کے زیر اثر دشوار گزار علاقوں سے بڑی مماثلت رکھتے ہیں ، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنی اتحادی فوج کی قیادت کے لیے جنرل راحیل شریف کی خدمات پر ہی اصرار کیا ۔سعودی عرب کی جانب سے راحیل شریف کی خدمات حاصل کرنے پر اصرار کی بنیادی وجہ سعودی فوج کی جانب سے پاکستان کے مقابلے میں 8 گنا سے زیادہ وسائل خرچ کرنے کے باوجود حوثی باغیوں کو کچلنے اور ان کے حملے روکنے میں ناکامی ہے۔سعودی عرب کے
حکمرانوں کو مملکت کو درپیش موجودہ چیلنجوں اور ان سے نمٹنے میں سعودی فوج کی ناکامی کے بعد یہ احساس ہوگیاہے کہ اس طرح کی نازک صورت حال سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیتوں، تجربے اور عزم مصمم کی ضرورت ہوتی ہے اور پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے ان صلاحیتوں کاثبوت دیا ہے۔تاہم اس حوالے سے ایک بنیادی نکتہ جسے غالباً سعودی حکمرانوں نے نظر انداز کردیاہے یہ ہے کہ پاکستان کی فوج نے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ کسی ایک فرد کی کوششوں کانتیجہ نہیں ہیں بلکہ بحیثیت پوری فوج کی صلاحیتوں اور کوششوں کی وجہ سے یہ کامیابی ممکن ہوئی ہے، سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ اہم نکتہ نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ کسی بھی معرکے اور چیلنج سے بھرپور انداز میں کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لیے ایک ایسی مربوط اور منظم فوج کی ضرورت ہوتی ہے جو پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس ہونے کے ساتھ ہی بھرپور جذبے سے بھی سرشار ہو۔ جبکہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیاہے سعودی فوج کو ایک مربوط فوج قرار نہیں دیاجاسکتا جبکہ سعودی فوج کو ایک خاص نکتہ نظر سے تیار کی جانے والی فورس ہی قرار دیاجاسکتاہے، اس فوج کو ایک منظم اور مربوط فوج کی شکل دینا آسان کام نہیں ہے یہ کام فوج میں برسوں کی تربیت جوانوں اور افسران میں قائدانہ صلاحتیوں کوفروغ دینے کے لیے ان میں مقابلے کا جذبہ پیدا کرنے کے بعد
ہی ممکن ہوسکتاہے ۔ جہاں تک پاکستان کی فوج کاتعلق ہے تو یہ صحیح ہے کہ پاکستان میں فوج کے سربراہ کاتقرر وزیراعظم کی صوابدید پرہوتاہے لیکن فوج کے سربراہ کے تقرر کے بعد فوج کے دیگر معاملات میں حکومت کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں کی جاتی ،فوج کے اندر تقرریوں اورتبادلوں اور ترقیوں کا فیصلہ فوج کا سربراہ اپنے نائبین کے مشورے سے خالص صلاحیت کی بنیاد پر کرتاہے اور کبھی بھی حکومت کی جانب سے اس پرکوئی اعتراض نہیں کیاجاتا۔جبکہ سعودی عرب میں فوج میں تقرریاں اور ترقیاں وزیر دفاع کی صوابدید پر کیاجاتاہے اور اس کامقصد ایک ایسی وفادار فوج قائم رکھناہے جسے کسی بھی وقت فوج کی جانب سے بغاوت کا کوئی خدشہ نہ رہے ۔
جہاں تک اب سعودی حکومت کی جانب سے قائم کئے گئے فوجی اتحاد کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں پوری دنیا میں عام تاثر یہی ہے کہ سعودی حکومت نے یہ اتحاد اپنے مفادات کے تحفظ اور خطے میں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے قائم کیاہے،اگر یہ تصور کسی حد تک بھی درست ہے تو پھر اس اتحاد کی قیادت جو کوئی بھی سنبھالے گا وہ اپنی پالیسیوں میں مکمل طورپر آزاد نہیں ہوگااور سعودی حکمرانوں کے احکامات پر عملدرآمدکرنے کاپابند ہوگا۔ایسی صورت میں اسے اپنی قائدانہ صلاحیتیں بروئے کار لانے کاموقع ہی نہیں مل سکے گاجس کی وجہ سے اس کی قائدانہ صلاحیتیں متاثر ہوں گی ۔اس کے علاوہ اگر کوئی مقصد سامنے نہ ہو تو وہ جذبہ سامنے نہیں آسکتاجو کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں کرائے کی فوج کبھی کسی محاذ پر اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرپاتی جب تک اس کی پشت پر جذبے سے سرشار کوئی فورس موجود نہ ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک فوج کے مایہ ناز جنرل راحیل شریف اس صورت حال میں سعودی اتحادی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں اور وہ سعودی فوج کو ایک ایسی منظم اور متحدفوج بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں جو وطن کے دفاع کے جذبے سے بھی سرشار ہو۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...