وجود

... loading ...

وجود

پاک افغان مقدر مشترک ہے (قسط1

جمعه 14 اپریل 2017 پاک افغان مقدر مشترک ہے (قسط1


افغانستان میں امن کا امکان ہنوز گہرے بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے اور برادرانہ تعلقات کا منظر نامہ بھی اطمینان بخش نہیں ۔ امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان میں موجود ہیں۔ بھارت بھی پوری طرح افغان حکومت پر اثر انداز ہے۔ در حقیقت امریکا قابض کی حیثیت سے وہاں موجود ہے ۔ افغان صدر اشرف غنی نے حلفِ صدارت کے بعد امریکا سے شرمناک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کسی طور ایک آزاد ملک و قوم کے شایانِ شان نہیں۔ افغان اپنی آزادی و خود مختاری کو ہر مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ حریت کا جذبہ ان کے ایمان و عقیدے کا حصہ ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال خطے میں بے چینی اور اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے، جو ایک اور بڑی جنگ اور تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بھارت اور افغانستان کا بغل گیر ہونا کم از کم پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ چین اور روس اس تناظر میں عدم تحفظ کا احساس رکھتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے حالات کی سنگینی پر کھل کر اظہارِخیال کیا ہے ،جو گہرے غور وفکر کا متقاضی ہے ۔ ان کے بقول ”امریکا کا بھارت کے ساتھ لاجسٹک اور میری ٹائم معاہدہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ دونوں ممالک بڑے دفاعی شراکت دار کے طور پر اُبھرے ہیں اور بھارتی بحریہ کے علاوہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب امریکی افواج بحر ہند میں موجود ہیں۔ “ چین کا راستہ روکنے کی تدبیریں ہورہی ہیں ۔ روس بھی مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک پہنچنے کے لیے بحر ہند تک رسائی ناگزیر سمجھتا ہے۔جنوبی چین کے سمندر کی نوے فیصد تجارت اس حصے میں منتقل ہورہی ہے۔ اور بھارت کے لیے چین کی بحر ہند تک رسائی قبول نہیں اور پھر سی پیک کے ذریعے پاکستان بھی معاشی طور پر مستحکم ہوگا ۔ چنانچہ اس کشمکش سے ایک نئی اُلجھن اور مصیبت کے اشارے مل رہے ہیں ۔ بھارت خطے میں بالا دستی کی دوڑ میں لگا ہے۔ امریکا بھی چین کے پر کاٹنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان ان کے زیر دست ہی رہے۔ افغانستان میں بیٹھ کر تخریب و زور آزمائی ان کے لیے مشکل نہیں ۔ یاد رکھا جائے کہ افغانستان میں امن اور ایک آزاد و خود مختار قومی حکومت کا قیام نہ صرف پاکستان ، ایران ،روس، چین بلکہ امریکا کے مفاد میں بھی ہوگا۔ روس کے دار الحکومت ماسکو میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق کانفرنس میں شرکت سے امریکا انکار کرچکا ہے۔ 14اپریل کو ہونے والے اس اجلاس سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کا مو¿قف سامنے آیا ہے کہ کانفرنس میں مدعو کرنے سے قبل واشنگٹن کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی تھی ،یہ کہ امریکا روس کے مقاصد سے بے خبر ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو روسی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اس ضمن میں واشنگٹن کو بھی اعتماد میں لیا جاتا، تاکہ افغانستان میں قیام امن کے امکانات روشن ہوں ۔ روس نے اس کانفرنس میں امریکا، پاکستان، چین افغانستان ایران اور بھارت کو مدعو کیا ہے۔ امریکا نے افغان طالبان اور افغان حکومت میں مصالحت کی خواہش کا اظہار کیا ہے یہ بات امریکا کے وزیر خارجہ ایکس ٹلرسن کہہ چکے ہیں ۔ روس اور چین افغانستان کے حوالے سے امریکا کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔یقیناً بھار ت کے وہاں بیٹھنے سے پاکستان کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ پاکستان کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ روس کے افغان طالبان سے مراسم قائم تو ہوچکے ہیں مگر پاکستان ہی اس ذیل میں بہتر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میںہے ۔ بشرطیکہ امریکا خلوصِ نیت کے ساتھ افغانستان میں امن کا خواہاں ہو۔ افغان مزاحمت کی طوالت اب امریکا کے مفادمیں بھی نہیں رہی۔ حزب اسلامی افغان حکومت سے معاہدہ کرچکی ہے ۔ جب امریکا ،طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مصالحت کی بات کرتا ہے تو اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ امریکا کو طالبان کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ ہے ۔ دراصل اس حقیقت کا تسلیم نہ کیا جانا امن اور بات چیت کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ افغانستان میں روسی افواج کے انخلاءکے بعد جہادی تنظیموں کی نمائندہ حیثیت تسلیم کی جاتی تو آج افغانستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ اسی نمائندہ حیثیت کو منوانے کی خاطر گلبدین حکمت یار نے نیو یارک میں ہوتے ہوئے بھی امریکی صدر ریگن سے ملاقات نہ کی۔ روس پسپا ہوا تو امریکا نے گلبدین کا راستہ روکنے کے لیے روس اور افغانستان میں اس کے پروردہ رہنماؤں اور جنرلوں سے ساز باز کرلی۔اور اس عمل میں پاکستان امریکا کا معاون بنا رہا۔ پہلے مجددی جیسے کمزور شخص کو عبوری صدر بنایا گیا ما بعد پروفیسر برہان الدین ربانی عبوری صدر بنائے گئے اور احمد شاہ کو وزارت دفاع کا اہم قلمدان دیا گیا ۔ پروفیسر برہان الدین ربانی کمزور شخص تھے۔ دراصل فیصلوں کی کنجی احمد شاہ مسعود کے پاس تھی ،وہ طاقتورو اختیارمندتھے۔چنانچہ ربانی اور احمد شاہ مسعود کے بھارت سے روابط بن گئے۔ گلبدین حکمت یار وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کابل نہ جاسکے ۔ ایک خوفناک جنگ چھڑگئی جس میں شمال کی قوتیں اور کمیونسٹ باقیات ایک طرف اور حزب اسلامی دوسری طرف کھڑی تھی۔ حزب اسلامی کے مراکز پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی جاتی جو بھارتی پائلٹ اڑاتے تھے۔ افغانستان کے بعض ہوائی اڈوں میں جہازوں کی دیکھ بھال بھی انڈین پائلٹ اور ماہرین کرتے تھے۔ گلبدین حکمتیار کی جماعت کے امریکا، چین ، ایران، روس ، اور پاکستان سے تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہوگئے ۔کیونکہ اُس افغان حکومت کی باگیں اب کسی اور کے ہاتھ میں تھیں۔ احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم نے لسانی تعصب کو اتحاد کا ذریعہ بنایا۔ انہی دنوں ایک اجلاس میں رشید دوستم ، محمود بریالئی (یہ شخص سابق افغان صدر ببرک کارمل کا بھائی ہے ) احمد شاہ مسعود اور چند دیگر دوست و حلیفوں نے ایک اجلاس میں افغانستان کی سیاسی صورتحال پر یوں تبصرہ کیا کہ اب ہمارے اور آپ کے درمیان یہ بات مشترک ہے کہ آئندہ افغانستان کی حکومت اور سرکاری اداروں کے دروازوں پر جب کوئی دستک دے گا تو اندر سے ”سوک یے “کے الفاظ سننے کو نہیں ملیں گے۔ مطلب یہ کہ کابل میں پشتونوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گا۔”سوک یے “ کے الفاظ پشتو کے ہیں جس کے معنی” کون ہو “ہے۔ یعنی شمال کی ان مجاہد اور کمیونسٹ دور کی جماعتوں اور شخصیات نے جان لیا تھا کہ گلبدین حکمت یار کا راستہ روکا جا چکا ہے ۔ پاکستان کی تب کی حکومتیںبھی فہم و ادراک سے عاری تھیں اور فوج کے اندر بھی کوئی باتدبیر شخص نہ تھا۔ محض طالبان کا چند سالہ دور حکومت پاکستان کے لیے اطمینان کا رہا۔ پرویز مشرف نے امریکی اتحاد کا حصہ بن کر پاکستان کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا۔ افغانستان امریکی مقبوضہ بن گیا اور بھارت کو افغانستان میں ہر طرح کی آزادی مل گئی ۔ امریکا نے بھارت کے لیے افغانستان میں موقع تخلیق کیا تاکہ بھارت اپنا علاقائی ایجنڈا آگے بڑھاسکے اور پاکستان کو روکا جائے اوربھارت کے لیے افغانستان وسط ایشیائی ممالک کے وسائل تک رسائی کا ذریعہ ہے ۔ امریکا چاہتا ہے کہ بھارت کو عالمی سطح پر بڑی طاقت کا رُتبہ مل جائے ۔ بھارت افغانستان میں دوست حکومت کا خواہاں تھا ۔ پاکستان کو بدنام کرکے خود کو علاقائی امن کا علمبردار ثابت کرنے کی سعی کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں اثرو رسوخ یا پاکستان کا افغانستان میں اثرونفوذ ختم کرنا چاہتاہے۔ماضی میں بھارت اور روس نے ملکر افغانستان کو پاکستان سے دور رکھنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ پاکستان میںچند سیاسی جماعتیں اور شخصیات اس مقصد میں اپنا پورا حصہ ڈالتی رہیں ۔ وہی منظر آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی محوریت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ دونوں ممالک کے معاشی اور سیاسی مفادات باہم جڑے ہیں۔ ثقافتی اور دینی اقدار ایک ہےں۔ برطانوی ہند کے مسلمان اکابرین سے افغان حکمرانوں کا تعلق اور محبت والہانہ تھی۔ خود علامہ اقبال ؒ کی غازی امان اللہ خان اور نادر شاہ سے انتہا درجے کی عقیدت تھی۔ جب امان اللہ خان کے خلاف افغان عوام اُٹھے، شورش برپا ہوئی تو علامہ اقبال ؒ نے اپنے طور پر احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی۔ اقتدار حبیب اللہ یعنی بچہ سقہ جیسے لٹیرے کے پاس آگیا تو نادر شاہ نے اپنی جلاوطنی ترک کرکے افغانستان جانے کا فیصلہ کر دیا ،جاتے ہوئے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر علامہ اقبال ؒ نے انہیں لاکھوں روپے پیش کیے جو لاہور کے عوام نے علامہ اقبال کی اپیل پر جمع کیے تھے، خواتین نے زیورات تک دے دےے تھے ۔ علامہ اقبال کا انتقال ہوا توان کی قبر کے لیے کتبہ نادر شاہ نے بھیجا۔ ظاہر شاہ تک کو اقرار کرنا پڑا کہ ”پاکستان اور افغانستان کا مقدر مشترک ہے“ یہ بات سابق شاہ نے1986ءمیں کہی۔ حتیٰ کہ ظاہر شاہ نے 1957ءمیں پاکستان اور افغانستان کی کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو افغانستان کو اس سے دور رکھنے کی سازشیں شروع ہوئیں۔1947ءمیں افغانستان روسی حلقہ اثر میں چلا گیا ۔ کابل نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے تسلیم کرنے پر تحفظات و خدشات کا اظہار کیا اور یہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہ کیا۔ ڈیورنڈ لائن کا ایشو اس شدت سے اُٹھایا کہ جیسے یہ لکیر پاکستان نے کھینچوائی ہو۔ اور پاکستان کی پشتون جماعتوں نے اس ایشو پر سیاست کی بساط بچھالی۔ ۔۔۔تقسیم ہند سے پہلے ڈیورنڈ لائن کا معاملہ پس منظر میں تھا ،سرحدی لکیر کے بارے انڈین نیشنل کانگریس اور انگریزوں کا مو¿قف ایک ہی تھا اور برطانوی ہند کے پشتون بہی خواہ کانگریس کی مرضی و خواہش کے آگے سر تسلیم خم تھے، وہ ان کی ناراضگی مول لینا نہیں چا ہتے تھے۔ ان سب کو یہ قوی امید تھی کہ شاید شمال مغربی سرحدی صوبہ ہندوستان کے حصے میں دیا جائے۔چنانچہ جب ہند کی تقسیم یقینی دکھائی دی تو1946ءمیں حکومت افغانستان نے برطانوی ہند کو ڈیورنڈ لائن کی بابت مراسلہ بھیجا ، جس میں انگریز حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ 1893ئکا معاہدہ انگریزوں کے نکل جانے کے بعد خودبخود ختم ہوجائے گا لہٰذا اس معاہدے کے تحت لیے گئے افغان علاقے پھر سے افغانستان کے تصرف میں دیے جائیں۔1946ءکے انتخابات کے نتیجے میں ہندوستان میں مرکز میں عبوری حکومت قائم ہوچکی تھی اور امور خارجہ کا قلمدان جواہر لال نہرو کے پاس تھا۔ نہرو نے افغان حکومت کے اس مطالبہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور افغان حکومت پر واضح کردیا کہ ڈیورنڈ لائن دونوں ممالک کے درمیان قانونی سرحد ہے ۔ یعنی نہرو نے افغان حکومت کا دعویٰ بلاجواز قرار دے کر مسترد کردیا اور کہا کہ افغان حکومت اپنے دعوے میں تاریخ کا ہرگز حوالہ نہ دے ،اگر بات تاریخ کی کی جائے تو افغانستان کو اپنی موجودہ مملکت کے ایک وسیع علاقے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا کیونکہ ماضی میں ہندوستانی سرحد ڈیورنڈ لائن سے بہت مغرب میں ہوا کرتی تھی۔ نہرو نے متحدہ ہندوستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے سرحدی لکیر کے مسئلے پر افغان حکومت کی خوب کلاس لی ،چونکہ اس وقت تک شمال مغربی سرحدی صوبہ (خیبرپشتونخوا) کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوا تھا اور کانگریس کو یقین تھا کہ یہ علاقہ بھارت کا حصہ بنے گا مگر جیسے ہی ریفرنڈم ہوا تو کانگریس کا مو¿قف تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگی اور ڈیورنڈ لائن سے متعلق بھارت کی پالیسی بدل گئی ۔ اور افغان حکومت کی پشتونستان سٹنٹ کی حمایت ہونے لگی ۔ گویا ظاہر شاہ کے دور سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ افغان فورسز نے پاکستانی حدود میں گھس کر باقاعدہ مہم جوئی کی ۔ افغان حکومت کو پشتونستان کے مسئلے پر پاکستان میں پشتون قوم پرست جماعتوں کی حمایت و تعاون حاصل تھا۔افغانستان نے31اگست کو یوم پشتونستان قرار دیا ، جو 1948ءسے سرکاری سطح پر منایا جانا شروع کیا گیا ۔ اس دن کی پاکستان کے اندر بھی زبردست تشہیر کی جاتی تھی ۔ کابل میں ایک چوراہے کو ”پشتونستان“ چوک کے نام سے موسوم کیا گیا جس پر سال کے بارہ مہینے آزاد پشتونستان کا پرچم لہرایا جاتا۔بھارت اور سویت یونین کے پشتونستان کے مسلے پر مو¿قف اور ارادے ڈھکے چھپے نہیں تھے ۔سویت یونین نے تو 1955ءمیں ایک اعلان کے ذریعے پاکستان سے پشتون علاقوں میں رائے شماری کا مطالبہ بھی کیا ۔ 30مارچ 1955ءمیں کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملہ کرایا گیا۔ عمارت تباہ کردی گئی اور وہاں پشتونستان کا پرچم لہرایا گیا۔ یوں پاکستانی سفارتخانے پر حملوں کا کلچر عام ہوا۔ ظاہر شاہ اپنی حکمرانی میں کمزور شخص تھے۔ سیر و تفریح کے شوقین تھے ان پر سردار داؤد چھائے ہوئے تھے۔ داؤد خان 1953ءتا1963ءافغانستان کے وزیراعظم رہے۔ ظاہر شاہ ان سے جان خلاصی چاہتے تھے ۔اس مقصد کے لیے افغان آئین میں ایک شق شامل کردی گئی جس کی رو سے شاہی خاندان کا فرد حکومتی منصب حاصل نہیں کر سکتا۔ گویا یہ شق سردار داؤد کو اقتدار کے ایوان سے دور رکھنے کی خاطر شامل کی گئی ۔مگر سردار داؤد نے ظاہر شاہ ہی کو اقتدار سے محروم کردیا، اسے روس اور افغانستان کی کمیونسٹ لابی کی حمایت حاصل تھی جو ظاہر شاہ کی حکومت میں مضبوط ہو نا شروع ہو گئے تھے ۔ سردار داؤد نے سویت یونین کے لیے افغانستان کے دروازے ”وا“ کردیے ۔ ظاہر شاہ اور داؤد کے ادوار میں ”الحادی“نظریات کی پرچار شروع ہوئی،جس کے خلاف اسلامی تحریک اُٹھی ، جسے سنگدلانہ طریقے سے کچلنے کی کوششیں کی گئیں۔ کئی سربرآوردہ شخصیات قتل ہوئیں۔ سینکڑوں ہزاروں جیلوں میں ٹھونسے گئے،کئی جلاوطن ہوگئے۔ اس زمانے میں ہزاروں افغان عوام نے پاکستان ہجرت کی۔اقتدار پر قابض ہونے کے ساتھ ہی سردار داؤد نے پاکستان و ایران سے متعلق اپنی پالیسی وضع کی، دونوں ممالک کو استعمار کے آلہ کار قرار دیا یعنی اپنی خارجہ پالیسی پاکستان دشمنی پر استوار کر دی ۔ سردار داؤد نے پاکستان کے اندر کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کو پاکستان کے خلاف متحرک کیا، بلوچ پشتون علیحدگی کی تحریکیں منظم کیں ۔ پشتون بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں کو افغانستان میں محفوظ کرلیا۔ دراصل ظاہر شاہ اور سردار داؤد دونوں شخصیات پاکستان کے بائیں بازو کی جماعتوں کے فریب میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اس فریب کو سقوط ڈھاکا یا عوامی لیگ کی کامیاب بغاوت کے بعد مزید تقویت ملی۔ اور یہ یقین دلایا گیا کہ بنگلہ دیش کے بعد پاکستان کی حکومت ایک اور مزاحمت برداشت نہیں کرسکے گی ۔چونکہ بنگلہ دیش میں بھارت براہ راست میدان جنگ میں تھا یہی خوش فہمی انہیں مغربی پاکستان میں ہوچلی تھی۔ پشتون علیحدگی کی تحریک حقیقی نہیں تھی اس کی پشت پر روس و بھارت کا ذہن تھا جس نے افغان حکومت کو بھی اندھیرے میں رکھا۔اور خدا سے زیادہ روس کی دوستی پر انحصار و بھروسہ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سردار داؤد اور پشتون علیحدگی پسندوں کو عبرتناک سبق سکھایا ۔ بھٹو نے افغانستان کی اسلامی جماعتوں کی رہنمائی کی ۔ رفتہ رفتہ سردار داؤد پر حقائق منکشف ہونا شروع ہوگئے۔ وہ سمجھ گئے کہ روس کا افغانستان سے معاملہ بالادست و زیردست کا ہے۔ افغان خود مختاری سوالیہ نشان بن گئی تھی ۔ سردار داؤد کے خلاف افغان کمیونسٹوں کی ریشہ دوانیاں الگ سے جاری تھیں۔ اس طرح سردار داؤد نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ گو یا سابقہ پالیسیوں سے رجوع کیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے7تا 11جون1976 ءکابل کا دورہ کیا۔ دورہ کامیاب رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان خیر سگالی کے امکانات روشن ہوگئے۔ معطل فضائی سروس بحال ہوگئی۔ ما بعد اکتوبر1977ءمیں جنرل ضیاءالحق نے کابل کا دورہ کیا۔ سردار داؤد نے بھی پاکستان کاچار روزہ دورہ کیا۔ باہمی دلچسپی کے اہم امور زیر بحث لائے گئے۔ اس دورے کے ڈیڑھ ماہ بعد سردار داؤد کو اہلخانہ سمیت قتل کیا گیا ۔ ایوان صدر کی حفاظت پر مامور اٹھارہ سو سے زائد فوجی دستہ موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہ فوجی کودِتا تھی، فضائیہ کا کنٹرول ماہر روسی ہوا بازوں کے ہاتھ میں تھا۔ چھتیس گھنٹے کے طویل مقابلے کے بعدحملہ آور سردار داؤد کے پاس پہنچ گئے۔ امام الدین نامی ایک اہلکار نے سردار داؤد کو خود کو حوالے کرنے کا حکم دیا۔ سردار داؤد،جو ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے ،نے جواب میں کہا کہ وہ ملحدوںکے اس مختصر ٹولے کے آگے سرنڈر نہیں کریں گے۔ سردار داؤد کی پستول سے فائر کی گئی گولی امام الدین کے بازو میں لگی ۔ جواب میں سردار داؤد پر گولیوں کی بوچھاڑکردی گئی۔خواتین اور بچوں تک کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ،داؤد کی لاش کی بے حرمتی کی گئی ۔ سردار داؤد نے آخری وقتوں میں محسوس کرلیا تھا کہ افغانستان محفوظ نہیں اور اُس نے ”پشتونستان“ سٹنٹ کو بھی لپیٹناشروع کرلیا تھا۔ یہ دور پاکستان سے دوستی اور خیرسگالی کا تھا جسے حقیقت بننے نہیں دیا گیا۔پاکستان سے داؤد کی مفاہمت سویت یونین، ناہی اس کے افغان پروردہ آلہ کاروں کو قبول تھی ۔آخر کار سردار داؤد اور روس کے درمیان بد اعتمادی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔1977ئمیں سردار داؤد اور روسی صدر BREZHNEV کے درمیان ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات بہت تلخ ماحول میں ہوئی جہاں سردار داؤد نے دوران گفتگو میز پر یہ کہہ کر مکا مارا کہ ”افغان قوم اپنے معاملات اور فیصلوں میں خود مختار ہے۔“ یقیناً روسی صدر کو داؤد کا یہ اندازو رد عمل ناگوار گزرا،اسطرح روس نے افغانستان پر شب خون مارنے میں جلدی کردی اور 27اپریل1978 ءکا فساد اور خون آشامی برپا کی ۔ اس مردم کش کمیونسٹ انقلاب کی خوشی میں پاکستان میں بھی رقص و سرود کی محفلیں سج گئیں۔ حالانکہ اُس دن انقلاب نے افغانستان کی خود مختاری اور آزادی درگور کردی تھی۔نور محمد ترکئی نے اس انقلاب کو روس کے اکتوبر1917ءکے انقلاب کی توسیع کا نام دیا۔روس نے نور محمد ترکئی کوعظیم استاد اور مصلح کا خطاب دیا۔(جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر