... loading ...
پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری کو یہ معلوم ہے کہ پنجاب کے بغیر پاکستان کی صدارت یا وزارت عظمیٰ کا حصول مشکل ہے۔ انہوں نے اپنی پوری توجہ پنجاب پر مرکوز کردی ہے۔ وہ جب کہتے ہیں کہ انہیں سندھ سے پہچان ملی اور ان کا شمار بلوچوں میں ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ سندھ اور بلوچستان کے لیے ان سے بات کرے۔ وہ ایک بار پھر 1970ءوالی پوزیشن پیدا کردینا چاہتے ہیں جب ان کے سسر ذوالفقار علی بھٹو پنجاب کی مجبوری بن گئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب سے ہی جنم لیا جس کی پیدائش کو 50 سال ہوگئے ہیں اور یہ سال اس کی گولڈن جوبلی کا ہے۔
1970ءکے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے پنجاب سے اکثریت حاصل کی تھی جو 1972 ءمیں اس کے اقتدار کی بنیاد بنی تھی۔ رواں سال پیپلزپارٹی کی گولڈن جوبلی کا سال ہے۔ پچاس سال کے اس سفر میں بھٹو خاندان کے 5 افراد دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ان کے بیٹے شاھنواز بھٹو کی فرانس میں پراسرار موت واقع ہوئی۔ دوسرے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کو کراچی کی شارع پر گھر کے قریب کئی ساتھیوں سمیت پولیس نے مار دیا۔ بیگم نصرت بھٹو کا دبئی میں کسمپرسی کی حالت میں انتقال ہوا اور میت کراچی لائی گئی جبکہ تیسری بار وزیراعظم بننے کی خواہش دل میں لیے بینظیربھٹو کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی 38 ویں برسی لاڑکانہ کے گاؤں گڑھی خدا بخش میں منائی گئی ہے جہاں ماضی کی طرح شرکاءمیں زیادہ جوش وخروش نہیں تھا اور ان کی تعداد بھی کم تھی۔ برسی کے اجتماع سے خطاب میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے اپنے مخصوص لہجہ میں کہاکہ 15 دن پنجاب میں رہا تو شیر اور بلے (نواز شریف اور عمران خان کی طرف اشارہ) کا برا حال ہوگیا۔ اب ہر ڈویژن اور ضلع میں جاؤں گا جبکہ بلاول نے میاں نواز شریف کو رخصتی کی نوید سناتے ہوئے کہاکہ اسی سال الیکشن ہوں گے۔ جن میں پیپلزپارٹی کامیاب ہوگی۔ آصف علی زرداری ایک قدم آگے بڑھ کر بولے کہ پہلے وہ سینیٹ میں اپنا چیئرمین لائے تھے اور اب اپنا وزیراعظم لائیں گے۔ ان کی ہتھکڑی کھل چکی ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پنجاب پر یلغار کا مسلم لیگ (ن) سندھ میں جواب دے رہی ہے۔کچھ عرصہ قبل تک سندھ سے (ن) لیگ کی عدم دلچسپی کے باعث کئی ارکان اسمبلی اور مقامی رہنما نواز لیگ سے الگ ہوکر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ سندھ کی مخصوص سیاست تھانیدار‘ پٹواری‘ مختیارکار اور ڈپٹی کمشنروں کے گرد گھومتی ہے۔ حلقہ¿ انتخاب میں اپنا اثرورسوخ اور ووٹ بینک قائم رکھنے کے لیے ان سرکاری افسران سے رابطہ اور اچھے تعلقات ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی حمایت کے بغیر علاقے میں چلنا پھرنا اور کام نکالنا دشوار ہوجاتا ہے۔
سندھ کے سیاستدان اور بالخصوص حکومت”یس مین“ افسروں کو پسند کرتے ہیں۔
آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے خلاف وزیر اعلیٰ‘ سندھ کابینہ اور پوری صوبائی حکومت صف آرا ہوگئے ہیں ،اس سے قبل بھی اے ڈی خواجہ کا تبادلہ ہوا تو انہوں نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا تھا۔ اس حکمنامہ کی موجودگی میں چیف سیکریٹری نے ان کے تبادلے اور غلام قادر تھیبو کو قائم مقام آئی جی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ اے ڈی خواجہ اس حکم کو غیر قانونی تصور کرتے ہوئے پھر عدالت چلے گئے تو دوسرے ہی دن سندھ کابینہ نے ان کے تبادلے کا فیصلہ سنادیا۔ اے ڈی خواجہ کہتے ہیں کہ وہ عدالتی حکم کے پابند ہیں اور یوں سندھ حکومت اور خواجہ صاحب کی کشمکش جاری ہے۔ سندھ کی سیاست میں پولیس کا بڑا عمل دخل ہے۔ اے ڈی خواجہ سندھ حکومت کا ہر جائز و ناجائز حکم ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہی تنازعہ ہے۔ اپنے اصولی مو¿قف اور عوام کے ساتھ پولیس کا ”فرینڈلی“ رشتہ قائم کرنے کے سبب اے ڈی خواجہ صوبے کے عوام میں مقبول بھی ہیں اور جہاں جاتے ہیں لوگ والہانہ ان کا استقبال کرتے ہیں۔
سندھ حکومت کو ”یس مین“ کی ضرورت ہے اور اس کسوٹی پر اے ڈی خواجہ پورا نہیں اترتے۔ انہیں ”ناپسندیدہ“ کہا جارہا ہے۔سندھ کی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔ مہاجر سیاست ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ مصطفےٰ کمال اور انیس احمد قائم خانی کی پاک سرزمین پارٹی‘ ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیو ایم پاکستان اور آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ اپنا اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے متحرک ہیں جبکہ ایم کیو ایم لندن ریاستی آپریشن کی زد میں ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے اب تمام مہاجروں کو یکجا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ وہ مہاجروں کو بنیاد بناکر ملک گیر سیاست کے خواہاں ہیںاور مہاجروں کو قومی دھارے میں شامل رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1947 ءمیں بھارت سے ہجرت کرنے والے صرف سندھ میں ہی نہیں ملتان‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباواجداد نے پاکستان بنایا اور اس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اگر ملک گیر بنیاد پر ان سب کو ایک جماعت کے پرچم تلے جمع کردیا جائے تو آج بھی یہ پاکستان کے لیے بہت کام کرسکتے ہیں۔ پرویزمشرف پاکستان واپس آکر مہاجروں کو اکٹھا کرنے کا فریضہ سر انجام دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے خلاف جعلی مقدمات ختم کیے جائیں۔ سندھ کی سیاست میں ”سندھی مہاجر“ بنیاد پر سیاست کا غلبہ رہا ہے۔ سرکاری ملازمتیں ہوں یا کالج‘ یونیورسٹیز میں داخلے‘ اسمبلیاں ہوں یا بلدیاتی ادارے‘ یہ تفریق ہر جگہ کار فرمارہی ہے۔
اس کی مقدار میں کمی بیشی حالات پر منحصر ہوتی ہے لیکن انتخابات پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔ 1984 ءمیں ایم کیوایم کی تشکیل سے قبل بھی یہ تقسیم موجود تھی جسے ایم کیو ایم نے وسعت اور گہرائی عطا کی۔ حتیٰ کہ حیدرآباد جیسا شہر بھی اس لسانی تقسیم کا شکار ہوکر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کا تمام فائدہ بیورو کریسی اور اقتدار میں شریک جماعتوں نے اٹھایا۔ تعمیر و ترقی کے لیے مختص فنڈز پر ہاتھ صاف کیا۔ ان دنوں کراچی میں کلفٹن کے ساحل پر واقع باغ ابن قاسم کا تنازعہ زوروں پر ہے۔ یہ وسیع و عریض اور خوبصورت باغ 130 ایکڑ پر محیط ہے۔ اسے سابق صدر مملکت پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور اس وقت کے میئر کراچی مصطفےٰ کمال کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ اس باغ کی نگرانی اور دیکھ بھال ذاتی طور پر کریں گے۔
2008ءمیں پرویز مشرف حکومت رخصت ہوئی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو حالات بدل گئے۔ باغ ابن قاسم کچرے کا ڈھیر بن گیا۔
گزشتہ 9 سال کے دوران پارک کی دیکھ بھال کے نام پر 25 کروڑ روپے سے زائد غبن کرلیے گئے۔ پانچ پرائیویٹ پارٹیوں کو ٹھیکے پر دے کر ان سے بھاری رقم وصول کی گئی اور یوں ایک ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ پارک برباد ہوگیا۔ سندھ حکومت نے اس کا نیا ٹھیکہ معروف بلڈر اور لینڈ ڈیولپر بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض حسین کو دیا۔ اس کے لیے ایک کروڑ 73 لاکھ 25 ہزار روپے کی رقم بھی مختص کی گئی تھی جو انہوں نے تو وصول نہیں کی لیکن ان کے نام سے غبن ہونے والی تھی کہ شور مچ گیا۔ ایم کیو ایم پاکستان اور میئر کراچی وسیم اختر نے اعتراض اٹھادیا۔
ملک ریاض حسین نے پروجیکٹ پر کام روک دیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض حسین کی پشت پر موجود لوگ پارک کی قیمتی اراضی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس زمین کی موجودہ قیمت کم از کم 15 لاکھ روپے گزہے۔
1843 ءمیں سندھ فتح کرنے والے برطانوی فوج کے افسرچارلس نیپیئرنے کراچی کو دیکھ کر اسے ”مشرق کا موتی“ قرار دیا تھا۔ آج یہ خوبصورت شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ سیاسی لڑائیوں اور وسائل پر قبضہ کی جنگ نے اس عظیم شہر کو تباہ کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے گجرات میں پی پی پنجاب کے صدر چوہدری قمرالزمان کی صاحبزادی کی شادی میں کہاہے کہ ہم متحدہ سے کراچی چھین لیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا سندھ حکومت کے بارے میں جاری کردہ وائٹ پیپر بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اب بھی سندھ کی دوسری بڑی پارلیمانی طاقت ہے۔ اس کے پاس قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں بھرپور نمائندگی ہے۔ مناسب تو یہی ہے کہ اس کی طاقت کو تسلیم کرکے کراچی میں اس کے میئر وسیم اختر کو کام کرنے کا بھرپور اور آزادانہ موقع دیا جائے۔ باہمی لڑائی اور چپقلش میں تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔
مشہور امریکی مصنف ڈیل کارنیگی نے کتاب لکھی تھی ”میٹھے بول میں جادوہے“لیکن جب انسان اونچا بولنے لگے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ 5 ارب روپے کرپشن کے ملزم شرجیل میمن کو ”اونچا“ بولنے پر اسپتال جانا پڑا اور آصف علی زرداری کے 3 قریبی ساتھی لاپتہ ہو گئے۔ تھوڑے کو بہت کچھ سمجھ لینا چاہیے۔ اسٹیٹ کی اتھارٹی سے کوئی نہیں لڑسکتا۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا کئی حصوں میں تقسیم ہونا آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
٭٭….٭٭