... loading ...
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے ساتھ ہی”ٹرائیکا“ کی آزادی کا مشن پورا ہوگیا‘ ماڈل ایان علی‘ سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم حسین سنگین الزامات کے تحت جیلوں میں بند یا از خود جلا وطن تھے۔ دو سال قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ابھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پوری قوت کے ساتھ روبہ عمل تھا۔ اسی دوران آصف علی زرداری اسلام آباد میں”اینٹ سے اینٹ“ بجانے کا بیان دے کر بیرون ملک روانہ ہوگئے۔ ڈیڑھ سال تک امریکہ‘ لندن اور دبئی کے چکر کاٹتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت اب کھل کر کھیلنے لگی۔ فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ حکومت پالیسی بناتی ہے۔ دور بدلا تو آصف زرداری نے بھی قسمت آزمانے کی ٹھان لی۔ وہ ڈیڑھ سالہ از خود جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آگئے۔ پاناما لیکس کے کیس میں پھنسا ہوا حکمران خاندان مدد کے لیے ان کی طرف لپکا۔ آصف زرداری ذہین اور کامیاب ترین”ڈیل ماسٹر“ ہیں۔ ادھر وزیر اعظم نواز شریف کے سمدھی اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ سلسلہ¿ جنبائی شروع ہوا اور کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ پہلے ایان علی کو تمام مقدمات میں ضمانت ملی‘ ای سی ایل سے نام ہٹا اور وہ بیرون ملک روانہ ہوگئیں۔ 5کروڑ روپے منی لانڈرنگ پر انہیں اسلام آباد سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ جس کسٹم افسر نے پکڑی تھی‘ اسے قتل کردیا گیا۔ مقتول افسر اعجاز چوہدری کی بیوہ فریادی تھی لیکن کوئی ہتھکڑی اور بیڑی ایان علی کو نہ روک سکی۔ سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے یہ منظر دیکھا تو انہیں بھی وطن کی ”محبت“ واپس کھینچ لائی۔ ان پر پانچ ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے لیکن وہ بھی دودھ میں دھل کر اور گورے چٹے ہوکر سامنے آگئے۔ حیدرآباد میں شاندار استقبال کرایا۔ سیکورٹی کے لیے سندھ حکومت نے خصوصی طور پر رینجرز کی ڈیوٹی بھی لگائی۔ سونے کا تاج پہنایا گیا اور وہ بآسانی”قومی دھارے“ میں شامل ہوگئے۔ڈاکٹر عاصم جو آصف زرداری کے معتمد خاص بھی ہیں اور معالج بھی۔ 470ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہوا میں تحلیل ہوگیا اور وہ آزاد ہوگئے۔ جناح اسپتال سے ان کے ذاتی اسپتال ضیاءالدین تک کا سفر کسی”بادشاہ“ کے سفر سے کم نہیں تھا۔
فوج یہ سارے مناظر صبرو تحمل کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان صرف دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف ہی نہیں ہے۔ یہ معاشی دہشت گردی کے خلاف بھی ہے جس نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ قومی خزانہ اور وسائل کی لوٹ مار بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس سے غربت اور بیروزگاری بڑھتی ہے اور مجرم و دہشت گرد جنم لیتے ہیں۔ قومی سلامتی و ملکی استحکام داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ ایان علی‘ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کی یکے بعد دیگرے رہائی سے بد عنوان افسر شاہی اور اشرافیہ کو یہ پیغام گیا ہے کہ”کھلے کھاؤ‘ ننگے نہاؤ“۔ پاکستان”بنانا اسٹیٹ“ ہے۔ یہاں ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے بھی صرف کمزوروں پر اپنا رعب جماتے ہیں یا”پلی بارگین“ کرکے اپنی راہ لیتے ہیں۔ یہ ملک”ڈیل“ کرنے والوں کے لیے زرخیز چراگاہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر”پوسٹ“ ہوئی ہے جس میں ایک بچہ چیئرمین نیب کے دروازے پر کھڑا مطالبہ کررہا ہے کہ اس نے 30روپے کی کرپشن کی ہے۔ اس سے ”پلی بارگین“ میں 10روپے لے کر اسے کلیئر کیا جائے۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد منظر ہی بدل گیا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی خم ٹھونک کر یہ مضمون لکھا کہ زرداری حکومت کے دوران جب وہ امریکہ میں سفیر تھے تو ہزاروں امریکیوں کو پاکستان کے ویزے جاری کیے جن میں قوائد کی خلاف ورزی بھی ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم اور برائے نام چیف ایگزیکٹیو تھے ان کے دور میں یہ کھیل کھیلا گیا۔ انگریزی اخبار ڈان میں فوج کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر(ڈان لیکس) کی تحقیقات پر بھی مٹی پڑ چکی ہے۔ بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی 42ارب روپے کے کرپشن کیس میں نیب کو دو ارب روپے دے کر پاک صاف ہوگئے۔ حج کرپشن کیس میں علامہ حامد سعید کاظمی اور سیکریٹری بھی رہائی پا گئے۔ کرپشن اور بد عنوانیوں کے ایوانوں میں جشن برپا ہے‘ شادیانے بج رہے ہیں۔ قومی دولت لوٹنے والے بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی کیمسٹری میں پاکستان کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے”وفاقی“ اور سندھ میں نام نہاد قوم پرست جماعت ہے۔ بد عنوانیوں کے مقدمات میں پھنسے لوگ اپنی کھال بچانے کے لیے فوراً پنجاب کے فاصلے ناپنے لگتے ہیں۔ پنجاب سے موازنہ کرنے لگتے ہیں‘ وفاق کو برا بھلا کہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قوم پرست سیاستدان جی ایم سید کے نام خطوط اس امر کے شاہد ہیں۔1972ءمیں اقتدار سنبھالنے سے قبل جی ایم سید کے نام خطوط میں انہیں”سائیں جی ایم سید“ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور بر سر اقتدار آنے کے بعد ”مسٹر جی ایم سید“ لکھا گیا ہے۔ مرکز کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے پی پی پی دونوں وکٹ استعمال کرتی رہی ہے۔ آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے زمانے میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے لیے سندھی ٹوپی پہن کر افغانستان گئے تھے جس پر ایک ٹی وی اینکر نے ان کے خلاف مبینہ طور پر ”نذرانہ“ لے کر پروگرام کردیا اور پورا سندھ نعرے لگاتا ہوا سڑکوں پر آکر آصف زرداری کے ساتھ ہوگیا تھا ۔ جس کے بعد صدارت چھوڑنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ کم ہوگیا تھا۔سندھ کے ترقیاتی فنڈز اور صوبے کا مال ہڑپ کرکے اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب ترقی کررہا ہے تو یہ حامد کی ٹوپی محمود کو پہنانے کے مترادف ہی ہوگا۔ لاڑکانہ ترقیاتی پیکج کے ایک ارب روپے کہاں گئے؟ یہ سوال تو گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ میں اٹھ چکا ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات کی دلدل میں دھنسے کرداروں کی پے درپے رہائی کا نوٹس چیف جسٹس سپریم کورٹ‘ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود لے لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات اور استغاثہ کی ناقص صورتحال قابل غور ہے۔ کمزور استغاثہ کے باعث ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے وفاقی اور صوبائی پراسیکیوٹر جنرلز سے جواب طلب کیا ہے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ملک اور بالخصوص سندھ کی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ ہر سطح پر نوٹ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل نوید مختار بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملے ہیں جبکہ کور کمانڈر لاہور نے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کے دوران اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ بدعنوانی کے ناسور پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی سربراہ نے آرمی چیف کے حوالے سے بتایا کہ وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ادھر سندھ حکومت نے قواعد و ضوابط کے بر خلاف آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ(اللہ ڈنو خواجہ) کا تبادلہ کرکے سردار عبدالمجید دستی کو قائم مقام آئی جی سندھ پولیس مقرر کردیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس سلسلے میں وفاق کو خط ارسال کیا تھا لیکن جواب کا انتظار کیے بغیر ہی آئی جی کا تبادلہ کردیا گیا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کے تبادلے کے لیے وفاق سے مشورے کا پابند ہے لیکن یہ کارروائی وفاق کی رائے حاصل کیے بغیر ہی انجام دی گئی ہے۔ جس پر وفاق نے احتجاج بھی کیا ہے‘اس عمل کو وفاق سے”بغاوت“ شمار کیا جارہا ہے۔ دراصل سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کی راست بازی‘ دیانتداری‘ اصول پسندی اور خود مختاری سے نالاں اور خائف تھی۔ اس سے قبل بھی ان کا تبادلہ کرنے کی اس وقت کوشش کی گئی جب انہوں نے آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور شریک کار انور مجید پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سربراہ اور آصف زرداری ملک سے باہر تھے چنانچہ انور مجید کو گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہونا پڑا تھا۔ اب جبکہ میدان اور معاملہ بالکل صاف ہے تو اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کردیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی سندھ میں حکمرانی کے ایک اہم کردار ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف نیب نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ یہ انکوائری سابق ایس پی نیاز کھوسو کی درخواست پر کی جارہی ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق راو انوار پر 85ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے جو انہوں نے سندھ کی ایک شخصیت کے لیے کی ہے۔
راوانوار نے گزشتہ 5سال کے دوران 90مرتبہ بیرون ملک سفر کیا۔ ماڈل ایان علی بھی ایسے ہی ایک سفر کے دوران گرفتار ہوئی تھی جب وہ منی لانڈرنگ کررہی تھی‘ نیب کی تحقیقات کے مطابق راو انوار کا اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر میں بنگلہ ہے جس کی مالیت 50کروڑ روپے ہے جبکہ ٹیکس ڈیکلریشن میں انہوں نے اپنی تنخواہ 70ہزار روپے ماہانہ بیان کی ہے۔ نیب انکوائری میں حیثیت سے زیادہ اثاثے بنانے‘ زمینوں پر قبضے اور اغواءبرائے تاوان کے الزامات بھی ہیں۔
سندھ کے کم و بیش ہر محکمے میں غفلت ،کرپشن کی ایسی ہی عجب کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ سابق آئی جی پولیس غلام حیدر جمالی کے خلاف نیب کی تحقیقات جاری ہیں۔ قوم نے جنرل راحیل شریف کی سپہ سالاری دیکھی ہے۔ جن کی ریٹائرمنٹ کے بعد خدمات 39ملکی اسلامی اتحاد کے سپرد کردی گئی ہیں۔ اب وہ سعودی عرب سمیت 39اسلامی ملکوں کی افواج کے سپہ سالار ہیں۔ ان کے مداحوں کا خیال ہے کہ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک سیاست میں حصہ نہ لینے کی پابندی گزار کر جب پاکستان کی سیاست میں قدم رکھیں گے تو بڑے بڑے برج الٹ دیں گے۔ پھر”ڈیل کا بادشاہ“ بھی بے بس ہوجائے گا۔
٭٭….٭٭