... loading ...
الطاف حسین ندوی
گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں دو پہاڑی سلسلوں کوہ قراقرم اور ہمالیہ کے دامن میں واقع علاقہ ہے۔ بلتستان آٹھویں صدی عیسوی تک پلولو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تبت اور لداخ والے اس پورے علاقے کو’’ بلتی‘‘ اور یہاں کے باشندوں کو ’بلتی پا‘ یعنی بلتستان میں بسنے والے لوگ کہاجاتاتھا۔ دوسری صدی عیسوی کے محققین اس علاقے کو’ بالتی‘ کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔ مبلغِ اسلام حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کی کشمیر آمد سے پہلے یہ علاقہ بدھ ازم کے پیروکاروں کا مسکن تھا۔ مقامی تاریخ کے مطابق میرسید علی ہمدانیؒ نے اس علاقے کاسفر کیاتو یہیںسے اسلام کی اشاعت کا باضابط آغاز ہوا۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس خطے میں بعض قدیم مساجد، خانقاہوں اور امام بارگاہوں میں لکڑی کے دروازے سرینگر میں موجود قدیم مساجد کے دروازوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں جس سے حضرت امیرؒ اور ان کے رفقا کی خدمات اوردین سے لگن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس خطے کی آبادی میں تقریباً 85 فیصد شیعہ، 10 فیصد نوربخشی اور 5 فیصد سنی اور اسماعیلی موجود ہیں۔ساتویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک گلگت اور بلتستان پریکے بعد دیگرے مختلف خاندانوں کی حکومت رہی جن میں گلگت کے تراخان، نگر کے مغلوٹ، ہنزہ کے عیاشو، پونیال کے بروشے، یاسین کے خوش وقت ، سکردو کے مقپون ، شگر کے انچن اور خپلو کے یبگو خاندان شامل ہیں۔ 1860ء میں ڈوگروں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت قائم کر لی۔ انگریز برصغیر کے طول و عرض پر اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔1935ء میں انگریزوں نے ان علاقوں کو ریاست جموں کشمیر سے ساٹھ سالہ لیز پر لے کر انہیں گلگت ایجنسی کے نام سے انتظامی اکائی قرار دیدیا اور یہاں کرنل ڈیورنڈ کو اپنا پولٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا۔حکومت ِ برطانیہ نے جب برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ کیا تو معاہد ہ کالعدم قرار پایا اور انگریز گلگت کا علاقہ مہاراجہ جموں و کشمیر کو واپس کرگئے۔گلگت بلتستان کے عوام نے نومبر7 194 ء میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا اور گلگت میں مہاراجہ کشمیر کے نمائندے بریگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گرفتا ر کرکے آزاد ریاست گلگت کا اعلان کردیا اور راجہ شاہ رئیس خان کو ریاست کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ سترہ روز بعدباہمی مشاورت سے بلا مشروط ریاست ِ پاکستان سے الحاق کر لیا گیا۔ اکابرین نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو خطوط ارسال کرکے الحاق کی خواہش ظاہر کی، چنانچہ وہاں سے سردار عالم خان کو پولٹیکل ایجنٹ بنا کر گلگت روانہ کردیا گیا ، جنہوں نے 31 دسمبر 1947ء کو علاقے کا نظم و نسق سنبھا ل لیا۔
یہیں سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی نے بے شمار فاش اور ناقابل معافی غلطیوں کا آغاز کیا ،حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک طرف مسئلہ کشمیر کی نزاکت و حساسیت کا خیال رکھتے اور دوسری جانب گلگت وبلتستان کے لوگوں کی پاکستان کے تئیں والہانہ محبت کا خیال رکھتے ہو ئے ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرنے سے باز رہتے مگر افسوس، پاکستان کے نالائق اور کم ظرف حکمران ایسا نہیں کر سکے بلکہ تعمیر و ترقی پر توجہ مبذول رکھنے کے بجائے ہر دو چار سال بعد کوئی نہ کوئی ایکٹ نافذ کر کے مقامی لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے ۔ابھی الحاق کی تحریر کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ علاقے میں بدنام زمانہ قانون فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف۔سی۔آر) کا نفاذ کردیا گیا، جس کی رو سے تمام انتظامی وعدالتی اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ کو تفویض ہوتے تھے حتیٰ کہ وہ موقع پر قانونی فیصلے سنا سکتا تھا۔ جن کے خلاف کہیں اپیل بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس سے قبل مہاراجہ کے دور میں عدالتی نظام قائم تھا اور کشمیر ہائی کورٹ میں اپیل کی گنجائش موجود تھی۔28اپریل1949ء میں پاکستان اور حکومت ِآزاد کشمیر میں ایک معاہد ہ طے پایا ، جسے’’ معاہدہ کراچی ‘‘کا نام دیا گیا۔ اس کی رو سے گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام وفاقی وزارت امور ِ کشمیر کو منتقل کر دیاگیا اور علاقے کے نظم ونسق کی ذمہ داری ، حکومت ِ پاکستا ن کے مقرر کردہ پولٹیکل ریذیڈنٹ کو تفویض کر دی گئی ۔اس معاہدے کے نتیجے میں اسٹیٹ سبجیکٹ قانون بھی متاثر ہوا اور وہ آج تک متاثر ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہ غلطی پاکستان کے حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ خود آزاد کشمیر کے لیڈروں کی بھی ہے جنہوں نے یہ معاہدہ کر کے تمام تر اختیارات پاکستان کو دینے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے لیڈروں کی طرح واویلا کرنا شروع کردیا۔
1969ء میں صدر یحییٰ خان نے ’’ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل ‘‘کے نام سے ایک مجلسِ مشاورت قائم کی۔1970 ء میں اسی مجلسِ مشاورت کی سولہ نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے ،بے اختیار ہونے کے باوجود یہ خطے کی پہلی منتخب عوامی نمائندہ مجلس تھی، جو ترقیاتی منصوبوں کی سفارش کرتی اور منظوری دیتی تھی۔مقامی سطح پر ایک سیاسی تنظیم ’’تنظیمِ ملت‘‘وجود میں آچکی تھی۔1971ء میں’’ تنظیم ِ ملت‘‘ کا انتظامیہ سے تصادم ہوا، جس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے کچھ مظاہرین جاں بحق ہوگئے۔ تنظیم ِ ملت کے عہدے داروں اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس سے مظاہروں میں شدت آئی اور علاقے کی آئینی و قانونی حیثیت پر سوالات اٹھے۔1972ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے علاقے کے بگڑتے حالات کے پیش نظر ایف،سی،آر کا خاتمہ کرکے’’ تنظیمِ ملت‘‘ کے اسیران کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ساتھ ہی انہوں نے راجگی نظام کا خاتمہ کرکے عوام النا س کو صدیوں کی غلامی سے بھی آزاد کردیا۔1974ء میں انہوں نے علاقے کا دورہ کیا اور ریاست ہنزہ کو تحلیل کردیا۔ تنظیم ملت بعد ازاں 1975ء میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں مدغم ہوئی اور یوں گلگت بلتستان میں قومی سیاسی جماعتوں کی بنیاد پڑی۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے گلگت اور بلتستان کو ملک کا ’’ای زون‘‘ قرار دے کر مارشل لاء نافذ کردیا۔حالانکہ سکندر مرزا اور ایوب خان کے مارشل لا کا نفاذ گلگت بلتستان کے علاقے پر نہ ہوا تھا۔
جنرل ضیا الحق نے اپنے طویل دور حکومت میں کئی مرتبہ گلگت اور بلتستان کو آئینی حقوق دینے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان علاقوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ اس پر کشمیری لیڈروں نے خطوط ارسال کرکے ا نہیں یاددہانی کرائی کہ گلگت اور بلتستان کا علاقہ کشمیر سے اپنے تاریخی تعلق کی بنا پر متنازعہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ 1991 ء میں نگران وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں گلگت بلتستان میں سیاسی وعدالتی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ اس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی حکومت نے اصلاحات پر مبنی پیکیج دیا جس کی رو سے ناردرن ایریا کونسل کی نشستیں اٹھارہ سے بڑھا کر چھبیس کر دی گئیں اور فیصلہ ہوا کہ ارکان کونسل کا انتخاب آزاد انتخابات کے ذریعے کیا جائے گا۔ کونسل ایک ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا انتخاب عمل میں لائے گی جو چیف ایگزیکٹیو کے ماتحت ہوگا۔ چیف ایگزیکٹیو کا قلمدان وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کے پاس ہوگا۔ 1994ء میں کونسل کے لیے پہلی بار پارٹی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔اس کے بعد پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹواور پھر باوردی صدر بن گئے۔ ان کی حکومت نے علاقے میں لوکل باڈیز اور کونسل کے انتخابات کرائے۔ بعد ازاں لیگل فریم ورک آرڈر 1994ء میں ضروری ترمیم کرکے اسے نافذکردیا گیا جس کی رو سے مشاورتی کونسل ( ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل ) کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا گیا۔کونسل میں پہلی بار خواتین کے لیے پانچ نشستیں مختص کی گئیں۔علاوہ ازیں ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کو بھی محدود اختیارات دیے گئے، مگر ہنوز طاقت کا سرچشمہ بیورکریسی ہی رہی۔2008ء میں ملک میں دوبارہ جمہوریت بحال ہوئی۔2009ء میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کو صوبائی طرز حکومت دے کرجزوی طور پر اختیارات منتقل کیے گئے۔ اس آرڈیننس میں شمالی علاقہ جات کا نام تبدیل کرکے گلگت بلتستان رکھ دیا گیا اور قانون ساز کونسل کو گلگت بلتستان اسمبلی کہا گیا۔ ڈپٹی چیف ایگزیٹو کو وزیر اعلی ٰ کا منصب دیا گیا اور ساتھ گورنر کا عہدہ بھی قائم کیا گیا۔
گلگت بلتستان کے معروف سیاسی اور سماجی کارکن شیر علی انجم صاحب ماضی کے حالات کو یاد کرتے ہو ئے رقمطراز ہیں ’’۔ گلگت بلتستان کے عوام آج کی طرح اُس وقت بھی اس بات کو شدت سے محسوس کرتے تھے کہ ڈوگروں نے ہمارے ساتھ ظلم کیا ہے، ہماری ریاست پر ناجائز قبضہ کیا ہے، یہی وجہ تھی کہ ہر علاقے کا راجہ اپنی بساط کے مطابق ڈوگروں کے ساتھ الجھتا رہا لیکن ناکام رہا۔ تقسیم برصغیر کے بعد مہاراجہ کشمیر نے جب بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں ایک دفعہ پھر ڈوگروں کے خلاف نفرت نے سر اُٹھایا اور یکم نومبر1947ء آزادی کے فوراً بعد مقامی انقلابیوں نے عبوری کونسل کا قیام عمل میں لایا جس کے تحت شاہ رئیس خان جمہوریہ گلگت کے صدر بانی انقلاب مرزا حسن خان کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔ اس نومولود ریاست کے ابھی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنا باقی تھا کیونکہ اُس وقت گلگت کے کئی علاقے اور بلتستان ریجن آزاد نہ ہوئے تھے لیکن بدقسمتی سے برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر براؤن نے جب یہ سارا معاملہ دیکھا تو مقامی انقلابیوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی جس میں اُنہیں کامیابی ملی اور ایک ایسے بندے کو جسے صرف پاکستان سے رابطہ آفیسرکے لیے مدعو کیا گیا تھا، اس کے ذریعے بغیر کسی قانونی معاہدے کے عوام سے جھوٹ بول کر(کیونکہ مقامی عوام نومولود مملکت پاکستان کے لیے ایک جذبہ اور جوش رکھتے تھے) بانی انقلاب کو دیوار سے لگا کر گلگت کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچایا اور سولہ نومبر کو عبوری کونسل کے صدر کو ریاستی سربراہ سے ہٹا کر راشن ڈپو کا انچارج مقرر کیا اور سولہ دن کی حکومت کو سازشوں کا شکار کرنے کے بعد سردار محمد عالم خان نے عوامی لاشعوری سیاسی طور پر ناپختہ ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہاں ایف سی آر نافذ کیا۔اقوام عالم میں جب کسی ریاست کے مستقبل کا سودا کیا جاتا ہے تو فریقین کے درمیان معاہدوں کے ساتھ ضمانت دینے والے بھی موجود ہوتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کی الحاق کہانی شاید ہی دنیا میں دیکھنے کو ملے۔ یاد رہے ڈوگروں کی حکومت سے پہلے گلگت بلتستان کا کشمیر سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا۔ البتہ لداخ کے ذریعے کشمیر سے زمینی رابطے کافی صدیوں سے قائم تھے۔ اسی طرح 14اگست1948ء کو بلتستان ریجن نے بھی ڈوگرہ راج سے مکمل طور پر نجات حاصل کی۔ بدقسمتی سے ایک طرف اس خطے کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچایا تو دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں نے اس وقت کشمیر میں استصوابِ رائے کومد نظر رکھتے ہوئے اپنی مدد آپ آزادی حاصل کرنے والے اس خطہ کو پاکستان کا مستقل حصہ بنانے کی بجائے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنا لیا تاکہ جنوری1948ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قائم کیے گئے کمیشن کی جانب سے استصواب رائے کا فیصلہ ہونے کی صورت میں خطہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا ووٹ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکے۔آگے چل کر کشمیری رہنماؤں نے اٹھائیس اپریل1949ء کو ایک مرتبہ پھر اس خطے کے عوام سے کسی قسم کی رائے لیے بغیر معاہدہ کراچی کے تحت اس خطے کو کشمیر کا حصہ قرار دیکر مستقل طور پر پاکستان کے حوالے کیا لیکن آج یہ خطہ نہ ہی قانونی طور پر آزاد کشمیر کا حصہ کہلاتا ہے اور نہ ہی پاکستان عوامی مطالبات کا احترام کرتے ہوئے اس خطے کو آئینی طور پر پاکستان میں شامل کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔اس خطے کی قانونی خودمختاری کو ختم کرنے اور یہاں کے عوام کو اُس وقت کسی قسم کے قانونی فیصلہ کرنے کا موقع نہ دے کر سردار عالم کے مسلط ہونے کے بعد یہاں پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پی اے نے وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ یہاں انتظامی ڈھانچے کو ایف سی آر اورایجنسی نظام کے تحت چلایا جاتا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وفاق کی جانب سے ان عہدوں میں تبدیلی آتی گئی، اور یہاں ریذیڈنٹ، ایڈمنسٹریٹر، چیف کمشنر اور چیف سیکریٹریز کی حیثیت سے وفاقی نمائندے اس خطے کا انتظام و انصرام سنبھالتے رہے‘‘۔
اس طویل کہانی کے بعد چند اہم باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ ڈوگروں کے قبضے سے قبل گلگت بلتستان کا ریاستِ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں تھا،دوم گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ڈوگروں کو مار بھگایا اورایک اجتماعی فیصلے کے تحت پہلے اپنی حکومت قائم کی پھرمرحوم محمد علی جناح سے الحاقِ پاکستان کی درخواست پیش کی ،سوم الحاق کی درخواست پر شنوائی کے بعد ایک آفیسر کو تعینات کر کے اتنے بڑے رقبے کاتمام تر امور کا مالک بناکر عوامی جذبات کو مجروح کیا گیا ،چہارم سی ،پیک کے وجود میں آنے تک اتنی بڑی آبادی کوستر برس تک ’’تحریک آزادی کشمیر اور الحاق پاکستان‘‘کے بیچ لٹکا کر غلاموں جیسے سلوک کا سزاوار سمجھا گیا نا ہی وہ تحریک آزادی کشمیر کا حصہ بنے اور نا ہی انہیں پاکستان میں شامل کر کے برابری کی بنیاد پر حقوق دیے گئے ۔ان نکات کے علاوہ المیہ یہ کہ چین کو پانچ ہزار مربع میل کا رقبہ اسی علاقے سے کاٹ کر تحفے میں دیا گیا ،تعلیم ،روزگارنظامِ صحت اورعدل و انصاف فراہم کرنے کے بجائے ستر برس تک فرد واحد کی ذات کی مرضی کے تابع بنا کر تمام تر مسلمہ دینی اور انسانی قدروں کو جان بوجھ کر پامال کیا گیا حتیٰ کہ اس علاقے میں وہی جذبات جنم لیتے گئے جو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں پنجاب کے خلاف جنم لے چکے ہیں اور حد یہ کہ یہ بیروکریسی اپنے من مزاج میں تبدیلی لاکر ’’خالص پاکستان کے خاطر‘‘کچھ کرنے کے بجائے اب تک صوبائی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں سرگرداں ہیں ۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کی اکثریت آزاد کشمیر کی لیڈرشپ سے نالاں ہے کہ ان حضرات نے کبھی بھی ان کو اپنے برابر کھڑا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، سوائے اس کے کہ جب بھی یہاں کے عوام نے گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کر کے پانچواں صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تو یہ لوگ تحریک آزادی کشمیر کے نام پر سامنے آکر یہ کہنے لگے کہ دیکھو اس سے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت پر منفی اثر مرتب ہوگا اور بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک میں ادغام کے لیے اسے ایک بہانہ بنا کر سیاسی جارحیت کرے گا ۔یہاں کے لوگ تحریک آزادی کشمیر کی معروف قیادت سے بھی سخت نالاں ہیں کہ ان حضرات نے گلگت بلتستان کو کبھی بھی یاد نہیں رکھا مگر جب ہماری تعمیر و ترقی کی بات آئی تو انہیں زلزلہ محسوس ہوا حالانکہ انہیں کم سے کم چین کو زمینیں تحفے میں دینے اور غیر ریاستی افراد کو بسانے پر بھی اسی طرح احتجاج کرنا چاہیے تھا جس طرح وہ مقبوضہ کشمیر میں ’’سینک اور پنڈت کالینیوں‘‘پر چیختے چلاتے نظر آتے ہیں آخر خود پاکستان جب اس خطے کو بشمول آزاد کشمیر متنازع قراردیتا ہے تو یہاں وہ ڈیموگرافک تبدیلی کا ارتکاب کیوں کرتا ہے اور پھر ایک طاقتور بیوروکریسی کے پاؤں تلے روندنے میں شرم اور عار محسوس کیوں نہیں کرتا ہے ۔حد یہ کہ گلگت بلتستان اگر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے تو آخر تحریک آزادی کشمیر صرف وادی تک محدود کیوں ہے اور وہاں کی لیڈرشپ کبھی گلگت بلتستان کیوں نہیں آئی حالانکہ انہیں بھارت نے پاکستان دورے کی اجازت فراہم کی مگر انہیں اس وقت گلگت بلتستان یاد نہیں آیا ۔
گلگت بلتستان کے عوام آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت سے پوچھتی ہے کہ آپ اپنی ریاست پر جبری قبضے کے خلاف جب جدوجہد کرتے ہو ئے غلامی سے نجات حاصل کر کے آزاد فضاؤں میں سانس لینے اور جینے کے متمنی ہیں تو آپ کس منہ سے ڈوگروں کے ہمارے علاقے پر جارحانہ قبضے کو جائز سمجھتے ہو ئے ہمیں اپنی ریاست کا حصہ مانتے ہو حالانکہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان عوام ڈوگروں سے اب تک نفرت کرتے ہیں اور ان کے بیع نامہ امرتسر پر اب تک تھوتھو کی مہم جاری ہے جس کی روسے کشمیری عوام کو جانوروں کی طرح سات روپیہ فی کس کے حساب سے بیچا اور خریدا گیا!گلگت بلتستان کے عوام میں ایک اور محرومی کا احساس دن بہ دن شدت کے ساتھ جگہ پکڑ لیتا ہے کہ اصل میں پاکستان کی سنی اسٹیبلشمنٹ انہیں الگ صوبہ اس لیے بنانے کے حق میں نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کی 90%سے بھی زیادہ عوام شیعہ مسلک کے پیرو کار ہے جو اپنی سیاسی ،جغرافیائی اور مسلکی شناخت قائم رکھتے ہو ئے خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے صوبہ بنائے جانے کے حق میں ہیں تاکہ انہیں برابر کے حقوق ملیں ۔
سی پیک ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو پاکستان کو کم وقت میںبہت اونچائی پر لے جانے کا ذریعہ بن رہا ہے گلگت بلتستان کی عوام سمجھتی ہے کہ پاک چین کوریڈور کے طفیل ان کی اہمیت بڑھ چکی ہے ورنہ پاکستان ہمیں اسی حالت میں رکھنے پر مطمئن تھا ،گویا یہ پاکستان کی بیوروکریسی کی نیک نیتی نہیں بلکہ خودغرضی ہے ۔گلگت بلتستان بشمول مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی عوام پاک چین کوریڈور کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ ہی مسئلہ کشمیر کی تسلیم شدہ بین الاقوامی حیثیت پر کوئی منفی اثر مرتب ہو اورنہ ہی گلگت بلتستان اتنے بڑے پروجیکٹ کے استفادہ سے محروم رہ جائے ۔شیر علی انجم صاحب لکھتے ہیں آئین پاکستان میں ترمیم کیے بغیر اس خطے کے لیے کوئی بھی پیکج فقط اس خطے کے عوام کے لیے ماضی کے پیکیجز کی طرح لولی پاپ ہوگی۔دوسری طرف کشمیری ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حقوق گلگت بلتستان کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، یوں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پیکیج بھی گلگت بلتستان کی آئینی اور قومی شناخت کے حوالے سے سودمند ثابت نہیں ہوگا کیونکہ گلگت بلتستان کا سب سے اہم اور نازک مسئلہ معاشرتی ترقی اور یہاں کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے صنعتوں کا قیام اور مقامی وسائل پر حق حکمرانی ہے اور بین طور پر متنازعہ حیثیت کا ختم کرنا یا اس حیثیت کے مطابق حقوق کا حصول ہے۔لہٰذا سی پیک جیسے اہم، تاریخ ساز منصوبوں کی کامیابی اور دشمن ممالک کا منہ بند کرنے کے لیے اب ضروری ہوچکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر اقوام متحدہ کی نگرانی میں یہاں رائے شماری کرکے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنائیں، دوسری صورت میں مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل تک کے لیے اس خطے کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے کر سی پیک کی قانونی حیثیت کو یقینی بنائیں ‘‘مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یہ سب کچھ ہونے دے گا کیا وہ اعتراض نہیں اٹھائے گا؟اور کیا وہ جواز بنا کر کشمیر میں دست درازی کے لیے راہ ہموار نہیں کرے گا ۔لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ مسلہ بہت گمبھیر اور کافی نازک ہے اس لیے کہ یہ ایشو گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی کا ہی نہیں بلکہ یہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاک ،چین اور بھارت کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے جن کے تصورات ،خیالات اور مفادات بالکل الگ الگ ہیں ۔