... loading ...
ابھی ہماری ریاضت نیم شب کو صبح ملنے میں بہت دیر ہے۔ انصاف نہیں اس لیے معاشرے میں شفافیت کا منتر بھی پھونکا نہ جاسکے گا۔ ابھی ڈاکٹر عاصموں، شرجیل میمنوں اورزرداروں سے ہمارا پیچھا چھوٹنے والا نہیں۔ سامنے ٹی وی کا پردہ جگمارہا ہے اور ایک میزبان بدعنوانیوں پر ہمارے ردِ عمل کو بیش وبہت ثابت کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ تقسیم درتقسیم کے شکار،آخر ہمارا کیا بنے گا؟رعایت انفرادی معاملے میں ہوتی ہے۔نظمِ اجتماعی میں انفرادی اور گروہی رعایتیں معاشرے کے تاروپود کو بکھیر دیتی ہے۔ قانون کی ضرورت تب ہی تو پڑی تھی جب معاشرہ انصاف کے باب میں امتیاز کا شکار تھا۔اب بھی کچھ مختلف نہیں ، تمیز ِبندہ وآقا پر قائم یہ نظام ناکام ہے۔ اس میں جمہوریت اور آمریت کی کوئی تخصیص نہیں۔
ہمارا مسئلہ جمہوریت یا آمریت نہیں بلکہ ہمارا وہ رویہ ہے جو گروہی طور پر بن چکا ہے۔ اور جو ہر نظام میں ایک ہی طرح بروئے کار آتا ہے۔ ایسے بھی معاشرے ہیں جو جمہوریت کے بغیر پروان چڑھے اور ایسے سماج بھی ہیں جہاں جمہوریت نے اپنی بہاریں دکھلائیں مگر ہم دونوں ہی نظاموں میں ناکام نامراد ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ نظام ہمیں کچھ نہیں دے سکتے بلکہ اس لیے کہ ہم ان نظاموں کو بھی اپنے رویوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے آمر ایوب خان نے کہا تھا کہ فوج کو نظمِ اجتماعی میں کودنا نہیں چاہئے اور اگر کودے تو پھر اُسے اپنا کردار آدھا اور ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ جمہوریتوں کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ اُس کا کردار بھی کبھی معاشرے میں مسلسل اور مکمل نہیں رہا۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں قیام ِ امن کے لیے فوج پوری طرح دخیل ہے۔ ابھی ابھی تاج حیدر نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ہم مردم شماری کا معمولی کام بھی نہیں کرپارہے۔ یہ اُسی جماعت کے خوشہ چین ہے جس نے دوسال قبل فوجی عدالتوں کی تائید کی تھی۔تب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ دوسال بعد اس کی تائید کرتے ہوئے یہ آنسو بھی نہیں رہے۔ حیلہ جوئیاں اور جوازآرائیاں تھیں۔اس پر اعتزاز احسن کی اُکتا دینے والی گفتگو مستزادہے۔یہ ہماری جمہوریت کا احوالِ واقعی ہے۔
مسئلہ کرپشن کا ہو تو دیکھنے والی آنکھ اِسے آمریت اور جمہوریت کے خانوں میں کیسے تقسیم کر سکتی ہے؟ مگر ہمارے ٹی وی کے جادوگر میزبان ایسا کردکھاتے ہیں۔ اسپاٹ فکسنگ اور شرجیل میمن کے باب میں رویہ یہ ہے کہ ردِ عمل حد سے زیادہ ہے۔ پھر کیا کیجیے گا؟کرپشن کا مرض ہو تو اُنہیں جمہوریت کی اوڑھنی اوڑھا دیں۔ جمہوریت خود اتنا بڑا مقصد ہے کہ اس کے لیے معاشرے کے تمام امراض گوارا کرلیے جائیں یا ہم جمہوریت کا منجن اس لیے بیچتے ہیں کہ اس میں معاشرے کے تمام امراض کے علاج ہیں۔ افسوس نا ک امر یہ ہے کہ قومی ریاستوں کے اس زوال آمادہ عہد میں جمہوریت کی تکریم دراصل خود کارپویٹوکریسی(کارپوریشن کی صنعتی اشرافیہ) کا کامیاب منتر ہے۔ مغرب میں اب اس پر آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ہمارا دانشور طبقہ فکر کے مغربی لنڈا بازار سے اُترنیں بھی مغرب کی پہنتا ہے اور اُگلے ہوئے نوالے چباتا ہے۔ جمہوریت کے لیے دیے جانے والے آج کل کے دلائل مغرب میں پامال ہو چکے۔ پاکستان میں اُن دلائل کی چاندماری سے اب دسترخوانی قبیلہ دانشور طبقہ ہے۔
جوہری طور پر یہ مسئلہ جمہوریت یا آمریت کے نظام سے نہیں ہماری افتادِ طبع سے جڑا ہے ۔ ہم بدعنوانی کو روا رکھنا چاہتے ہیں اس لیے اِسے جمہوریت کی آڑ میں گنجائش فراہم کرتے ہیں ۔ گستاخی معاف آمریت کے پروردہ دانشوروں کا مرض بھی یہی ہے۔ وہ جب بدعنوانیوں کے مرض کی نشاندہی کرتے ہیں تو نشانہ بدعنوانی کو نہیں جمہوریت کو بناتے ہیں ۔ دونوں رویوں میں ایک ہی طرح کا تعفن ہے۔ نظام میں نہیں یہ اُصول کی سطح پر بات واضح کی گئی۔ بنی مخزوم کی ایک عورت کے لیے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے الفاظ گونجتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لیے یہی معیارِ انصاف بھی ہیں اور شفافیت کی بنیاد بھی۔ روایت ہے کہ ایک عورت نے چوری کی، وہ اونچے خاندا ن کی عورت تھیں۔ سماج طبقاتی ذہن سے ہمیشہ سوچتا آیا ہے۔ مگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بنائے معاشرے میں ایسا کیونکر ہوسکتا ہے۔لوگوں نے کہا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے حضرت اُسامہ ؓ کے سوا کوئی بات کرنے(سفارش) کی ہمت نہیں کرسکتا۔حضرت اسامہؓ لوگوں کے زور دینے پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اس سلسلے میں بات کی۔تب حضرت محمد مصطفی ﷺ نے وہ الفاظ ادا کیے جسے سماج کی بقا میں دائمی اُصول کے طور پر ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ فرمایا: اسامہ ٹہرو!بنی اسرائیل صرف اس وجہ سے ہلاک وبرباد ہوئے کہ جب اُن میں سے کوئی اونچے درجے کا آدمی چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور اگر اُن میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔“
سماج جرائم کی تشریح میں طبقاتی ہوجائے تو وہ ختم ہونے سے پہلے اپنی تکریم کھودیتا ہے۔ ہم اُس مرحلے میںداخل ہوچکے۔ جہاں جرائم کا جواز نظام کی تکریم کے نام پر دیا جاتا ہے۔ اور یہ معاشرے کے معمولی لوگ نہیں بلکہ روشن دماغ لوگ کررہے ہیں۔ اب شرجیل میمن کی بدعنوانیوں کو جمہوریت کی خاطر گوارا کیجیے۔ وہ جمہوریت جس میں ”بھٹو کبھی مرتا نہیں“ ۔جس میںجناب زرداری اپنے ایام صدارت میں فوجی سربراہ کے توجہ دلانے پر کہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ پیسے بنائیں اُنہوں نے طویل عرصہ” قربانیاں“ دی ہیں۔افسوس ناک طور پر توجہ دلانے والے فوجی سربراہ (سابق) کا ماجرا بھی مختلف نہ نکلا۔ ایک ہی طرح کا تعفن ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ جس میں مختلف صف آرا قوتیں ایک دوسرے کی بدعنوانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مطلب برآری کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ شرجیل میمن کی ذہنیت اسی مٹی سے بنی ہے۔ اُنہوں نے اپنی برہنہ بدعنوانیوں کا جواز یہ کہہ کر دیا ہے کہ کسی کو شریف خاندان کی بدعنوانیاں نظر نہیں آتیں۔ اب اس پر کوئی کیا بات کرسکتا ہے؟ہماری ریاضت نیم شب کو صبح ملنے میں بہت دیر ہے۔شفافیت کوئی مستقل قدر نہیں رہ گئی یہ گروہی تعبیر میںاُلجھی ہوئی ہے۔ہم اس پر جتنا کُڑھیں گے ، سامنے جمہوریت کی گردان سنائی دے گی اور ہم عامی دکھائی دیں گے۔
سندھ کابینہ میں تبدیلی کرکے رکنِ سندھ اسمبلی شرجیل انعام میمن کو ایک بار پھر صوبائی وزیر بنا دیا گیا ہے جبکہ وزیرِ ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ کا نام سندھ کابینہ سے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ شرجیل انعام میمن کو صوبائی وزیر بنانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ...
سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب)کی خفیہ انکوائری کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کی درخواست نمٹادی۔ عدالت عالیہ نے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کی درخواست پر فیصلہ سنادیا، جس میں کہا گیا کہ نیب نے مطلوبہ معلومات درخواست گزار کو فراہم کردی ہیں۔سندھ ہائیکورٹ نے فیصل...
احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں سابق وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی، تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیاہے۔ پیرکواحتساب عدالت میں شرجیل میمن ودیگر کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس پر سماعت ہوئی، سابق صوبائی وزیرشرجیل میم...
آئی سی آئی جے کی جانب سے ریلیز کیے گئے پنڈورا پیپرز میں دنیا کے 90 ممالک کی 330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثے اور آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔جن طاقتور شخصیات کے اثاثے اور آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں ان میں اردن، قطر، امارات، یوکرین، کینیا، ایکواڈور اور چیک ری پبلک سمیت 35 م...
وائٹ ہاس نے امریکی صدر ٹرمپ کی یوکرینی ہم منصب کو فون کال کی تفصیلات جاری کر دیں جس میں انہوں نے ممکنہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن کے بیٹے سے متعلق کرپشن کیسز کا جائزہ لینے کا کہا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی صدر کے خلاف مواخذے کے سلسلے میں تحقیقات کی بنیاد بننے والی فون کال...
وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ جب اپنے منصب پرفائز ہوئے ،اُس وقت بہت سی کہانیاں سامنے آئیں اورایسا بتایاگیا کہ اب دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی اور اب سندھ ایسا بنے گا جیسے دبئی بن چکا ہے۔ بس اب انقلابی تبدیلیاں آجائیں گی، قائم علی شاہ بزرگ تھے ان سے کام نہیں ہوتے تھے لیکن اب ...
قانون کے محافظ اور رکھوالے ہی قانون شکن بن گئے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ افسر کی چیرہ دستیاں بے نقاب ہوگئیں۔ ایس ایس پی (سی ٹی ڈی) کیپٹن (ر) محمد اسد علی نے دو افراد کو اٹھا لیا، رہائی کے عوض 30 لاکھ روپے رشوت لینے کے باوجود نہیں چھوڑا اور مزید رقم کا تقاضا کرتا رہا۔ مزید ...
جنوبی افریقہ میں صدر جیکب زوما کو کہا گیا ہے کہ وہ سرکاری خزانے کے وہ 5 لاکھ ڈالرز واپس کریں جو انہوں اپنی نجی رہائش گاہ کی تعمیر پر صرف کیے تھے۔ مارچ میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے پایا تھا کہ صدر نے ایسا کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور اب انہیں یہ رقم واپس کرنا ہوگی۔ آئینی...
نیب (قومی احتساب بیورو) نے عدالت عالیہ سندھ کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن کی جانب سے سرکاری اشتہارات کی مد میں سرکاری خزانے کو 5 ارب روپے نقصان پہنچانے کی تفتیش کی جارہی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے سندھ ہائی کورٹ میں جوا...
ڈاکٹر عاصم کا ’’معلوماتی رس ‘‘نچوڑ کر ریفرنس کا ’’گلاس ‘‘تیار کرلیا گیا ہے اور اب قومی احتساب بیورو(نیب )سات سال بعد اپنی تنخواہ ''حلال'' کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ریفرنس منظور ہوتے ہی نیب کا شکنجہ ڈاکٹر عاصم کے بیان کردہ لوگوں کے گرد کسا جائے گا۔ عزیر بلوچ کی فائل کے ساتھ اب...
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے خلاف نیب نے اپنی تحقیقات میں اہم شواہد حاصل کر لئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نیب کو محکمہ اطلاعات کی انیس مسلوں (فائلز) تک رسائی چاہیے تھی جس میں سے اُنہیں ابھی تک سندھ حکومت کی جانب سے بارہ فائلوں کی نقول فراہم کی گئی ہیں ۔جبک...
سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو 9فروری (منگل) دبئی سے لندن پہنچنے پر ہیتھرو ائیرپورٹ پر روک لیا گیا اور ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اُنہیں حکام نے چودہ فروری کو دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔سندھ کے سابق وزیراطلاعات کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ ...