وجود

... loading ...

وجود

متنازع مردم شماری

پیر 20 مارچ 2017 متنازع مردم شماری

سندھ میں چھٹی مردم شماری کا آغاز اصولاً تو جوش و جذبہ اور خوش دلی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن خانہ شماری کے ابتدائی تین دنوں میں ہی اسے مشکوک بنادیا گیا ہے۔ صوبہ کی سب سے نمائندہ شخصیت وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ (پی پی پی) اور دوسری نمائندہ شخصیت ڈاکٹر فاروق ستار(ایم کیو ایم) دونوں نے ہی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ مردم شماری کے جو قواعد و ضوابط ہمارے سامنے رکھے گئے تھے‘ اس کے برعکس کام ہورہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ بلڈنگ کے ہر فلیٹ کو گنا جائے گا لیکن اب ایسا نہیں ہورہا ہے کثیر المنزلہ عمارات پر ایک ہی نمبر ڈالا جارہا ہے جبکہ اس میں سینکڑوں مکین رہائش پذیر ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار تو اپنا مقدمہ سپریم کورٹ لے گئے ہیں۔ اپنی پٹیشن میں انہوں نے کہا ہے کہ سندھ دنیا کا شاید واحد صوبہ ہے جہاں جعلی اعداد و شمار کے ذریعے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دیہی سندھ کی آبادی بڑھ رہی ہے اور شہری سندھ کی آبادی کم ہورہی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف یلغار ہورہی ہے۔ لوگ روز گار اور تعلیم و صحت کے بہتر مواقع کی وجہ سے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے وقت سندھ میں آبادی کے 21119بلاکس شمار کیے گئے تھے جو 2016-17 ء میں 38876شمار ہوئے ہیں اور .11 9فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر شہری سندھ(کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر) میں صرف 88 2.فیصد اور دیہی سندھ میں 6.923فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ دیہی سندھ میں بلا کس کی تعداد 11054سے بڑھ کر 21381اور شہری سندھ میں بلا کس کی تعداد 10065سے بڑھ کر 17496شمار کی گئی ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر اندھا بھی یہ بتا سکتا ہے کہ صرف ڈنڈی نہیں بلکہ ڈنڈا مارا گیا ہے۔ اس بات کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ 1998ء کے بعد بڑے پیمانے پر دیہی سندھ سے آبادی کا انخلا ہوا اور انہوں نے شہری سندھ بالخصوص کراچی میں بودو باش اختیار کی ہے۔ 2008ء میں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی حکومت قائم ہونے کے بعد تو دیہی سندھ سے آبادی کی کراچی منتقلی اور بالخصوص ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن میں رہائش کا اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ ان علاقوں کا کلچر تبدیل ہوگیا ہے۔ ان حقائق کے باوجود کراچی اور حیدرآباد کے بلاکس اور آبادی کم دکھانے کا اس کے علاوہ کیا مفہوم ہوسکتا ہے کہ وفاق سے ملنے والے وسائل اور غیر ملکی امداد و قرضہ جات میں شہری علاقوں کو کم حصہ دیا جائے۔ اسمبلیوں کی سیٹیں کم کردی جائیں اور صوبے میں دیہی علاقوں یا وڈیرہ شاہی کا تسلط قائم رہے۔ اطلاعات کے مطابق خانہ شماری کے مرحلے میں ہی حیدرآباد میں 15ہزار گھر اور 75ہزار شہری اندراج سے رہ گئے ہیں۔ کراچی میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 87لاکھ ہے جو اسرائیل کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر کی آبادی 2کروڑ 30لاکھ سے زائد شمار کی جاتی ہے لیکن اتنی بڑی آبادی والے شہر کی نہ سندھ حکومت میں نمائندگی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت گلے لگاتی ہے۔ سندھ کی شہری آبادی جب خود کو اپنے ہی دیس میں پردیسی دیکھتی ہے تو پھر صوبہ بنانے کی آوازیں ابھرتی ہیں اور ماضی کو کھنگالا جاتا ہے جب کراچی پاکستان کا وفاقی دارالحکومت تھا اور اس سے بھی پہلے ہندوؤں سمیت غیر مسلم برادریوں کے زیر غلبہ شہر ہوا کرتا تھا۔ 1947ء میں قیام پاکستان سے قبل سندھ اسمبلی کی 64 نشستوں میں سے 39غیر مسلم اور صرف 25مسلم ارکان ہوتے تھے۔ ان مسلمان ارکان میں بھی سندھی‘ گجراتی‘ بلوچی‘ کاٹھیاواڑی‘ بوہرہ‘ خوجہ اور اردو‘ فارسی بولنے والے اراکین شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت سے حجرت کرکے آنے والے مسلمان(مہاجر) کراچی اور حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ گزشتہ 70برس میں ان کی تین چار نسلیں جوان ہوچکی ہیں ۔ یہ اب سندھ کے مستقل باشندے ہیں لیکن سندھ یا وفاق سے ملنے والے وسائل کا تصرف صرف صوبے کی دیہی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جس کی کرپشن کے قصے زبان زد خاص و عام ہیں۔ عالمی بینک نے سندھ میں تعلیم و صحت کے لیے 100ارب دیے تھے ۔ گزشتہ دنوں بینک کی ایک ٹیم نے اس خطیر رقم کے احراف کا جائزہ لیا تو گڈاپ کے اسکول میں نہ فرنیچر تھا اور نہ اساتذہ۔ اس کیفیت میں شہری آبادی کیونکر مطمئن ہوسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد اپنی پارٹی’’ عام لوگ اتحاد’’تشکیل دی ہے۔ جسٹس (ر)وجیہہ الدین احمد پاکستان کی صاف ستھری ایماندار عدلیہ کے اہم ستون شمار ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے اصولوں پر اختلاف ہوا اور پارٹی چھوڑدی‘ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خط لکھا ہے جس میں سندھ میں ہونے والی مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔شکوک و شبہات میں گھری یہ چھٹی مردم شماری کتنی مفید اور کار آمد ہوگی‘ اس کے بارے میں تو کچھ لکھنا قبل از وقت ہوگا لیکن سندھ کی شہری آبادی 1972ء کی مردم شماری سے حاصل ہونے والے اس تلخ تجربہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جب صوبائی محکمہ داخلہ نے کراچی کی آبادی اوپر کے حکم پر بیک جنبش قلم 56لاکھ سے 36لاکھ (20لاکھ کم) کردی تھی۔
٭٭


متعلقہ خبریں


اسرائیل میں مسلمان جج کی تقرری عالمی برادری کودھوکہ دینے کی ایک چال شہلا حیات نقوی - هفته 29 اپریل 2017

[caption id="attachment_44335" align="aligncenter" width="784"] نیتن یاہو حکومت عالمی رائے عامہ کو بیوقوف بنانا چاہتی ہے اوریہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اسرائیلی متعصب اور نسل پرست نہیں ‘ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ اسرائیل کی قانون سازکمیٹی نے مسجد سے اذان دینے پر پابندی کے متنازع بل...

اسرائیل میں مسلمان جج کی تقرری عالمی برادری کودھوکہ دینے کی ایک چال

کراچی میں مردم شماری کے لیے نفری کم پڑگئی وجود - پیر 27 فروری 2017

کراچی پولیس نے مردم شماری میں نفری فراہم کرنے کیلئے اہم شخصیات کو دی جانے والی سیکورٹی ایک ماہ کیلئے واپس کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں پولیس کی جانب سے شہر کی اہم شخصیات کو خطوط ارسال کردیے گئے جس میں پولیس نے اہم شخصیات کو ایک ماہ کے لیے اپنی سیکورٹی پر پرائیویٹ گارڈ رکھنے کا...

کراچی میں مردم شماری کے لیے نفری کم پڑگئی

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر