... loading ...
جب پاکستان بنا اس وقت محمدعلی جناح صاحب نے فاٹاکے قبائیلوں کو آزاد رہنے دیا۔ یہی آزادی تھی جس نے فاٹا کے لوگوں کو ہمیشہ مسلمانوں کی مدد کرنے کاموقع دیا۔ مگر آخر کب تک؟ آخر وہ دن آگیا جب دنیا کے چند اصل حالت میں باقی رہ جانے والے علاقوں میں شامل فاٹاکی آزادی چھننے جارہی ہے ۔فاٹاکی آزادی کے خاتمے کاآغازکردیاگیاہے ۔مگرمیٹھی گولی کی طرح فاٹاکے معصوم لوگوں کوبتایاجارہاہے کہ دراصل ان کوحقوق دیئے جارہے ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب نے فرمایاکہ یہ فاٹاکے لوگوں کاحق ہے کہ وہ کراچی ،کوئٹہ ،پشاور اور لاہور کے شہریوں کی طرح زندگیاں گزاریں اوران جیسی سہولیات کوحاصل کرسکیں ۔کاش! کوئی فاٹا کے لوگوں کو ان شہریوں کی عظیم زندگیوں کے بارے میں بتائے جو ان شہروں میں رہنے والے گزار رہے ہیں بلکہ دنیا کے ہر شہر میں رہنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ میں کراچی میں رہتا ہوں اور میں شہری زندگی سے مکمل طورپر لطف اندوز ہو رہا ہوں ۔میں کیا کیا لطف اٹھاتاہوں ابھی آپ کو بتاتا ہوں ۔ میں جس ہوا میں سانس لیتاہوں وہ پیٹرول، ڈیزل کے دھوئیں سے بھری ہوئی ہے۔ میں سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائروں کاربڑ اپنے گردوں میں روز ڈلواتا ہوں ۔ میں اپنے گھرسے کچرااٹھانے کے پیسے دیتا ہوں اور اس کچرے کوپھینکنے کے بھی پیسے دیتا ہوں ۔ نہ کچرامفت میں اٹھایاجاتاہے نہ مفت میں پھینکاجاتاہے ۔صبح اورشام گھنٹوں ٹریفک میں پھنس کرخوب لطف اٹھاتاہوں ۔ ہرمہینے پینے کا پانی خریدتا ہوں اور خوب لطف اٹھاتا ہوں ۔ فاٹا کے لوگ حیران ہونگے کہ پانی بھی بکتاہے ؟ نہیں حکومت نے آزادی دی ہوئی ہے کہ اگرکوئی بوتل کاپانی نہیں پیناچاہتاتواس پرکوئی زبردستی نہیں ہے وہ نل کاپانی پی کرمرنے کی آزادی رکھتاہے۔ حکومت بہت اچھی ہے شہریوں کومکمل آزادی دیتی ہے۔ ہمارا شہر بہت اچھاہے، اگرکسی کوکوئی مسئلہ ہوا اور مسئلے کاحل نہ نکلے تووہ پریس کلب کے باہر احتجاج کرسکتاہے۔ میرے شہرمیں مردعورتیں اکثر پریس کلب کے باہراحتجاج کرکے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔کبھی کبھارپولیس ان کوگھسیٹتی ہے مگریہ بھی ایک لطف کی چیزہے ۔فاٹاکے لوگوں کو کیا پتا کہ پولیس کے ہاتھوں ڈنڈے کھانا یا روڈ پر گھسیٹے جانے میں کیامزہ آتاہے ۔یہ لطف قبائلیوں کواس وقت تک نہیں مل سکتاجب تک وہ قومی دھارے میں شامل نہ ہوں ۔ہمارے شہرمیں سرکاری اسپتال کی سہولت بھی ہے۔ جہاں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اورصحت کی سہولت سے خوب لطف اندوزہوتے ہیں ۔ہمارے شہر میں غیر سرکاری ہسپتال بھی ہیں جہاں لوگ لاکھوں روپے دے کراورگھروں کے کاغذات تک رکھوا کر اپنا مریض آخرکارمردہ حالت میں لے کرجاتے ہیں ۔ ہمارے شہرمیں ڈاکٹر اگر بتا بھی دے کہ آپ کا مریض نہیں بچ سکتا، اس کوگھرلے جائیں تب بھی لواحقین نہیں مانتے کیونکہ گھروں میں سب مصروف ہیں ، کون بیمار کی تیمارداری کرے گا۔ شہروں میں مردہ مفت میں دفن نہیں کیاجاتا، اس کے پیسے لیے جاتے ہیں ۔اس لیے شہری مرنے کے بعدبھی سکون نہیں لے پاتالیکن یہ بھی لطف کی چیز ہے ۔ ہمارے شہرمیں جب کوئی سڑک پرماراجاتاہے تو اس کے گھروالوں کوآسانی مہیاکرنے کے لیے ایدھی یاچھیپاکی گاڑیاں آجاتی ہیں وہ اس مرے شخص کواٹھاکرلے جاتی ہیں ۔چنددن انتظار کرتے ہیں ،اس کوبرف والے کمرے میں رکھتے ہیں جہاں مردہ شہری خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ پھر دو چار بندے جمع ہوکراس کوکسی گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دیتے ہیں اوراس مردے کی تصویر ایک تصویروالی کتاب میں لگادیتے ہیں تاکہ اگر بعد میں اس کے گھرسے کوئی آجائے تووہ آسانی سے اس کوشناخت کرسکے۔ فاٹاکے لوگوبولو!یہ مزے کبھی ملے ہیں ؟تم توعجیب لوگ ہوجومرنے والے کے ساتھ چپکے رہتے ہواورہفتوں اس کے گھرجمع ہوکراس کے لواحقین کاغم بانٹتے ہو۔ پاگل لوگ۔۔۔ہمارے شہر میں پاکستان میں سب سے زیادہ طلاقیں ہوتی ہیں ۔ جب کوئی لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہناچاہتی توہمارے شہر میں تمہارے گائوں کی طرح بزرگ بیچ میں آکرٹانگ نہیں اڑاتے بلکہ وہ عدالت جاکرچندماہ میں آزادی حاصل کرکے خوب لطف اندوزہوتی ہے۔ ہمارے شہرمیں لڑکیاں غیرت کے نام پرقتل نہیں ہوتیں کیونکہ ہم نے عرصہ قبل غیرت کاقتل کردیا، اس کے بعد اب شہروں میں غیرت کسی کوتنگ نہیں کرتی۔ ہمارے شہر میں عورت آزاد ہے۔ جیسی چاہے جوانی گزارے، پڑھے لکھے، نوکری کرے اور بڑھاپے میں ایدھی ہوم جا کر مرجائے۔ یہ لطف فاٹاکی عورتوں کو کہاں نصیب؟ وہ تو گھروں میں ’’قید‘‘ ہیں اوراپنے بچوں کے ہاتھوں میں مرنے جیسی ’’غلامی ‘‘پرمجبور ہیں ؟ہمارے شہر میں پاگل خانے بھی ہیں ۔پاگل خانے شہروں میں ہی ہوتے ہیں کیونکہ شہری زندگی کاایک کمال یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ سب سے زیادہ پاگل ہوتے ہیں ۔ جب کوئی شہرمیں پاگل ہوجاتاہے تواسے پاگل خانے میں جمع کروادیا جاتا ہے۔ روایتی معاشروں میں پاگل کو خاندان سنبھالتا تھا، وہ مجذوب پورے قبیلے اورخاندان کی ذمہ داری ہوتا تھا، اور اس کے ساتھ معاملہ ثواب، اجراوراللہ پاک کی خوشنودی کے لیے کیاجاتاتھا۔مگرکیونکہ ہمارے شہر میں خاندان وقبیلہ، فرد کی شکل میں بدل گیا ہے، اب خاندان کے فرد اکیلے اکیلے رہتے ہیں ۔اس لیے اب پاگل کوکوئی گھروں میں نہیں رکھتا بلکہ اس کے لیے پاگل خانے ہیں ،یہ مزے فاٹا والوں کو اگلے 30 سال تک ہی میسرآسکیں گے ۔ ہمارے شہر میں بھکاری بہت ہیں اوریہ سب پیشہ وربھکاری ہیں کیونکہ ان کوروزبکرے کاگوشت خیراتی ادارے مفت میں کھانے کودیتے ہیں اور اس عمل کوثواب سمجھتے ہیں ۔ بکرے کاگوشت غریب آدمی محنت مزدوری کرکے مہینے میں بھی ایک مرتبہ نہیں کھاسکتا مگر خیراتی ادارے ثواب سمجھ کر روزکھلاتے ہیں ، اس لیے لوگ محنت کرکے کھانے کی زحمت نہیں اٹھاتے اوراس کوبرابھی نہیں سمجھتے ۔ ہمارے شہر میں لوگ اکثر بہت سے مزوں سے لطف اندوزہوکرپھرایک دن کسی ٹرین کے نیچے آجاتے ہیں یا کسی پُل کے اوپرسے کود جاتے ہیں تاکہ وہ مرنے کا لطف اٹھاسکیں ۔ لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ زندگی کا لطف برداشت کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اورکیونکہ شہروں میں لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے ،اس لیے کوئی کسی مزے لینے والے کے لطف میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہمارے شہرمیں اکثر نامعلوم لوگوں کی لاشیں بھی ملتی ہیں اوراس طرح کے لوگوں کی تعداد ہمارے شہرکے قبرستانوں میں 30ہزارہے ۔یہ لطف توفاٹا کے لوگ کم ازکم 50 سال بعدہی لے سکیں گے۔ ہمارے شہر میں چند عورتیں بچے گرادیتی ہیں یا پیداکرکے پھینک دیتی ہیں ، یہ حرام کے عمل سے پیدا بچے یا کسی کی مجبوری میں گرائے گئے بچے ہم چوم چاٹ کرسینے لگاتے ہیں ، ان کوپالنے کی ذمہ داری رفاہی ادارے اٹھاتے ہیں ۔ اوراس طرح پھرسے کوئی دو اجنبی اس حرام عمل کو انجام دینے کے لیے محنت شروع کردیتے ہیں ۔ آزادی ملی تو فاٹامیں بھی یہ سب ایک دن ضرور ہوگا مگروہ دن چند سالوں بعدآئے گا۔ شہروں میں اتنے مزے ہیں کہ بیان کرنے بیٹھ جائوں تو کتابیں لکھ سکتاہوں ۔فاٹاکے لوگ آج تک کبھی احتجاج نہیں کرتے تھے مگراب فاٹامیں احتجاج کے ایک دورکاآغازہونے جارہاہے ۔فاٹامیں خاندان باقی تھا، لوگ اپنے مسئلے خاندان میں حل کرتے تھے ۔فاٹاکے لوگ بے روزگارنہیں تھے، وہ سادہ زندگی جیتے تھے، وہ اسکول، کالج اوریونیورسٹی جاکر نوکریوں کے لیے دھکے نہیں کھاتے تھے، اب کھائیں گے ۔فاٹاکی عورتیں 2017ء تک آزاد تھیں ۔ان کے 14,12,10بچے ہوتے تھے ،بڑے قبیلے اورخاندان کی وارث ہوتی تھیں ۔ان کو تمام حقوق حاصل تھے مگراب ان عورتوں کو اطلاع ملے گی کہ وہ غلام تھیں اب تک،ان کوپاورکی ضرورت ہے ۔ فاٹا کی عورتیں میٹرنٹی ہوم کے بغیر درجنوں بچوں کو پیدا کرتی آئی ہیں مگراب اسپتال ان کواطلاع دے گاکہ بچہ صرف اسپتال میں پیداہوتاہے ورنہ ماں کی جان کوخطرہ ہوتاہے اورزیادہ تربچے آپریشن سے ہوتے ہیں ۔اوربچے کوماں کے دودھ سے زیادہ فائدہ ڈبے کادودھ پہنچاتاہے۔ اب فاٹاکی 12,10اور14بچے پیداکرنے والی عورتوں کی بہوئوں کوڈاکٹربتائے گی کہ 2 اور 3 بچے بہت ہوتے ہیں ’’تم اپنے اوپرظلم نہ کرو‘‘۔ اور بہوئیں یہ نہیں سوچیں گی کہ وہ خود12بہن بھائی تھے توان کی ماں کی صحت کوکیاخطرہ لاحق تھا، ہاں ماضی کی عورتیں لیزچپس اورسیون اپ نہیں پیتی تھیں ، اس لیے نارمل بچے پیداکرسکتی تھی،مگراب یہ کچرا کھا کر قدرتی عمل سے بچہ پیداکرنامشکل ہے۔ اب فاٹاکے لوگ سالوں عدالتوں میں انصاف کی بھیک مانگیں گے اور’’شہری انصاف‘‘ سے لطف اندوز ہونگے۔ سب سے زیادہ ظلم عورتوں کے ساتھ ہوگا، میرا دل خون کے آنسورورہاہے، میں آج سے 20 سال بعد کا فاٹا سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ فاٹا میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھل جائیں گی۔ ان تعلیمی اداروں میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے جائیں گی۔ ان لڑکیوں کو موبائل فون ملے گا،یہ کھیل کے مقابلوں میں حصہ لیں گی۔ ان اداروں میں این جی اوز کی آنٹیاں ان کوان کے حقوق سے آگاہ کریں گی۔ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی معصوم لڑکیاں جب اپنی پسند کااظہاراپنے باپ بھائی سے کریں گی تب وہ ان لڑکیوں کوبتائیں گے کہ تم شادی ہماری مرضی سے کروگی۔اورایساصدیوں سے فاٹامیں ہوتا آیا ہے اورکوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ایسے میں کچھ لڑکیاں صبر کریں گی۔ جبکہ کچھ لڑکیاں بغاوت کرینگی۔ ان باغی لڑکیوں کواین جی اوزکی آنٹیاں مددفراہم کریں گی ۔اگرکوئی باغی لڑکی گھروالوں کے ہاتھ لگ گئی تواس کاقتل کردیاجائے گا، تب انسانی حقوق کی علمبردار آنٹیاں اور حقوق نسواں والی آنٹیاں پریس کلب کے باہرمرنے والی معصوم لڑکی کی تصویر کے سامنے موم بتیاں جلائیں گی ۔پھرآنٹی شرمین عبید چنائے کانزول ہوگا،وہ ایک فلم بنائے گی جس کو ایک آسکرایوارڈملے گا۔مگرکوئی یہ سوال نہیں کرے گاکہ جب ریاست فاٹاکی لڑکیوں کوتحفظ نہیں دے سکتی تھی توآزادی کیوں دی؟امریکا اوریورپ صرف اپنی عورتوں کوآزادی نہیں دیتے، ساتھ ساتھ اس آزادی کاتحفظ بھی دیتے ہیں ۔ میں چشم تصورمیں بدلتے فاٹاکودیکھ کرافسردہ ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ فاٹاکوجوحقوق کے نام پرملنے جارہاہے لوگ اس کوفاٹاکی آزادی سے تعبیر کر رہے ہیں مگر مجھے یہ فاٹا کی بدترین غلامی کا آغاز معلوم ہوتا ہے ۔
وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میںگزشتہ روز وفاقی کابینہ نے فاٹا اصلاحات کے لیے قانونی اور آئینی ترامیم کی سفارشات کی منظور ی دی ،وفاقی کابینہ کی منظور کردہ سفارشات کے مطابق فاٹا آئندہ 5 برس میں خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائے گا، کابینہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرا...