وجود

... loading ...

وجود

سادہ بیانی اور مذہبی بیانیہ

بدھ 15 مارچ 2017 سادہ بیانی اور مذہبی بیانیہ

سادہ بیا نی ہمارے ہاں ہمیشہ بہار ساون کی ہریالی بن گئی ہے، اور کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو، اس کے سادہ ہونے کا مطالبہ شدید ہوتا ہے۔ آج کل جو گفتگو اہمیت رکھتی ہے یا کوئی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، وہ صرف میڈیائی ذرائع پر ہی واقع ہوتی ہے۔ میڈیائی ذرائع سے باہر گفتگو سادہ ہو یا مشکل وہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں، کیونکہ وہ زندہ در گورِ کتاب ہوتی ہے۔ میڈیا سے باہر بھی جدید معاشروں میں مراکز علم قائم ہیں مثلاً یونیورسٹیاں، مختلف مراکز تحقیق، بحث و مباحث کے حلقے وغیرہ اور وہاں گفتگو اور مکالمہ علم کے معیارات پر ہوتا ہے، میڈیا کی شرائط پر نہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ ایسے مراکز کے حالات بھی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں، اس لیے جو آدمی میڈیا پر سادگی سے ابلاغ کر سکتا ہو، اور لوگوں تک اس کی رسائی ممکن ہو وہی عالم اور دانشور ہے۔
ایک بات میڈیا مطالعات میں اصول کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس کا تعلق سیاست، معیشت، مذہب یا سائنس سے نہیں بلکہ خود میڈیا سے ہے۔ اس کا نام انگریزی میں خاصا مشکل سا ہے۔ اہل علم اس سے واقف ہیں اور سادگی پر بات کرتے ہوئے اسے منہ سے نکالنا مناسب نہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ میڈیائی ابلاغ کے لیے انسانوں کے درمیان فہم کی پست ترین مشترک سطح معیار ہو گی۔ یہ شرط ہر گفتگو، ہر ابلاغ اور ہر موضوع کے لیے ہے۔ میڈیا میں اظہار کے لیے سیاسیات، معاشیات، سائنس اور مذہب کو اس معیار کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا پر سیاست بھی سادہ ہے، معیشت بھی سادہ ہے، سائنس بھی سادہ ہے اور مذہب بھی سادہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو میڈیائی گفتگو فہم عامہ سے دائیں بائیں ہو جاتی ہے اور میڈیا کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ میڈیا کا اصل کام لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ جس طرح سے لوگ سادہ ہیں، اسی طرح سے معاشی اور سیاسی نظام بھی سادہ ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی میں میڈیا کا رول چونکہ بہت بڑھ گیا ہے، اور اس کی موجودگی تقریباً مستقل ہے، اس لیے وہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہے کہ دنیا بہت سادہ ہے، اس لیے کہ میڈیا پر سادہ ہے۔ فہم عامہ کی پست ترین مشترک سطح کا اصول تو نصاب میں درج ہے یعنی ذہن کی پست ترین سطحِ فہم پر کھڑے ہوئے بغیر میڈیا میں ابلاغ کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن جو نہیں لکھا وہ یہ ہے کہ میڈیا میں انسانی جذبات بھی پست ترین مشترک سطح پر ہی اظہار پا سکتے ہیں۔
میڈیا پر گفتگو کی شرائط میں اہم ترین سادگی ہے جو ایک لازمی اور درکار پستی سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ دن اور رات کی طرح ہر گفتگو کے سِرے پہلے سے قائم ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کچھ معلومات دے کر بتاتا ہے کہ دن ہے، دوسرا فرماتا ہے کہ رات ہے اور کچھ اضافی معلومات سامنے لاتا ہے۔ اس پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ دن بھی ہے اور رات بھی۔ اور اگر اختلاف ہو جائے تو یہ کہ کہیں دن ہے، کہیں رات ہے، اور بیانیہ مکمل ہو جاتا ہے۔ میڈیا پر سیکولر اور مذہبی، جدید اور دقیانوسی، پرامن اور دہشت گرد، روشن خیال اور روایت پسند، ترقی پسند اور رجعت پسند وغیرہ وغیرہ کے سرے پہلے سے قائم ہیں، اور گفتگو ان کے درمیان ہی گھومتی ہے کیونکہ گفتگو کی حدبندی پہلے سے ہے۔ اس لیے سیاست، معیشت، مذہب اور سائنس بھی اگر میڈیا پر کوئی اظہار کریں گے تو یہی طرز اختیار کریں گے۔ سیاسی، معاشی اور فکری تجزیے وغیرہ اسی کلبوت سے نکلنے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن برقی میڈیا میں ان کی گنجائش بہت کم ہے اور ورقی میڈیا میں بھی بتدریج ان کا رواج گھٹ رہا ہے۔ سادگی اور کلبوت کی وجہ سے میڈیا سادہ بیانی کی راجدھانی ہے۔
میڈیا اور سادہ بیانی کے حوالے سے چار سوالات اہم ہیں۔ اول یہ کہ میڈیا میں سادہ بیانی ایک مسلمہ ہے، جو معاشروں کی جدید سیاسی اور معاشی صورت حال میں ضروری ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک اخلاقی مسلمہ بن گیا ہے۔ ایک میڈیائی ضرورت نے اخلاقی مسلمہ بنتے ہی ہماری دینی روایت کو صاف کر دیا ہے۔ یہ مسلمہ صرف میڈیا میں کوئی تحدید قائم نہیں کرتا بلکہ ایک عمومی اطلاق حاصل کر لیتا ہے کہ چونکہ مذہب سادہ ہے، اس لیے ہر مشکل اور علمی بات نہ صرف مذہب کے خلاف ہے، بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ اگر کسی مجلس میں کوئی علمی خطبہ سامعین کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ نہایت خوشی اور اخلاقی تفاخر سے بتاتے ہیں کہ بات مشکل تھی سمجھ میں نہیں آئی، اور صاحبِ گفتگو کو خفت ہوتی ہے۔ یہ میڈیائی سادگی کا بطور اخلاقی اصول عمومی اطلاق ہے۔
دوسرا اہم سوال رائے عامہ کا ہے۔ میڈیا کسی بھی معاشرے میں قائم سیاسی اور معاشی نظام کا حصہ ہے اور کچھ مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ رائے عامہ کو ’’ہموار‘‘ کرنے کا یہی مطلب ہے۔ میڈیا معاشرے کی واقعاتی صورت حال سے غیرمتعلق اور معاشرے کی فضا میں معلق رائے عامہ سے براہ راست متعلق ہوتا ہے۔ یہ حالات کو تبدیل نہیں کرتا، رائے عامہ کو تبدیل کرتا ہے۔ حالات سیاسی اور معاشی فیصلوں سے تبدیل ہوتے ہیں، اور میڈیا ان کے نفاذ کو آسان یا مشکل بناتا ہے۔ جب کوئی بھی بیانیہ میڈیا میں داخل ہوتا ہے، تو وہ بھی یہی کام کرتا ہے، یعنی ہر بیانیہ غالب طور پر سیاسی اور معاشی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بیانیہ اگر مذہبی بھی ہو تو الوہی ہدایت سے اس کا تعلق موہوم یا مفروضہ ہوتا ہے، اور اس کی اصل نسبتیں سیاسی اور معاشی ضروریات اور مفادات سے ہوتی ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا میڈیا پر سیاست، معیشت، سائنس اور مذہب سب سادہ ہوتے ہیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ میڈیائی سادگی کے اصول پر کیا سیاسیات، معاشیات اور سائنس وغیرہ پند و نصائح اور معلومات کا مجموعہ بن گئے ہیں یا ان میں علم اور اصول کی پیچیدہ گفتگو باقی ہے؟ جدید معاشروں میں علوم کی روایت میڈیا میں جاری نہیں ہے، جامعات میں ہے۔ ہمارے ہاں سادگی کی وجہ سے جامعات اور میڈیا اب ایک ہی سطح پر کام کرتے ہیں۔ لیکن اس صورت حال میں ایک استثنا پیدا ہو گیا ہے۔ میڈیا پر سیاست، معیشت، سائنس اور مذہب سادہ ہے، لیکن میڈیا سے باہر سیاست، معیشت اور سائنس بالکل بھی سادہ نہیں ہے۔ جدید معاشروں میں ان کے علوم کی زبردست اور وسیع ترین تشکیل، نمو اور تعلیم کے ذرائع قائم ہیں۔ لیکن مذہب بے چارہ اب ہر جگہ سادہ ہی سادہ ہے، اور یہ سادگی جبر کا ایک اصول بن کر مذہب پر مسلط ہے، اور مذہب کی نفسِ انسانی، ذہنِ انسانی، معاشرے، معیشت اور تاریخ سے نسبتوں کی بات کرنا نہ صرف ناممکن ہو گیا ہے، بلکہ سخت مذموم خیال کیا جاتا ہے، اور ایسے موضوعات کو چھیڑنا غیر مذہبی سمجھا جانے لگا ہے۔
چوتھا سوال زیادہ اہم ہے۔ علم میں استناد بنیادی چیز ہے۔ جدید علوم کا استناد سیاسی طاقت اور public reason سے حاصل ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً جدید علوم کا حتمی اور واحد استناد سیاسی طاقت اور ریاست ہے۔ جبکہ مذہبی علوم کا استناد روایت اور دلائل منقولہ سے ہے۔ لیکن میڈیا کی شرائطِ ابلاغ نے اب مذہبی معاملات میں بھی درج استناد حاصل کر لیا ہے۔ رائے عامہ کی سطح فہم اور پسند ناپسند میڈیائی ابلاغ کی بنیادی شرائط ہیں جو اب مذہبی علوم پر بھی یکساں وارد ہیں اور مذہبی اظہار اب ان شرائط کی پاسداری ہی میں ممکن ہے۔ اس لیے مذہب کو پہلے سے سادہ فرض کرنا ضروری ہے تاکہ اس کا میڈیائی اظہار ہی ’’پورے مذہب‘‘ کے طور پر پیش کیا جا سکے، اور یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ جو سادہ نہیں وہ مذہب ہی نہیں۔ رائے عامہ کی ترجیحات اور میڈیا کی شرائطِ اظہار کے سانچوں میں آتے ہی مذہب جدید ہو جاتا ہے۔ یعنی اب کسی لوتھر کی ضرورت نہیں، کیونکہ میڈیائی شرائط پر مذہب کی تشکیل نو اب ایک کار جاریہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو عقل اور اصول سے غیرمتعلق اور اجتماعی سیاسی حرکیات کے تابع ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس صورت حال کو مکمل طور پر قبول کر چکے ہیں یا نہیں؟
٭٭


متعلقہ خبریں


میڈیا پاکستان کی غلط تصویر دکھاتا ہے  امریکی سیاح پاکستان کی خوبصورتی اور پاکستانیوں سے متاثر وجود - اتوار 18 دسمبر 2016

امریکی شہری کیسنڈرا ڈی پیکول تن تہا دنیا کے سفر پر ہیں اور 190 ممالک کا سفر طے کرنے بعد وہ پاکستان پہنچی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک چھپا ہوا جوہر ہے جس کی خوبصورتی تاحال دنیا کے سامنے نہیں آسکی۔27 سالہ امریکی خاتون کیسنڈرا ڈی پیکول نے 15 جولائی 2015 کو دنیا کے تمام 196 خو...

میڈیا پاکستان کی غلط تصویر دکھاتا ہے  امریکی سیاح پاکستان کی خوبصورتی اور پاکستانیوں سے متاثر

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر