... loading ...
برصغیر کی انگریزوں سے آزادی کی تحریک کے دو قائدین، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور گاندھی جی نے انگلینڈ کی ایک ہی تعلیمی درسگاہ”لنکن اِن“ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ گاندھی تعلیم کے بعد افریقہ چلے گئے جہاں سے ان کی دو سال بعد انڈیا واپسی ہوئی،جہاں پر ممبئی بار کی جانب سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا۔ قائد اعظم بار ایسوسی ایشن کے منتخب صدر تھے۔ گاندھی نے اپنی تقریر میں خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ ان کے مسلمان دوست بار کے صدر ہیں۔ قائد اعظم کو گاندھی کی تقریر میں مذہبی تعصب نظر آیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ہی قائد اعظم نے کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اور ایک علیحدہ وطن کے لیے مسلمانوں کے رہنمائی کا فیصلہ کیا۔ بر صغیر میں مسلمانوں کی رہنمائی کا فیصلہ کیا۔ بر صغیرمیں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تفریق کی بنیاد گاندھی نے رکھ دی تھی جو بالآخر 1947ءمیں مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کی تشکیل پر منتج ہوئی۔ آزادی کے بعد بھی دونوں ملکوں کی سیاست پر مذہبی‘ لسانی اور علاقائی ثقافت و رجحانات کی چھاپ رہی ہے۔ سندھ اسمبلی نے حال ہی میں صوبے کے سرکاری دفاتر کی زبان اردو بنانے کے خلاف قرار داد منظور کی ہے جبکہ ملک بھر میں اردو کا نفاذ قومی و ملی اور آئینی تقاضا ہے۔ جئے سندھ تحریک کے ایک رہنما ڈاکٹر میر عالم مری کہتے ہیں کہ سندھ میں آباد وہ لوگ جن کی مادری زبان اردو ہے وہ صوبے کے مستقل باشندے ہیں۔ ان لوگوں کی تیسری نسل سندھ میں پروان چڑھی ہے۔ سندھ میں پیدا ہونے والے”فرزندان زمین“(Son of soil)ہیں۔ یہ لوگ سندھ میں پلے بڑھے۔ یہاں کماتے اور اپنی کمائی سندھ کی تعمیر و ترقی کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ جیتے بھی سندھ میں اور مرکر یہاں ہی دفن ہوتے ہیں۔ جئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید کی بھی یہی سوچ تھی۔ انہوں نے 1943ءمیں سندھ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد بھارت سے ہجرت کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سندھ میں بسانا ہوگا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں۔ ان کی آمد سے سندھ ترقی کرے گا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ سندھ میں اردو اور سندھی کی تقسیم جان بوجھ کر رکھی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے، دیہی سندھ اور شہری سندھ،یہ بھی ایک حقیقت ہے جو زبان اور تہذیب و ثقافت کے تناظر میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دیہی سندھ کی سیاسی قیادت نے پورے صوبے پر تسلط جما رکھا ہے وہ اپنے عوام اور علاقوں کی خدمت کرنے کے بجائے صوبہ کے عوام کو تعصبات میں الجھا کر اپنے لیے اسمبلیوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کو تین مرتبہ اقتدار مل چکا ہے جس میں کرپشن‘ نا اہلی اور اقربا پروری کے الزامات پر بے نظیر حکومت ختم کردی گئی جبکہ صدر پاکستان آصف علی زرداری پر بھی اسی نوعیت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی قبلہ لاڑکانہ ہے۔ اس شہر کی ترقی کے لیے 2011-12میں 256346760 ملین روپے کا فنڈ منظور کیا گیا ۔ یہ اسکیمیں آج تک نا مکمل ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس خطیر رقم کا 70فیصد حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔ یہ حکمرانوں کے شہر کی صورتحال ہے تو باقی سندھ کا کیا حال ہوگا؟ وزیر اعظم نواز شریف سندھی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے گزشتہ دنوں ٹھٹھہ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں دورے پر تشریف لائے۔ سینئر صحافی نصیر احمد سلیمی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ٹھٹھہ کے شیرازیوں کے علاقے میں عام جلسہ تو بڑا بھرپور کردیا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ آصف علی زرداری کی اس جارحانہ پیش قدمی کے سامنے مضبوط بند باندھنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو وہ اندرون سندھ کے ان نمایاں سیاستدانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے کر رہے ہیں جن کی انتخاب میں کامیابی کا قوی امکان ہے۔ جو حلقے سندھ کی سیاست سے اچھی طرح باخبر نہیں ہیں وہ شاید یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے سوا کوئی دوسری سیاسی قوت سرے سے موجود ہی نہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے کی سیاسی قوتیں موجود ہیں جو الیکشن میں بھی اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرسکتی ہیں اور بعض صورتوں میں جیت بھی سکتی ہیں۔ 2013 ءکے الیکشن میں ضلع ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں تھیں جن میں سے ایک قومی اور تین صوبائی نشستوںپر شیرازی گروپ کامیاب ہوا تھا، جبکہ قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستیں پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی تھیں۔ قومی اسمبلی کی حد تک تو پیپلز پارٹی اور شیرازی برابر تھے جبکہ صوبائی میں شیرازی گروپ کا پلڑا بھاری تھا، اب یہی ضلع دو اضلاع میں بٹ چکا ہے نیا ضلع سجاول ہے لیکن نشستیں اتنی ہی ہیں جتنی 2013ءمیں تھیں۔ وزیراعظم کے جلسے کے لیے شیرازی برادران نے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کردیا ہے، وزیراعظم نے بھی ترقیاتی منصوبوں کے لےے دل کھول کر رقوم کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کے مطابق اگر یہ ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہیں اور اتنی ہی رقوم خرچ ہو جاتی ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے تو اس سے شیرازیوں کی سیاسی پوزیشن زیادہ مستحکم ہو جائے گی اور اگر آصف علی زرداری ضلع ٹھٹھہ کو دو اضلاع میں تقسیم کرکے یہ سمجھ رہے تھے کہ شیرازیوں کی سیاسی قوت بھی بٹ جائے گی تو یہ کوشش بظاہر کامیاب نہیں ہوئی۔ 2013 ءکے الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن)نے سندھ کی سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں لی، جس کی وجہ سے اس کے نہ صرف ہارنے والے امیدوار مایوس ہوئے، بلکہ جیتنے والوں کو بھی نظرانداز کےے جانے کی شکایت پیدا ہوگئی ۔چنانچہ جو زیادہ مایوس ہوئے وہ پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے اور جو یہ صدمہ سہار گئے وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے اور مسلم لیگ(ن)کی حمایت میں زیادہ متحرک نہیں رہے۔ عبدالحکیم بلوچ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، اب وہ پیپلز پارٹی میں واپس جاچکے ہیں۔ 2013ءکے انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو چار لاکھ چوالیس ہزار ایک سو انتیس ووٹ پڑے تھے، اگر اس میں ان امیدواروں کے ووٹ بھی شامل کرلیے جائیں جن کی مسلم لیگ (ن)نے حمایت کی تھی تو یہ ووٹ 7 فیصد بن جاتے ہیں۔مسلم لیگ (ف)کا مسلم لیگ (ن)کے ساتھ اتحاد تھا جس نے دس لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، جو دس فیصد ووٹ بنتے ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (فنکشنل) میں کافی توڑ پھوڑ ہوچکی ہے، تاہم ٹھٹھہ کے جلسہ نے سندھ میں نئی انتخابی صف بندی کے امکانات کو روشن کردیا ہے یہ کتنا مؤثر ہوگا، اس کا اندازہ ابھی چند دنوں یا ہفتوں کے بعد ہو جائے گا جب پاناما کیس کا فیصلہ منظر عام پر آ جائے گا۔ دوسری طرف سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیر ین)کے صدر آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے جواب میں کہ تحریک انصاف سے بھی رابطہ یا اتحاد ہو سکتا ہے، کہا ہے کہ عمران خان ہاتھ بڑھائیں تو دیکھیں گے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب کپتان پر منحصر ہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے اتحاد کے لیے پیش قدمی کریں، لیکن عمران خان کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں، وہ تو ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس بھی بعد میں چل کر گئے اور پہلے ڈاکٹر موصوف ہی ان کے کنٹینر پر آئے تھے ، اس کے بعد ہی عمران خان نے ادھر کا چکر لگایا تھا، جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو عمران خان کے معاونین میں سے تو کوئی بھی اتنا بڑا حامی دکھائی نہیں دیتا جو ایسے اتحاد کی وکالت اور سفارش کرے، بلکہ اکثریت تو انفرادیت کی قائل ہے، ایک دو ہی رہنما ایسے ہوں گے جو سیاسی تعلق بحال رکھنے کے لیے رضا مند ہوں،ان میں شاہ محمود قریشی کو شامل کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن)اپنی جگہ پیپلز پارٹی کی اصل حریف تو تحریک انصاف ہی ہے کہ جو شاہ محمود قریشی سمیت جیالوں کی بڑی تعداد کو سموئے ہوئے ہے، بہر حال آصف علی زرداری کی بات حکمت سے خالی نہیں، یہ بھی دو دھاری تلوار والا مسئلہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے تعلقات بہتر ہونے سے حزب اختلاف مضبوط ہو سکتی ہے اور یہ بات مسلم لیگ (ن) کے لیے بھی سگنل بن سکتی ہے کہ اگر تعلقات میں دراڑ آئی تو ایسے کئی راستے کھلے ہیں؟ آصف علی زرداری دبئی سے واپس آنے کے بعد کراچی میں متحرک رہے، کئی معززین (ایکٹ ایبل)کو پارٹی میں شامل کیا اور پھر اسلام آباد کر ڈیراجمالیا کہ کراچی میں ایک ایکٹ ایبل کی شمولیت نے اختلاف پیدا کردیا تھا، صاحبزادیوں نے کھلے بندوں اعتراض کردیا اور بلاول نے بہنوں کی حمایت کردی تھی۔ اس کے بعد نہ صرف مروت کی آمد رکی بلکہ آصف علی زرداری نے مزید ایڈونچر سے ہاتھ کھینچ لیا اور اسلام آباد چلے آئے ۔ یہاں بہت مصروف ہیں اور اپنی تعریف کے مطابق سیاسی حکمت عملی کے تحت سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آصف علی زرداری کی بھرپور سیاسی سرگرمیوں میں پہلی تو کل جماعتی کانفرنس ہی تھی جو حاضری کے اعتبار سے بھرپور تاثر نہ دے پائی کہ متحدہ اور تحریک انصاف شامل نہیں تھیں، تاہم انہوں نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے حکومت کے سامنے 9 نکات پر مشتمل مطالبہ پیش کردیا اب اس کا مثبت ردِ عمل اسپیکر ایاز صادق کی طرف سے آیا کہ ان نکات میں سے بعض منظور کرلئے گئے ہیں یوں فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئینی ترمیم کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے اور توقع ہے کہ بعض ترامیم کے ساتھ توسیع کے لیے آئینی ترمیم منظور کرلی جائے گی ۔توسیع کابل اب قومی اسمبلی میں پیش ہوچکا ہے ۔
پیپلز پارٹی کی ان ساری سرگرمیوں کے دوران بلاول بھٹو زرداری بھی اسلام آباد میں تھے، لیکن منظر عام پر نہیں آئے۔ شاید والد بزرگوار نے ان کو سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہیں کیا کہ سیاسی حکمت عملی میں ان کا تجربہ ابھی کم ہے، تاہم بعض حلقے چہ میگوئیاں بھی کررہے ہیں، اور ان کے مطابق بلاول بھٹو کو پس منظر میں رکھا گیا ہے کہ سیاسی ہنر مندی زرداری صاحب ہی بہتر طور پر دکھا سکتے ہیں ، اگرچہ بعض حلقے اسے کچھ اور معنی پہنا رہے ہیں، اس کی نشان دہی اس خبر سے کرتے ہیں کہ زرداری ہاؤس اسلام آباد میں رہتے ہوئے بھی وہ والد کے ساتھ شریک نہیں اور اسی بلاول ہاؤس میں سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے بلاول سے علیحدگی میں ملاقات کی، یہ خبر ریلیز بھی کی گئی، سیانے کہتے ہیں کہ یہ سب کسی نہ کسی امر کی تونشان دہی کرتا ہی ہے ایک معاصر کی خبر کے مطابق تو بلاول بھٹو زرداری لاہور میںتنظیم نو کے حوالے سے شیخوپورہ، ساہیوال اور لاہور ڈویژن کے لیے متوقع امیدواروں کے انٹرویو کریں گے اور تنظیم نو کا فیصلہ ہوگا، اس خبر کے مطابق 13مارچ تک کا شیڈول بنایا گیا اور اگلا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا، بلاول اس بار لاہور میں کچھ زیادہ دن قیام کریں گے۔
سندھ کے سابق مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو جاتے جاتے سندھ یاد آگیا ہے حالانکہ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان 6 لین کے موٹر وے ایم‘ نائن کے علاوہ دیگر کئی ترقیاتی منصوبے بھی وزیر اعظم نواز شریف کی دلچسپی سے شروع ہوئے ہیں جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی 8 سالہ اور وفاق میں 5سال کی حکومت کے دوران بھی صوبے کے عوام کو ایسے کسی منصوبے سے مستفیض نہیں کیا گیا۔ سندھ کے عوام میں اس صورتحال پر سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان اپنی مدرسہ فورس اور پختونوں کی مدد سے سندھ میں سیاسی راستہ تلاش کررہے ہیں۔ 2018ءکے عام انتخابات میں سندھ کے ووٹر حیرت انگیز نتائج دیں گے۔ دیہی اور شہری سیاست کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گی جو جناح اور گاندھی کے وقت سے برصغیر کی سیاست کی خاصیت ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر سیاست کے میدان سے باہر پھینک دیا ہے ، اصولی طورپر ہونا یہ چاہئے تھا کہ طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے میاں نواز شریف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر سر خم کرتے ہوئے سیاست سے سبکدوش ہونے کااعلان کرکے اپنی ہی ...
ریمنڈ بیکر نے گندی دولت کے حوالے سے اپنی کتاب سرمایہ داری نظام کا کمزور گوشہ کے عنوان سے نواز شریف کی کرپشن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب ڈرٹی منی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آزاد منڈی کے نظام کی اس طرح تجدیدکیسے کی جاسکتی ہے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکتا...
حمزہ شہباز پنجاب میں انتخابی مہم چلائیں گی نوجوان قیادت کے ساتھ نئے چہرے مہم کا حصہ ہونگے سینئرز کو کھڈے لائن لگانے کی بجائے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے گا‘ متوقع نئے چہرے سلمان شہباز راحیل منیر ہونگے لاہور (رانا خالد محمود قمر) پاکستان مسلم لیگ ن نے اپوزیشن سے نمٹنے اور آئندہ ...
ظفرالطاف مرکزی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ تھے ۔ضیاالحق کی کیبنٹ کی کارروائیاں اور ان کا ریکارڈ رکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔کابینہ کے اجلاس سے لوٹتے تو بہت مایوس دکھائی دیتے تھے۔حکومت نے نیاز نائیک کی جگہ پر اکائونٹس گروپ کی گلزار بانو کو سب سے اہم عہدے پر سیکرٹری کیبنٹ ...
وزیراعظم نواز شریف نے اعلیٰ افسران کی پروموشن کے معاملے میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے کرپٹ افسران کو لینے کے دینے پڑجانے کا امکان ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس مرتبہ سلیکشن بورڈ نمبر ایک کی سفارش پر 80 سے زائد افسران کو کلیئرنس کے باوجود پروموشن نہیں دیا اور ا...
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سابق صدر مملکت اور پی پی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے اعلان کیا تھاکہ وہ خود نوابشاہ سے جبکہ بلاول زرداری لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن لڑکر قومی اسمبلی آئیں گے‘ جس کی پارٹی میں بظاہر تو تعریف کی گئی لیکن درون خانہ تعجب کا اظہار کیا ...
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا کی 89ویں سالگرہ بھٹو خاندان کے آبائی علاقے گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں کیک کاٹ کر منائی۔ اپنے مختصر خطاب میں انہوں نے لاڑکانہ کے حلقہ 204این اے سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کیا ۔ ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کو یہ ’’سندیسہ‘‘ بھی دے دیا کہ ان کی اور ان کے والد آ...
16 دسمبر 1971کے’’سانحہ‘‘ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے سنبھالا تھا۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو سبکدوش کیا تھا۔ اپنی قابلیت اور عوامی مقبولیت کے زعم م...
سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دیا میر بھاشا ڈیم کے مالیاتی پلان کی منظور ی دے دی ہے ۔ ڈیم کے لیے فنڈز پی ایس ڈی پی سے فراہم کیے جائیں گے ۔ جبکہ واپڈا خود بھی پاور جنریشن کمپنیوں کے ذریعے فنڈز اکٹھے کرے گا ۔ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے ...
نومبر کی حسین راتیں زمیں پر جب اُترتی ہیں میرے چھوٹے سے کمرے میں تیرے اقرار روتے ہیں اس سال کا نومبر بھی عجیب ہے ۔ سردی کی خنکی روٹھی روٹھی سی لگتی ہے ۔ شہروں پر سموگ اور دھند کا راج ہے ۔میگھا برسنے کی اُمیدیں دم توڑنے لگیں تو خلقت نمازِ استسقاء کے لیے ایستادہ ہو گئی ۔ خالقِ کا...