وجود

... loading ...

وجود

میری تقریر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں

اتوار 05 مارچ 2017 میری تقریر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں

مقامشعبۂ سماجیات جامعہ کراچی
بتاریخ :2 مارچ
موضوع: بے خانماں بچے
کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ سماجیات کے سیمناروں میں شمولیت کر کے مجھے وہی بے پایاں خوشی ہوتی ہے جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دبئی میں کرکٹ میچ کھیل کر ہوتی ہے۔ یہاں بھی وہی بے جان مردہ وکٹیں، وہی اپنی زبانیں،وہی دیسی بدمزہ کھانے، وہی میلے بدنما شلوار قمیض، وہی آنکھوں پر اندھیرا طاری کردینے والے عبائے۔
دبئی کے عبایوں اور یہاں والے عبایوں میں ایک بڑا نمایاں فرق ہے۔آپ خوش قسمتی سے اگر دبئی والے عبائے کے قریب سے گزریں تو لگتا ہے کہ جولائی کی تپتی ہوئی دوپہر میں آپ پر قیمتی فرنچ پرفیوم کا بادل برس گیا ہے۔اس عبائے سے عنقریب ایک دست حنائی برآمد ہوگا اور یہ گیت گنگناتے ہوئے آپ کے ہاتھ میں ایک قطری خط تھما دے گا کہ تھوڑے نادان ہو تم ،تھوڑے بدمعاش ہو تم،ہاں مگر سچ یہ ہے کہ میری جان ہو تم
آپ کے شعبے کی سربراہ پروفیسر کوثر خاصی بے رحم ہیں۔مجھے اتنا Taken for Granted لیتی ہیں کہ اس طرح کے پروگرام کے لیے بس واٹس اپ کے ایک میسج پر اکتفا کرتی ہیں ۔اب کی دفعہ کا میسج کچھ یوں تھا کہ’’ کل ہمارا شو ہے۔تجھے آنا ہوگا‘‘ میں نے مدھم تیور سروں میں احتجاج کیا کہ ایک زمانے تک میں سرکار کا بڑا افسر تھا،اب یہ آپ کے سیمنارز مجھے کچھ کم کم سے لگتے ہیں۔وہ ہنس کر کہنے لگیں ’’ارے تو میمن گجراتی ہوکر بھی ماں کی وہ نصیحت بھول گیا کہ کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔سو میں ان کے پروگرام میں بالکل ویسے ہی پہنچ جاتا ہوں جیسے سپریم کورٹ کو سجھاؤنی دینے نون لیگ کا حسن سوگوار مریم اورنگ زیب اور پی پی کے مولا بخش چانڈیو چوہدری نثار کو کھدیڑنے ٹی وی کے ٹاک شوز میں آپہنچتے ہیں۔
شعبۂ سماجیات کے پروفیسرز اور طلبا مجھے بہت شریف لگتے ہیں۔شریف ویسے بھی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں:چاہے وہ حاکم وقت نواز شریف ہوں، چاہے کبھی ہاں کبھی ناں کرکے جانے والے جنرل راحیل شریف، ہنسنے ہنسانے والے عمر شریف اور وہ حسن طلب کے شیرے میں لتھڑی ہوئی مشاء شریف کہ جس کے مطالبے ظالما کوکا کولا پلادے پر ہم نے کئی دفعہ کوک کی ڈیڑھ لیٹر کی بوتل خرید کر چوراہے کی فقیرنیوں میں جرعہ جرعہ بانٹ دی۔
ہمارا این جی او کے بارے میں ہمیشہ سے ایک تصور تھا کہ وہ گوری اور لمبی ہوتی ہے اور انگریزی بولتی ہے مگر یہاں جو ہمارے پہلو میں کوچوان بنے بیٹھے جرمن این جی او کے ملکی سربراہ بیٹھے ہیں ان سے مل کر بہت مایوسی ہوئی۔یہ داغ داغ اجالا ہمارے این جی او کے تصور سے صریحاً بغاوت کا کھلا اعلان ہے۔
ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ بچے ہوں یا بڑے ،ان کے اپنے گھراور آبائی بستیاں جبری طور پر چھوڑنے کی دو وجوہات تو انسان کی تشکیل کردہ ہوتی ہیں اور ایک کا معاملہ آفات ارضی و بحری سے ہوتا ہے۔انسان کے جبر سے لوگ بے گھر اس وقت ہوتے ہیں جب وہاں یا تو جنگ مسلط کی جائے جیسے عراق اور شام یا ان کا علاقہ حربی تنازعات میں گھر جائے جیسے افغانستان اور کشمیر،روہنگیا مسلمان یا بوسنیا کے مسلمان۔ انسان کی تشکیل کردہ ایک صورت بے خانمائی کسی عظیم منصوبے جیسے ڈیم یا بڑی فیکٹری کی تعمیر ہوتی ہے۔ایسے لوگ اگر میرپور چھوڑ کر بریڈ فورڈ، مانچسٹر یا برمنگھم بھی جابسیں تو افریقہ کی وہ کہاوت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی کہ آپ ایک گائو ں سے آدمی کو شہر میں لاکر آباد کرسکتے ہیں مگر اس انسان میں سے گائوں کو کھینچ کر باہر نکال نہیں سکتے۔یہ بات آپ ریٹائرڈ فوجی افسران کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔جن کا تفاخر اور تقدس،جن کا احساس تحفظ اور حالات سے کم آگہی کا ادراک آپ کو انہیں ٹی وی ٹاک شوز میںبودے دلائل دیتے ہوئے دیکھ کر ہوتا ہے۔
رہ گئی انجلینا جولی اور ایسے اور حسین برانڈ ایمبیسڈرز جو افغان بچوں کے درمیان میں تصاویر کھنچواکر دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتے ہیں تو جان لیجئے کہ یواین او اور اس کی چھتر چھائوں میں چلنے والے ادارے Reactionaryتو کہے جاسکتے ہیں مگر اسباب بے خانمائی پر ان کا کوئی اختیار نہیں ، نہ وہ جارج بش سے عراق کی جنگ کا پوچھ سکتے ہیں نہ وہ بشار الاسد کا ہاتھ شام کی تباہ کاریوں سے روک سکتے ہیں۔ان کا سالانہ وجود کچھ متاثرین میں ہزار خیمے، خوارک اور دوائوں کے چند ٹرکوں کی تقسیم اور اس پر میڈیا کا شور و غوغا تو ہے۔جنگ کو روکنا ان کے مقاصد اعلیٰ میں شامل نہیں۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر