... loading ...
تخیل کے دو مقصد ہیں: صورت کو آنکھ کی، اور معنی کو عقل کی تحویل سے نکالنا!یہ دونوں کام فزکس سے ضروری واقفیت کے بغیر ممکن نہیں ہیں!‘‘فزکس سے ہماری ’’ضروری واقفیت‘‘ صرف اس قدر ہے کہ اس نے انسان کو ظہوری عالمِ صورت سے ہٹا کر اپنے پیدا کردہ ایجادی عالم صورت میں ملفوف کر لیا ہے۔ ظہوری عالمِ صورت فطری اور نامیاتی تھا، جبکہ ایجادی عالم صورت ٹھوس اور میکانکی ہے۔ فزکس کے قائم کردہ ایجادی عالم صورت کی حیثیت اب ایک ایسے بفر (buffer) کی ہے جو انسان اور خارجی فطرت کے درمیان قائم ہے، اور اس میں رہتے رہتے انسانی آنکھ صورت کے نامیاتی پن سے محروم اور عقل معنی کے زندہ پن سے ناواقف ہو چکی ہے۔ اب انسانی آنکھ کیمرے اور عقل مدر بورڈ کے سرکٹوں کی طرح کام کرتی ہے، اور ظہوری عالمِ صورت انسان سے ‘‘ماورا’’ کی طرح بہت دور ہٹ چکا ہے۔ فزکس کے پیدا کردہ ایجادی عالمِ صورت میں آنکھ کا اندازِ دید میکانکی ہے، اور یہ کیمرے کی طرح سب کچھ دیکھتی ہے لیکن اسے ‘‘نظر’’ کچھ نہیں آتا۔ اور عقل نے شعور کے in vivo معنی کو سائنس کے in vitro معنی میں تبدیل کر دیا ہے، یعنی فزکس نے صورت کو آنکھ میں اور معنی کو شعور میں حنوط کر دیا ہے۔ صورت اور معنی کو اس زبردست اور غیر فطری انجماد اور میکانیت سے تخیّل کی قوت سے بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تخیّل کیا ہے؟ ذرا ٹھہر کے اس کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے عقل اور تخیّل کا سادہ اور سطحی سا موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ عقل ایک انجن کی طرح ہے، طاقتور، تیز رفتار، پیدا کار، اور انتھک۔ یہ انجن جس پٹڑی پر چلتا ہے اس کی ہر چیز نپی تلی ہے۔ پٹڑی کی ساخت، اس کی سمت، اس کا حدود اربعہ، اس کے ٹھہرنے اور چلنے کے مقام، اس کے اشارے، اس کے سگنل، اس کی رفتار وغیرہ سب طے شدہ ہیں۔ جہاں پٹڑی ختم ہو جاتی ہے، عقل کا انجن بھی رک جاتا ہے۔ عقل کا انجن کسی دوسرے طریقِ سفر اور طریقۂ سفر کو نہ قبول کرتا ہے نہ استعمال کر سکتا ہے۔ عقل کا انجن پہلے سے طے شدہ تعینات اور تحدیدات میں رہ کر ہی کام کر سکتا ہے، اور اگر انہیں اچانک سے بدل دیا جائے تو انجن ہی رک جاتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ تخیّل بھی ایک انجن ہے، لیکن وہ ہستی اور سفر کے اس جبر کو قبول نہیں کرتا۔ تخیل سفر نصیب تو ہے لیکن اپنا راستہ بھی اپنی گرہ میں رکھتا ہے۔ تخیّل کا انجن پٹڑی پر سفر کرتے کرتے اچانک سڑک پر بھی محوِ سفر ہو جاتا ہے۔ چاہے تو گھڑی بھر کے لیے کچی سڑک پر بھی خاک اڑا لیتا ہے اور چاہے تو پانیوں کے اوپر چلتے چلتے وہ پانیوں کے اندر بھی غوطہ لگا لیتا ہے۔ پانیوں کی گہرائیوں سے اوبھ جائے تو زقند بھر کے وہ فضاؤں میں محو سفر ہو جاتا ہے۔ اور اگر ارضی فضاؤں کی تنگنائے میں اس کا دل گھبرانے لگے، کیونکہ تخیّل کا دل بھی ہوتا ہے، تو وہ خلاؤں کی اور چل پڑتا ہے۔ اور اگر کائنات کے انبار وجود میں اسے اپنی منزل مراد ہاتھ نہ آئے تو وہ اچک کر زمان و مکان کی فصیلوں پر بیٹھ کے ماورا پر ٹکٹکی جما لیتا ہے۔ اور اگر عالم ماورا میں راستے اور سفر کا نقشہ، جو فزکس کا بنایا ہوا نہیں ہے، اس کے پاس ہو، اور ان فصیلوں پر بیٹھے بیٹھے اس کے دل میں ہجر حق کی ہوک اٹھے، تو وہ ماورا میں سفرکا آغاز کرتا ہے اور حضورِ حق میں سجدہ ریز ہو کے منزل مراد پر فائز المرام ہو جاتا ہے۔
یہاں تک آتے آتے سائنسدان کا جلال دیدنی، اور تخیّل کی تعریف ضروری ہے۔ تخیل ایک ایسا نفسی ملکہ ہے جو زمان و مکاں کی تحدیدات اور تعینات سے نہ صرف آزاد ہے، بلکہ عقل، نفس اور حس میں ان تحدیدات اور تعینات کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صورتوں کے عالم کی خوگر عقل، نفس اور حس خود ’’صورت‘‘ بن جاتے ہیں، لیکن تخیل پیکر محسوس کے اس جبر سے اوپر اٹھنے کی استعداد ہے۔ عقل کی تعریف تو معلوم و معروف ہے جو صبح و شام تنورِ علم کا بھاڑ جھونکتی ہے، اور ہمارے رزق و ہستی کی اب واحد ضامن ہے۔ عقل میکانکی اور تجریدی ہے، تخیل نامیاتی اور حضوری ہے۔ عقل شعوری ہے اور تخیل نفسی۔ عقل ‘‘ہونے نہ ہونے’’ کے سوال ہی میں کھپ جاتی ہے، حس، صورت کے پھاٹک پر سر پھوڑتی رہتی ہے، اور نفس کو مافات کے ماتم سے فرصت نہیں۔ عقل، نفس اور حس کی رستگاری تخیل ہے۔
تخیل کا ملکہ تین غیرمعمولی طریقوں پر کام کرتا ہے: تخلیقی، حضوری، اعتباری۔ اگر تخیل، حس میں کارفرما ہو جائے تو یہ صورت کو نامیاتی پن دے کر اس کی fixity کو توڑ دیتا ہے، اور ایسی نئی صورتیں جنم لیتی ہیں جو عالم شہود میں فطری طور پر نہیں پائی جاتیں۔ یہ پہلو فنون لطیفہ کی بنیاد ہے، اور حس میں یہ تخلیقی جہت تخیل سے داخل ہوتی ہے۔ تخیل کی حس میں کارفرمائی سے حس اپنی خلقی تحدید سے اوپر اٹھ جاتی ہے اور محض صورتوں کی قیدی نہیں رہتی۔ تخیل آنکھ کے ساتھ باقی حواس کو بھی ان کی تحدیدات سے اٹھانے کی صلاحیت ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ تخیل کی حس میں کارفرمائی کے دو پہلو ہیں۔ اگر صورت غالب اور معنی متضمن ہو تو فنون لطیفہ کا اصول مختلف ہو گا، اور اگر معنی غالب اور صورت متضمن ہو تو فنون لطیفہ کا اصول اور اظہار بدل جائے گا۔
تخیل کا دوسرا پہلو حضوری ہے جو نفس سے متعلق ہے۔ نفس انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ مافات کا ہے جو اس کی صلاحیتِ تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر تخیل نفس میں کارفرما ہو جائے تو یہ مافات کو حاضر رکھتا ہے۔ یہ تخیل کا ایک معمولی پہلو ہے جو انسانی زندگی میں تلافء مافات کی بنیاد ہے۔ اس نفسیاتی میکانزم کی عدم موجودگی میں انسانی زندگی ممکن نہیں۔ اس کی اصل یہ ہے کہ تخیل غیب کو حاضر رکھنے کی صلاحیت ہے، اور تلافیء مافات اس کا ایک اظہار ہے۔ تخیل کی یہ صلاحیت نفسیاتی اور روحانی دونوں طرح کام کر سکتی ہے۔ شہود میں یہ نفسیاتی ہے اور عالم غیب کے حوالے سے یہ روحانی ہے، اور یہ تخیل کی حضوری صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ تصوف کے اشغال اور مجاہدے تخیل کی اسی صلاحیت کو مرکز بناتے ہیں، اور تزکیۂ نفس سے مراد تخیل کا شہودی نسبتوں سے تزکیہ ہے، اور غیب کے ہمہ وقت حضور کے وسائل کا اکتساب ہے۔
عقل حاضر و موجود کے علم کا ملِکہ، اور شہود کا خچر ہے۔ بود و نبود اور وجود و عدم کے کھوج میں صورتوں کے نشانات بہت جلد ناپید ہو جاتے ہیں، اور راستہ باقی رہتا ہے، اور عقل شہود کے سرحدی پھاٹک پر سرگرداں اور سرگراں رک جاتی ہے۔ اگر عقل کو غیب کے معتبر نشانات فراہم ہوں، اور اس میں تخیل کارفرما ہو جائے، تو اس کے علم کے خواب پورے ہو جاتے ہیں۔ یہ تخیل کی اعتباری جہت ہے۔ عرفان عقل میں تخیل کی اعتباری کارفرمائی ہی سے پیدا ہوتا ہے جبکہ عقل کو غیب کے ‘‘معتبر نشانات’’ بھی فراہم ہوں۔
تخیل، حس اور نفس کو نئی شرائط ہستی سے متعارف کراتا ہے، اور عقل کو نئی شرائطِ علم سے۔ تخیل کا ملکہ عقل، حس اور نفس کو ایک قابل شناخت نامیاتی وحدت میں پروئے رکھتا ہے۔ انفسِ انسانی میں تین بڑے پودے ہیں، عقل، نفس اور حس۔ تخیل ان کا پانی ہے۔ اس سرچشمے کو زندہ اور مزکی رکھنا ہی انسان رہنے کی جدوجہد ہے۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کی آلودگی آفاقی ماحولیات میں ہے، تو جدید علم کی آلودگی انفسی ماحولیات میں ہے اور اس کے اثر سے انفس کے فطری سرچشمے آلودہ ہو گئے ہیں۔ جدید انسان بصری صورت اور ذہنی کانسیپٹ کی دو تہوں میں مکمل طور پر پیک ہو گیا ہے، اور یہ پیکنگ جدید انسان کی کل سطح وجود ہے۔ تخیل انسان کے انفس کو ورکشاپ بننے سے اور آفاق کو صنعتی خرابات بننے میں مزاحم رہتا ہے۔
قول: احمد جاوید /تشریح : محمد دین جوہر
٭٭