... loading ...
ڈونلڈ کے برسراقتدار آنے کے بعد بلکہ ان کی انتخابی مہم کے دوران ہی پوری دنیا ان کی دھواں دھار تقریروں اور اشتعال انگیز رویے سے اس قدر مسحور ہوئی کہ دنیا کے دوسرے تمام بڑے مسائل پس پشت چلے گئے، اس دوران دنیا کا جو سب سے بڑا مسئلہ پس پشت گیا، وہ ماحول کی آلودگی کا وہ عفریت ہے جو پہلے انتہائی آہستگی سے بنی نوع انسان کو اپنے شکنجے میں لے رہاتھا لیکن اب وہ آہستگی والی کیفیت ختم ہوچکی ہے اور اب یہ عفریت انتہائی تیزی سے اس دنیا کو تہہ وبالا کرنے پر تلا نظر آرہاہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے بلکہ ان کو اس بات کایقین ہے کہ ماحول کی آلودگی چین کا پھیلایا ہواشور وغوغا ہے ،اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ماحول یا موسم کی تبدیلی کے حوالے سے امور کیلیے انہوں نے جو تقرریاں کی ہیں، بڑے اداروں پر ان کا اثرورسوخ یا دائرہ عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ صورت حال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکا کو سمندری طوفانوں،آندھیوں ،سیلاب اور خشک سالی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور صرف امریکا ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیاجارہاہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران موسم کی تبدیلی نے کس طرح امریکا اور اس کے اردگرد کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، اس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ میکسیکو سٹی میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہورہی ہے۔جبکہ موسم میں تبدیلی کی وجہ سے بعض علاقوںمیں شدید سیلاب آرہے ہیں اور بعض علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیںاور یوں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پناہ گزینوں کاایک بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیاہے اور بعض ممالک کے درمیان تنازعات کا سبب بن رہاہے۔
امریکا کے سابق صدر اوباما کے آخری دور میں سمندر کی سطح میں ہونے والے اضافے کے حوالے سے امریکا کے سمندروں سے متعلق امور کے ادارے این او اے اے کی جانب سے کی جانے والی ایک ریسرچ رپورٹ میں انکشاف کیاگیاتھا کہ اس صدی کے آخر تک سمندر کی سطح میں کم وبیش8 فٹ اضافہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔جس سے نسبتاً نشیب میں واقع علاقوں کو شدید خطرہ لاحق ہوگا اور اس سے امریکا سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
اس حوالے سے یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی حاصل کرنے کے رجحان میں اضافے اور اس پر آنے والی کم لاگت اور2011ء میں جاپان کے شہر فوکو شیما میں رونماہونے والے سانحہ کی وجہ سے اب پوری دنیا میں ایٹمی بجلی کارجحان کم ہورہاہے ۔جس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اب پوری دنیا میں اب ہواسے حاصل کی جانے والی بجلی کی شرح میں17 فیصد اور سورج سے حاصل کی جانے والی بجلی کی شرح میں 33 فیصد اضافہ ہواہے جبکہ ایٹمی بجلی کی شرح میں اضافے کی شرح صرف 1.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔
ایٹمی توانائی کی صنعت کے حوالے سے 2016ء کی عالمی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاگیاہے کہ اب ایٹمی بجلی گھروں پر سرمایہ کاری منفعت بخش نہیں رہی ہے۔لاگت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے اب بہت سے ممالک ایٹمی بجلی کے پرانے پراجیکٹ کو ختم کررہے ہیں اور نئے پراجیکٹ کی تعمیر وتنصیب نہ ہونے کے برابر رہ گیاہے۔اس صورت حال میں اب دنیا میں صرف فرانس اور جنوبی کوریا ہی ایسے دو ملک باقی بچے ہیں جہاں اب بھی ایٹمی بجلی گھرلگائے جارہے ہیں اور ایٹمی بجلی کی صنعت ترقی پذیر ہے۔چین کی ایٹمی بجلی کی صنعت جو چین کی مستقبل کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل قرار دی جارہی تھی سیکورٹی کے بعض مسائل کی وجہ سے منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔چین کے 36 ایٹمی بجلی گھروں میں سے کم وبیش 8 انسانی غلطیوں کی وجہ سے پیداہونے والے سیکورٹی کے شدید مسائل کی وجہ سے بند کئے جاچکے ہیں ۔چین کے ایٹمی ماہرین کا کہناہے کہ ایٹمی پلانٹ بند کرنے پر مجبور ہونے کی بنیادی وجہ ماہر اور تجربہ کارایسے لوگوں کی کمیابی ہے جو ان پلانٹس کے تحفظ کے حوالے سے نگرانی اور انسپکشن کا کام انجام دے سکیں۔اس صورت حال کے سبب اب چین ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب کے بجائے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کررہاہے۔
آسٹریلیا کا گریٹ بیریئر ریف یعنی پہاڑ کاکنارہ شدید خطرے سے دوچار ہے اور 2016ء میں اس کے بڑے حصے کے سمندر برد ہوجانے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیاتھا۔دوسری جانب دنیا میں سب سے زیادہ کاربن جذب کرنے والا امیزون کاجنگلاتی علاقہ روبہ زوال ہے اور وہاں ایک دفعہ پھر تیزی سے درختوں کی کٹائی کا عمل شروع ہوچکاہے۔بولیویا اوربرازیل میں کاشتکار فصلوں کی بوائی کیلیے بڑے پیمانے پر جنگلوں کاصفایا کرکے جگہ پیدا کررہے ہیں۔جنگلوں کے خاتمے کایہ عمل اس وقت ہورہاہے جب امریکا جنگلوں کی کٹائی کا عمل روکنے کااعلان کرچکاہے اور اس اعلان میں یہ دعویٰ کیاجاچکاہے کہ سویا بین اور پام کی کاشت کیلیے جنگلات کی کٹائی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ماہرین کے ایک اندازے میں دنیا بھر میں کاربن کاکم وبیش 10 فیصد اخراج کابنیادی سبب جنگلات کی کٹائی اور امیزون کے جنگلات میں ہونے والی اتٓشزدگی کے واقعات ہیں۔
ماحول میں بڑھتی ہوئی گرمی کاایک ثبوت انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کے حوالے سے آنے والی تازہ ترین اطلاعات بھی ہیںرپورٹ کے مطابق برف کی چٹانیں چٹخ رہی ہیں اور اگرچہ ابھی اس کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہونے کافوری کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن مستقبل قریب میں اس خطرے کو نظر انداز بھی نہیں کیاجاسکتا۔ماہرین کاکہناہے کہ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں برف برف پگھلنے کی وجہ سے اس صدی کے آخر سے قبل ہی سمندر کی سطح میں5 سے6 فٹ تک کااضافہ ہوجائے گا۔سمندر کی سطح میں اضافے کایہ اندازے چند سال قبل اس حوالے سے لگائے گئے اضافے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔اس صورتحال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ہم دنیا بھر میں گرمی کی شدت کم کرنے کیلیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں یا اس حوالے سے ہماری کوششیں ضرورت سے بہت کم تر درجے کی ہیں۔ایسی صورت حال میں بعض امریکی سیاستدانوں، یہاں تک کہ سابق وزیر خارجہ جارج شلٹز اور جمیز بیکرتھرڈ جیسے سیاستدانوں کی جانب سے کاربن ٹیکس میں اضافہ کرکے کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کی تجاویز حقائق سے بہت دور محسوس ہوتی ہیں ، اس صورت حال کا تقاضہ ہے کہ حکومت ماحولیات کے ماہرین کے تعاون سے کاربن کے اخراج کو روکنے اور کاربن کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کیلیے ایک قومی پالیسی تشکیل دے اور اس پر پوری طرح عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے لیکن یہ اسی وقت ہوسکتاہے جب نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے اشتعال انگیز بیانات داغنے سے فرصت ملے گی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوگا یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔
٭٭