وجود

... loading ...

وجود

کیا کسی کو دنیا کوایٹمی جنگ کی تباہ کاری کی نذر کرنے کااختیار ہے؟

بدھ 01 مارچ 2017 کیا کسی کو دنیا کوایٹمی جنگ کی تباہ کاری کی نذر کرنے کااختیار ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہوجانے کے بعد اب یہ سوال،ہم 1945ء سے جس کاسامنا کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں ،زیادہ شدت اختیار کرگیاہے کہ کیا دنیا میں کسی کو بھی ،کسی بھی بڑی طاقت کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پوری دنیا کو ایٹمی تباہ کاری کی نذر کردے؟
ڈونلڈ ٹرمپ یقینا غیر معمولی طورپر برہم ،منتقم مزاج اور ذہنی طورپر عدم توازن شخصیت کے حامل ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چونکہ اپنی من مانی کرتے ہیں اور اس حوالے سے کسی سے مشورہ کرنے یا سوچنے پر یقین نہیں رکھتے، اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ ایٹمی جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔اس اعتبار سے اب ہم لوگ ایک انتہائی نازک دور میں داخل ہوچکے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت مجموعی طورپر 6 ہزار 800 ایٹمی ہتھیار ہیں اور ان میں سے بیشتر ایسے ہیں کہ استعمال کیلیے محض ایک اشارے کے منتظر ہیں۔امریکا دنیا کے ان 9 ممالک میں شامل ہے جن کے پاس مجموعی طورپر 15ہزار ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔یہاں یہ بتانے یا اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ایٹمی اسلحہ کابنیادی مقصد کرۂ ارض سے ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ کرناہے۔یہاں تک کہ ان کا محدود استعمال بھی بنی نوع انسان کی بڑے پیمانے پر تباہی کاسبب بن جائے گا ،اس لیے ٹرمپ کی جانب سے مزید ایٹمی اسلحہ تیار کرنے اور اسے استعمال کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات پر خوف کی فضا پیداہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔
امریکی صدر کی جانب سے ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کے کسی بھی حکم کے خلاف پیش بندی کے طورپر سینیٹر ایڈورڈمارکے (ڈی ایم اے) اور نمائندہ ٹیڈ لیو (ڈی سی اے) نے حال ہی میں ایک قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا ہے، جس کے تحت یہ ضروری قرار دیاگیا ہے کہ امریکی صدر ایٹمی جنگ کا حکم دینے سے قبل سینیٹ سے اس کی منظوری حاصل کرے، یعنی اس قانون کی منظوری کی صورت میں ایٹمی جنگ کا حکم صدر بذات خود نہیں دے سکے گا بلکہ ایٹمی جنگ کا اعلان امریکی سینیٹ کی منظوری سے مشروط ہوگا۔امن کیلیے جدوجہد کرنے والے گروپوں نے اس تجویز کی بھرپور حمایت کی ہے اور نیویارک ٹائمز نے اپنی حالیہ اشاعت میںشامل اداریے میں اس کو سراہا ہے۔نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھاہے کہ اس قانون کی منظوری سے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ جنگ عظیم دوم کے بعد اب وہ تنہا ایٹمی جنگ کا فیصلہ کرنے والی پہلی شخصیت نہیں بن سکتے۔لیکن اگر مارکے اور لیو کا پیش کردہ یہ مسودہ قانون کانگریس منظور بھی کرلیتی ہے توبھی اس سے ایٹمی جنگ کے وسیع خطرات پر پوری طرح قابو پانا ممکن نہیں ہوسکے گا کیونکہ ایٹمی اسلحہ رکھنے والے دیگر ممالک کے پاس ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کا آپشن تو کھلا ہی رہے گا۔
جہاں تک دفاع کیلیے ایٹمی اسلحہ رکھنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ایٹمی امور کے ماہرین کی برسوں سے ایک ہی رائے ہے کہ ایٹمی اسلحہ کی موجودگی جارح ممالک یا حکمرانوں کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن یہ بھی کسی حد تک، اور اس کے ذریعے ہر ملک کے جنونی سربراہ کو جنگ سے روکنا ممکن نہیں ہوسکتا۔اس صورتحال میںاس مسئلے کا ایک ہی طویل المیعاد حل ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ بڑے ممالک کے رہنما مل کر ایٹمی اسلحہ کو تلف کرنے کافیصلہ کرلیں۔1968ء میں طے پانے والے ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلائو کے سمجھوتے کا بنیادی مقصد یہی ہے۔
اگرچہ این پی ٹی کی وجہ سے بہت سے غیر ایٹمی ممالک کو ایٹمی اسلحہ کی تیاری سے روکنا ممکن ہواہے اور ایٹمی ممالک نے بھی اپنے ایٹمی اسلحہ کا کچھ حصہ تلف بھی کیاہے، لیکن ایٹمی اسلحہ کی ہیبت اور گھن گرج اب بھی باقی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا بعض ممالک جن میں اسرائیل ،بھارت،شمالی کوریااور بعض دیگر ممالک شامل ہیں، ایٹمی اسلحہ میں اضافے کی کوششوں میں بدستور مصروف ہیںاور انہوں نے ایٹمی اسلحہ تیار بھی کئے ہیں۔دوسری جانب امریکا ،روس اور دیگر ایٹمی ممالک اپنے ایٹمی اسلحہ تلف کرنے کے وعدے سے مکر چکے ہیں۔
دنیا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک کرنے کاعمل رک جانے کی وجہ سے پریشان اوربرہم غیر ایٹمی ممالک اورامن پسند تنظیمیں، مسلسل اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ ایٹمی اسلحہ پر پابندی کاقانون تیار کیاجائے اور دنیا کے تمام ممالک کو اس پر عملدرآمد پر مجبور کیاجائے۔ان ممالک کاکہناہے کہ جس طرح کیمیاوی اسلحہ تیار نہ کرنے یا کیمیاوی اسلحہ تیار کرنے پر پابندی کاایک معاہدہ موجود ہے اسی طرح ایٹمی اسلحہ کی تیاری پر بھی پابندی کا قانون نافذالعمل ہونا چاہئے۔اگرچہ ایٹمی اسلحہ کی تیاری پرپابندی کے اس قانون سے مختلف ممالک کے پاس ایٹمی اسلحہ کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا ،اور بڑی طاقتیں اس طرح کے قانون کو تسلیم کرنے اور اس پردستخط کرنے سے انکار بھی کرسکتی ہیں لیکن اس قانون سے ایٹمی اسلحہ رکھنا غیر قانونی قرار پائے گا جس سے ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ممالک پر اخلاقی طورپر دبائو بڑھے گا کہ وہ اس قانون کی پاسداری کریں، اوراس طرح ایٹمی اسلحہ کا پھیلائو بڑی حد تک رک جائے گا جس سے اس کے استعمال کے خطرات اور خدشات میں بھی کمی آجائے گی۔
ایٹمی اسلحہ کی تیاری اور اس کوذخیرہ کرنے پرپابندی لگانے کی یہ مہم اکتوبر 2016ء میں اس وقت شروع کی گئی تھی جب اقوام متحدہ نے ایک تجویز کی منظوری دی تھی جس میںایٹمی اسلحہ پر پابندی سے متعلق قانون سازی کیلیے مذاکرات شروع کرنے کو کہاگیاتھا۔
بڑی طاقتوں کے ماضی کے رویے اور ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے ان کے اب تک کے قول وعمل سے بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ بڑی طاقتیں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایٹمی اسلحہ پر پابندی کے قانون کی تیاری کیلیے کسی طرح کے مذاکرات میں شریک ہوں گی یا اس طرح کے کسی معاہدے پردستخط کرنے پرتیار ہوں گی،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی اسلحہ پرپابندی کے اس قانون کے نفاذ سے خود ایٹمی ملکوں کے عوام کو بھی از حد فائدہ ہوگا اور پوری دنیا ایٹم کی تباہ کاریوں سے کسی حد تک محفوظ ہوجائے گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے رہنما ایٹمی اسلحہ پر پابندی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی کوششوں میں کس حد تک تعاون کرتے ہیں اور دنیا کوایٹمی تباہ کاریوں سے محفوظ دیکھنے کے خواہاں لوگ مختلف ممالک کے رہنمائوں کو اس طرح کے معاہدے کوتسلیم کرنے اور اس پر دستخط کرنے پر مجبور کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ،کیونکہ ان کی ان کوششوں کی کامیابی ہی دراصل دنیا کو ایٹمی تباہ کاری سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر