... loading ...
آج سے100 سال قبل4؍ اپریل کو امریکی سینیٹ نے جرمنی کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کرنے کے حق میں ووٹ دیاتھا یعنی جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کی منظوری دی تھی ،اور آج سے ٹھیک نصف صدی یعنی 50 سال قبل امریکا کے سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئرنے ویتنام میں جنگ کے خلاف اعلان جنگ کیاتھا۔ویتنام کی جنگ کے خلاف اپنے اس اعلان جنگ کے ایک سال کے اندر ہی جنگ کے خلاف اٹھنے والی یہ آواز ہمیشہ کیلئے خاموش کردی گئی تھی ، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو قتل کردیاگیاتھا۔یہ ایسے واقعات ہیں جو بظاہر منظم معلوم ہوتے ہیں لیکن ان واقعات میں ہمارے لئے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ہم ان واقعات سے سبق سیکھ کر آگے کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں بلکہ ہمیں آگے کی طرف سفر کرنے میں ان واقعات سے حاصل شدہ سبق سے بڑی مدد مل سکتی ہے ۔مارٹن لوتھر کنگ نے صرف ویتنام کی جنگ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تھی بلکہ بحیثیت مجموعی جنگ کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
جرمنی کے خلاف اعلان جنگ ایک عظیم جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس نے دنیا کی دیگر تمام جنگوں، تمام لڑائیوں کا خاتمہ کردیا۔یہ ایک ایسی جنگ تھی جو اگر نہ ہوتی تو شاید ماضی اور مستقبل کی کسی اور جنگ کے اسباب ہی پیدا نہ ہوتے۔جب یہ جنگ ختم ہوئی، جس میں امریکا کا حصہ صرف 5 فیصد کے مساوی تھا تو امریکا کی حالت یہ تھی کہ اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہونے والی جانیں،اس سے ہونے والا املاک کا نقصان،شہری آزادی، جمہوریت ،علاج معالجے کی سہولتیں، تقریبا ً سب کچھ ہی ملیامیٹ ہوچکاتھا ۔اب ماضی سے حال میں آجائیں، افغانستان کی جنگ کو دیکھ لیں،کیا امریکا کیلیے یہ جنگ ایک ڈرائونا خواب ثابت نہیں ہورہی ہے۔اس کی وجہ سے ہلاکتیں، وسائل کازیاں،تباہ کاریاں،فلو کی وبا پر کنٹرول میں دشواریاں،لوگوں کی نقل وحرکت پر پابندیاںاور ٹیکسوں میں اضافہ، کیا یہ سب کچھ افغان جنگ کانتیجہ نہیں ہے اور کیا ان سب سے یہ نہیں معلوم ہوتاکہ ہم ایک اور جنگ عظیم کی طرف جارہے ہیں۔امریکی اور دنیا بھر کے عوام یہ بھولے نہیں ہوں گے کہ لوگوں نے اس جنگ کی مخالفت کی تھی اور امریکی انتظامیہ کو یہ یاد دلایاتھا کہ جنگ کے نتائج کبھی بھی من پسند نہیں ہوتے۔جنگ کے آغاز پر امن کیلیے مہم چلانے والوں نے امریکا کو متنبہ کیاتھا کہ وہ جنگ سے باز رہے، جنگ میں نہ کودے۔ انہوں نے امریکی عوام سے کہاتھا کہ پوری دنیا سے تعلقات قائم رکھنا ایک الگ بات ہے، لیکن ایسے تعلقات جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں ضائع ہوں، درست نہیں ہیں،وقت نے ثابت کیا کہ وہ لوگ اپنی جگہ درست تھے ان کا یہ خیال صحیح تھا کہ جنگ کے ذریعے کبھی بھی من پسند نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
جنگ کے بعد کا پچھتاوا بہت کربناک ہوتاہے جس کا اندازہ جنگ عظیم اول کے بعد اس جنگ کے نقصانات پر پچھتاوے سے لگایا جاسکتاہے ۔یہ صورت حا ل جنگ عظیم دوم تک جاری رہی لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور جنگ عظیم دوم میں کود پڑے ،اور ابھی اس کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ افغان جنگ کو اپنے سر پر سوار کرلیا جوکہ جنگ عظیم سوم یعنی تیسری جنگ عظیم کا پیشہ خیمہ نظر آرہی ہے۔
1928ء میں بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی جنگ مخالف تحریک وسعت کے اعتبار سے بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی اور اس کے شرکا جنگ کے خلاف بڑی حد تک جارحانہ طرز عمل کا اظہار بھی کررہے تھے۔1917ء میں امریکا کے وہ سینیٹر جو جنگ کے مخالف تھے، جب سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کیلیے آئے تو اپنے ساتھ ان خطوط کا ایک پلندہ بھی لائے تھے جن میں عوام کے مختلف حلقوں نے جنگ سے دور رہنے کامشورہ دیاتھا اور مطالبہ کیاتھا کہ امریکا کو جنگ سے علیحدہ رہنا چاہئے،لیکن سینیٹ میں ان کی باتوں کو کوئی وزن نہیں دیاگیااور سینیٹ کے ارکان نے اکثریتی رائے سے جنگ میں کودنے کی منظوری دے دی۔امن پسند گروپوں نے امن کی حمایت اور جنگ کی مخالفت میں مظاہرے کئے، ریلیاں نکالیں اور اپنے وفود یورپی ممالک کو بھیجے تاکہ انہیں جنگ میں شریک نہ ہونے پر قائل کیاجاسکے ۔ان وفود نے یورپی ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کیں اور ان پر زور دیا کہ وہ جنگ میں کودنے سے قبل اس مسئلے پر ریفرنڈم کرالیں، اگر عوام کی اکثریت جنگ کے حق میں فیصلہ دیدے تو وہ بے شک جنگ میں شریک ہوجائیں ان لوگوں کو یقین تھا کہ عام آدمی کبھی بھی جنگ کی حمایت نہیں کرے گا۔
ان امن پسندوں کی کسی نے ایک نہ سنی، جنگ میں کودنے کے حوالے سے عوام سے رائے لینے کی تجویز بھی تسلیم نہیں کی گئی اور امریکا نے جنگ میں کود کر مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے تمام راستے بند کردیے۔امریکا کاخیال تھا کہ وہ اس جنگ میںمکمل طورپر فاتح بن کر ابھرے گا اور شکست خوردہ اقوام کو سخت ترین سزائیں دے گا۔
جنگ عظیم اول کے بعد اس خیال کو تقویت حاصل ہوئی کہ جنگیں کسی مسئلے کاحل نہیں ہوتیں، اس لیے جنگیں نہیں ہونی چاہئیں۔یہ خیال 1020ء سے1930ء کے دوران عروج پر رہا لیکن اس کے بعدجنگ عظیم دوم کے دوران امن پسندی کے ان خیالات کو پس پشت ڈال دیاگیا اور جنگ عظیم دوم کے بعد ویتنام کی جنگ میں امریکا نے ایک دفعہ پھر جنگ میں کود کرا من پسند امریکی عوام کو مایوس کیا۔جنگ ویتنام کے خلاف مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے صرف اس لیے آواز نہیں اٹھائی تھی کہ وہ ویتنام کی جنگ کے مخالف تھے بلکہ انہوں نے صاف صاف ہرطرح کی اورہرجگہ کی جنگ کی مخالفت کی تھی ۔ان کاکہناتھا کہ جنگ ہونی ہی نہیں چاہیے۔مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی، اس آواز کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور امریکا کو ویت نام سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ویتنام کی جنگ کے بعد دنیا بھر میں قدرے سکون محسوس کیاگیا تھا لیکن اس جنگ کو نصف صدی بیتنے کے بعد آج امریکا کے عوام پھر ایک دوراہے پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔اس صورتحال کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے میں انکشاف کیاگیاہے کہ امریکا کے60 فیصد عوام کو یقین ہے کہ امریکی حکمراں اگلے 4 سال کے اندر کسی بڑی جنگ کا آغاز کردیں گے ۔ اس سروے رپورٹ سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ امریکا اب بھی مختلف جنگوں میں الجھاہواہے۔ان جنگوں کی وجہ سے اس وقت دنیا کو اپنی تاریخ کے بدترین ریفیوجیز کرائسس یعنی پناہ گزینوں کے بحران کاسامنا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا کو زبردست قحط کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
اس صورتحال کے باوجودسروے رپورٹ کے مطابق امریکا کے 80 فیصد نیٹو کو قائم رکھنے کے حامی ہیں جبکہ کم وبیش 50 فیصد امریکا کے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کے بھی حامی ہیں۔نصف سے زیادہ امریکی امریکا میں پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی کے حامی ہیں۔75 فیصد ڈیموکریٹس کسی ٹھوس جواز کے بغیر روس کو امریکا کا دشمن قرار دیتے ہیںاس سے ظاہر ہوتاہے کہ جنگ کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود لوگ اب بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ جنگ کے ذریعہ وہ کسی جنگ کو روک سکتے ہیں۔
ایسی صورت میں ہمیں صرف ٹرمپ کی ایک شخصیت نظر آتی ہے جس کی وجہ سے جنگوں کے خلاف لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کی توقع ہے کیونکہ جو لوگ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے وہ ٹرمپ کی جانب سے جنگ کے کسی بھی اعلان کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں اور اس طرح ٹرمپ کی مخالفت جنگ کی مخالفت میںتبدیل ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر جرمنی کے ٹینک روس کی سرحدوں کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیںاور امریکا میں بھی لبرل طبقہ بھی جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے دیگر فروعی باتوں میں الجھاہوا نظر آتاہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ بات نظر اندازنہیں کی جانی چاہیے کہ اب اگر تیسری عالمگیر جنگ ہوئی تو ہم اس کے نتائج دیکھنے کیلیے مزید 100 سال زندہ نہیں رہیں گے۔
٭٭