... loading ...
وہ کیا ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور موت تک جاری رہتا ہے۔ جو ساری زندگی خوشی اور غم کے لمحات میں انسان کا ساتھ نبھاتا ہے۔ جواب ہے آنسو۔۔ آنسو ہمارے انسان ہونے کی روشن دلیل ہے۔بچہ پیداہوتا ہے تو روتا ہے اور موت پر کون سی آنکھ ہے جو نم نہیں ہوتی۔ رونا ہماری دنیا کے ساتھ کمیونی کیشن کی اولین شکل ہے۔ ہم اپنی پیدائش کے ابتدائی چند ہفتوں اور مہینوں میں اپنی بنیادی ضروریات کے لیے روتے ہیں۔ بچے کوبھوک لگے، نیند آ رہی ہو، گند ہ ہوگیا ہو یا کوئی بہت باتونی شخص پاس ہو، بچے روتے ہیں تا کہ ماں یا کوئی نگرانی کرنے والا ان کا مسئلہ حل کردے۔ بچے جب بڑے ہونے لگتے ہیں تو اپنی بات اور خواہشات کو منوانے کی خاطر رونے کا طریقہ بھی بدلتا جاتا ہے ۔ان کے رونے کی آواز کی شدت، پچ اور رونے کا دورانیہ بدلتا رہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے دس ماہ کی عمر تک اپنے رونے کا مقصد بدلنا سیکھ لیتے ہیں، اس عمر میں چیزیں مانگنے کے علاوہ وہ دوسرے مقاصد حاصل کرنے اور متوجہ کرنے کے لیے بھی رونا سیکھ جاتے ہیں۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں زیاد ہ رونا آتا ہے۔ ویسے ماہرین یہ نہ بھی بتاتے تو ہم سب ہی اس بات سے آگاہ ہیں کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ روتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق بچپن کے اختتام تک لڑکے لڑکیاں ایک جتنا ہی روتے ہیں، پھر جیسے جیسے ان کے ہارمونز کی بڑھوتری ہوتی ہے ،لڑکوں کے ٹیسٹوسٹیرون میں اضافے کے ساتھ ان کے رونے میں بھاری پن آجاتا ہے۔ لڑکیوں کی ابتدائی بلوغت کی عمر میں ایسٹروجن کے اضافے سے اس کے برعکس ہوتا ہے، لڑکیوں میں رونے کا عمل خاص طور پر دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ پروٹین پرولیکٹن اور دودھ بنانے کے عمل کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو کہ صرف عورتوں میں ہی ہوتا ہے اسی وجہ سے عورتیں مردوں سے چار گنا زیادہ روتی ہیں۔ویسے رونے کی بات آنسو ؤں کے بغیر نا مکمل ہے ماہرین نے آنسوؤں کی تین اقسام بتائی ہیں۔ نمبر ایک، آنکھ کو تر رکھنے والے آنسو۔ یہ آنسو کے غدود ہماری آ نکھوں میں مسلسل نمی پیدا کرتے ہیں جس سے ہماری آنکھیں محفوظ رہتی ہیں اور خشک نہیں ہوتیں۔یہ نمی ہماری بینائی کو بھی بہتر بناتی ہے۔ہر بار جب ہم پلک جھپکتے ہیں، یہ نمی ہماری آنکھوں میں پھیل جاتی ہے۔ دوسری قسم ہے ،ردِعمل کے آنسو۔ اِس طرح کے آنسو اُس وقت ہماری آنکھوں میں آتے ہیں جب اِن میں کوئی چیز چلی جاتی ہے۔یہ آنسو جمائی لیتے اور ہنستے وقت بھی ہماری آنکھوں میں آ جاتے ہیں۔ آنسوؤں کی تیسری قسم ہے،جذباتی آنسو۔ یہ آنسو صرف اِنسانوں کی آنکھوں میں آتے ہیں۔ جب ہم بہت جذباتی ہوتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ردِعمل کے آنسوؤں کی نسبت اِن آنسوؤں میں 24 فیصد زیادہ پروٹین پایا جاتا ہے۔رونے کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو،یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کچھ کہے بغیر ہی دوسرے ہماری بات سمجھ جاتے ہیں۔ آنسو ایک شخص میں کچھ کرنے کی ترغیب بھی پیدا کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی بات پر دُکھی ہو کر روتا ہے تو زیادہ تر لوگوں کے دل پر اُس شخص کے آنسوؤں کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں احساس ہو جاتا ہے کہ رونے والا شخص کسی تکلیف میں ہے۔ اِس کے نتیجے میں شاید وہ اُس کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں یا اْس کی مدد کرتے ہیں۔ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ رونا بہت فائدہ مند عمل ہے کیونکہ اِس طرح ہمارا دل ہلکا ہو جاتا ہے لیکن جو لوگ اکثر اپنے آنسوؤں کو روک لیتے ہیں،اُن کی صحت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے جائزوں کے مطابق85 فیصد عورتوں اور73فیصد آدمیوں نے رونے کے بعد خود کو بہت ہلکاپھلکا محسوس کِیا۔ کچھ خواتین کا کہنا ہے کبھی کبھی وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے رو لیتی ہیں۔ رونے کے بعد وہ ایک گہری سانس لیتی ہیں اور پھرکسی بھی معاملے کو صحیح زاویے سے دیکھنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ ویسے محض رونے سے ہی دل کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا۔ ہمارے رونے پر لوگ جس طرح کا ردِعمل دِکھاتے ہیں، وہ بھی بہت معنی رکھتا ہے۔مثال کے طور پر جب لوگ روتا دیکھ کر ہمیں تسلی دیتے ہیں یا ہماری مدد کرتے ہیں تو ہمیں بہت سکون ملتا ہے۔۔ توکیا خیال ہے غلام علی کی گائی ہوئی غزل چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے، سن لی جائے؟ شاید اس طرح کچھ لوگوں کے دل سکون سے بھر جائیں یا شاید یاد کا کانٹا مزید شدت سے چبھنے لگے۔ ویسے کانٹا چبھے گا تو رونا بھی آئے گا۔ پھر ہم گائیں گے، جا دل کی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا۔
٭٭