... loading ...
یہودیوں کے مزید تذکرے سے پہلے مونٹی کی بڑی بہن کا ذکر کرلیں۔ان کا نام بھی امریکی حلقوم کے لیے مشکل ہے یعنی منہائل منتظر۔گھر میں سب انہیں مینو پکارتے ہیں۔گجرات اور راجھستان کے لوگ جن کی عزت کریں، اُن کے نام میں بائی لگاتے ہیں مگر اہل گجرات گھر انے کی جس خاتون کو پیار اور جس کا احترام کرتے ہیں اس کے نام کے آخر میں عمر سے قطع نظر ـ’’ماں‘‘ کا اضافہ کردیتے ہیں ۔اس لیے مہنائل منتظر کو ان کے جان پہچان والے ہی نہیں امریکی بھی ڈاکٹر مینو ماں پکارتے ہیں۔
مینو ماں جلد کی ڈاکٹر ہیں۔کاسمیٹک سرجری کی ایک فیلڈ ’’Body Contouring‘‘ اور اس میں Cool Sclupting کی وہ ماہر ہیں۔مردوں کی جیب کے لیے یہ بھلے قضا(تقدیر) کے فیصلے ہوں مگر خواتین انہیں Elective Procedure مان کر تقدیر سے لڑتی رہتی ہیں۔۔ماڈل گیگی حدید،کرن جیت کور المعروف بہ سنی لیون اور قطرینہ کیف جب اپنے خط و خال سے اندرونی طور پر ناآسودہ رہتی ہیں تو امریکا کی ڈورتھی پارکر ، احمد آباد کی بملابھابھی اور باقر آباد ،ملتان کی شہنیلا خاکوانی (بے چاری کس شمار میں آتی ہیں)باتھ روم میں قد آدم آئینہ دیکھتی ہیں ، دھکا دھک جلتی ہیں، بے شمار جلتی ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لیے طمانچہ مار کر منھ لال رکھتی ہیں۔ہندوستان پاکستان میں چونکہ ساڑھی کے علاوہ کوئی اور لباس نسوانی جسم کے ساتھ مل کر خطوط کا جشن نہیں مناتا لہذا جسم کے خطوط کی آویزش اور نمائش کا ایسا اہتمام نہیں کیا جاتا مگر امریکا اور دیگر ممالک میں ایسی دل گرفتہ خواتین کی تعداد کثیر ہے جو اپنی جسمانی حدود کی تجاوازات سے بہت ناآسودہ ہیں۔ڈاکٹر مینوماں ان حسین دکھیاریوں کی مسیحا ہیں۔دو ہم پیشہ دوستوں نے اپنا جہاز لے رکھا ہے۔ اُڑتی پھرتی ہیں ۔دوسری دوست کو قبول ِ اسلام کی سعادت ا نہی کے ذریعے نصیب ہوئی۔امریکا کی چار ریاستوں میں کلینک ہیں، وہیں تقسیم ِحسن کا ٹھیلا لگاتی ہیں۔ دونوں مسلمان ہیں ۔امریکا میں جلد سے متعلق معالجے پر یہودیوں کی اجارہ داری ہے۔بہت مشکل سے کسی اور کو اس فیلڈ میں آنے دیتے ہیں۔یہ ٹھنڈا ٹھار کام ہے۔جلد میں کوئی ایمرجنسی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ خارش ہو سکتی ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اینٹی ایلرجی گولی دے کر مریض کو گجراتی محاروے میں بستر بھے گی کردو( سلادو)،کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
مینو ماں جب کیلی فورنیا کی مشہور میڈیکل یونیورسٹی میں طب کی تعلیم لے رہی تھیں۔ان کے جی میں نہ جانے کیا سمائی کہ وہ اختیاری مضمون میں بدھ مت لے بیٹھیں۔انہیں لگا کہ ہر شہرت اور کامیابی کے متلاشی نوجوان اداکار جب ہالی ووڈ پہنچتے ہیں تو لازم نہیں کہ ان میں سے کامیابی ہر کسی کو مل جائے۔ بکھرے ہوئے خوابوں سے مایو س کئی ناکام اداکار نوجوان لڑکے تو کسی نہ کسی پیشے سے جڑ جاتے ہیں مگر اپنی اس کھوج میں لڑکیاں بہت بُری طرح ٹوٹ جاتی ہیں۔ اکثر منشیات کا سہارا لیتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ناکامی کے اس سفر میں ان کے مذہب نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور اب انہیں سکون کی تلاش میں نروان حاصل کرنے کے لیے بدھ مت کا سہارا لینا چاہئے۔
امریکا میں چونکہ چین کی تبت سے متعلق پالیسی کی مخالفت کو بہت پہلے سے پزیرائی حاصل ہوچکی ہے، اس معاندانہ پالیسی کے سب سے بڑے سرخیل دلائی لامہ ہیں۔
وہ 14 ویں اوتار ہیں۔ان کا تعلق بدھ ازم کے جس نئے روپ سے ہے ،اُسے Gelug ’’یعنی’’ پیلی ٹوپی والا‘‘ بدھ ازم کہتے ہیں ۔ انگریزی زبان پر عبور،ان کی اپنی مارکیٹنگ صلاحیتوں اور بھارت نواز لابی کی وجہ سے انہیں میڈیا پر بہت پزیرائی ملی چکی ہے ۔دلائی لامہ کا شمار دنیا کی بہت اہم شخصیات میں ہوتا ہے ۔ زندگی کی ہما ہمی سے مایوس اور انتشار ذات کے شکار ان نوجوانوں کا پہلا پڑائو بھارت کا پہاڑی مقام دارجلینگ میں ہوتا ہے۔جہاں ایک عرصے سے دلائی لامہ نے پڑائو ڈالا ہوا ہے۔امریکی عوام کی سوچ پر میڈیا ایک جنونی غلبہ رکھتا ہے ۔بھارت کے حوالے سے ابھی تک وہاں ہرے راما ہرے کرشنا موومنٹ اور ان کی موسیقی کو بھی بڑا دخل ہے اور اسی کی دہائی سے اسلام اور مسلمان مسلسل کبھی فلسطینی تنظیم کے روپ میں تو کبھی ایرانی طالبان اور سر دست افغانیوں اور القاعدہ کی وجہ سے بہت منفی انداز میں پیش کیے جاتے رہے ہیں اور نصف صدی سے اس کا پروپیگنڈا اب امریکا میں ایک طرح سے عوام کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے ۔مینوں ماں کے اختیاری مضمون میں بدھ مت کی وجہ سے ان کی یونیورسٹی کو دو اہتمام کرنے پڑے۔ ایک تو یونیورسٹی کی جانب سے انہیں اس مضمون کی وجہ سے باہر کسی اور جگہ تعلیم کے لیے آنے جانے کی ٹرانسپورٹ ملتی تھی۔ ان کا ایک پروفیسر جو مینو ماں کے اس غیر معمولی انتخاب سے بہت متاثر تھا، اس نے اپنا رسوخ چلا کر دلائی لامہ کے پاس تعطیلات گزارنے اور بدھ مت کا مطالعہ اور مشاہد ہ کرنے کے لیے انہیں دھرم سالہ دارجلینگ ،بھارت بھجوادیا۔ ڈاکٹر مینو ماں سلپ کے مشاق فیلڈر کی طرح علاج معالجے ، دعوتوں اور دیگر سماجی تقریبات میں ایسی خواتین کو بہت سلیقے سے دین اسلام کی دعوت دیتی ہیں جو عیسائیت سے ناامید ہوکر بدھ مت کی طرف لڑھک رہی ہوں۔ان کا دامن جھاڑ ، بانہیں تھامے، دامے درمے، سخنے انہیں بہت احسن طریقے سے اللہ کا سچا راستہ دین اسلام دکھاتی ہیں۔ڈاکٹر مینوماں کے پاس پرنسٹن یونیورسٹی سے تقابلی مذاہب کی ڈگری بھی ہے ۔وہاں ان کی ہم جماعت دنیا کی مشہور گلوکارہ شکیرہ بھی تھی۔دونوں کی آپس میں بہت دوستی ہے۔اسے بھی کڑھی اور باجرہ کی اصلی گھی والی روٹی بہت پسند ہے مگر رانڈ کڑھی (راجھستان والوں کی زبان میں بیوہ کڑھی) نہیںجس میں پکوڑے نہیں ڈالے جاتے۔
پانچ دن قیام میں ڈاکٹرمینو ماں سے، مونٹی کی والدہ سے اور خود مونٹی سے سفیرہ اور تلوری کی بہت گپ شپ رہی۔ان مذاکرات کو اگر سمیٹ کر نکات میں ڈھالا جائے تو تاثر اتی بورڈ کچھ یوں بنتا ہے کہ :
٭یہودی موت سے بہت ڈرتے ہیں۔کسی قیمت اس دنیا کو چھوڑنا نہیں چاہتے ۔موت کا تذکرہ ہو تو خوف سے پیلے پڑجاتے ہیں۔ دنیا سے اس جنونی محبت کا احوال قرآن الکریم کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 96میں ملتا ہے۔
٭ دنیا کی اس محبت کو انہوں نے Strategise کیا ہوا ہے۔اس دنیا میں کنٹرول دلانے والے ہر شعبے پر ان کا راج ہے جیسے مالیاتی ادارے،خفیہ ایجنسیاں،میڈیا، فن اور فلم، سائنس اور تحقیق،کمپیوٹر سے متعلق اکثر معاملات۔
٭تنازعات کی صورت میں یہودی خود سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان سب کو کسی ایک طرف کا ہوکر نہیں رہ جانا،سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے۔کم از کم تین گروپ ہر وقت کسی بھی ایشو کے گرد منڈلاتے رہنے چاہئے ۔ایک گروپ مخالفت ،ایک موافقت اور تیسرا کبھی ہاں کبھی نہ کرتا رہے ،تاکہ آخری فیصلہ کرتے وقت کوئی نکتہ ان کے دائرہ عمل سے باہر نہ رہ جائے۔
٭یہودی مائیں دوران حمل اس کا اہتمام کرتی ہیں کہ وہ اپنے حساب سے پیٹ میں موجود بچے کواس کے آئندہ کیرئیر یا دلچسپی سے مکمل طور پر روشناس ہونے کا موقع دیں۔وہ اگر موسیقار بنانا چاہتی ہیں تو شب و روز میں مخصوص ساز بجانے یا موسیقی سننے کا خصوصی اہتمام ہوگا۔مونٹی نے سفیرہ سے پوچھا کہ اگر حاملہ ماں کی ہی خواہش ہو کہ پیٹ کا بچہ آئندہ چل کر سیاست دان بنے تو وہ پھر کیا کرتی ہے۔ تلوری کہنے لگی ایسی صورت میں وہ سسرال والوں سے لڑائی کرتی ہے۔ کہیں ملازم ہو تو باس سے بہانے بازی کرتی ہے اور بچے کے باپ کے پیسے کھل کر چراتی ہے۔جس کی وجہ سے بچہ مکمل طور پر لڑاکو اور مال بنائو بن جاتا ہے۔ڈاکٹر مینو ماں کہنے لگیں کہ دو تین دن پہلے کوئی پاکستانی سفارت کار دعوت میں بتا رہا تھا کہ ایسے لوگوں کو اب پاکستان میں پاناما پرسن کہتے ہیں۔ تلوری کہنے لگی کہ ماں اگر یہ چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا فیس بک کا مالک مارک زکر برگ بنے تو وہ بڑی باقاعدگی سے فیس بک پر اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہے۔
٭ہم اپنے ربائی(مذہبی عالم) اپنے اعلیٰ ترین اور سب سے ذہین افراد کو بناتے ہیں۔شرط یہ ہے کہ ایسے عالم کی ماں بھی یہودی ہو۔میری دوست(سفیرہ کی) ڈاکٹر سارہ لیوی کا میاں ربائی بننا چاہتا تھا۔ خود ہارورڈ سے ایم بی اے تھا مگر والدہ غیر یہودی تھیں۔اسے ربائی بننے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ ہمارےsynagogue میں ایک مدرسہ ہوتا ہے جسے ہم beth midrash دار العلوم کہتے ہے۔ وہ کسی نہ کسی جامعہ سے اپنے لیے پہلے دنیاوی تعلیم کے کسی شعبے کی ڈگری لیتا ہے پھر اسے ربائی بنایا جاتا ہے۔ہمارے اکثر ربائی قرآن اور بائبل کی تعلیم بھی حاصل لیتے ہیں۔ اکثر تو عربی بھی بہت روانی سے لکھ ، پڑھ اور بول سکتے ہیں۔انہیں نفسیات بالخصوصAnger- Management کی بھی خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔ان کی گفتگو ہمیشہ بہت مدلل اور مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔آپ کتنی بھی سخت اور بے ہودہ بات ان سے کرلیں انہیں طیش نہیں آئے گا۔
٭ہمارے ہاں تاریخ کا ایک عجب شعور ہے اور ہم اپنے آپ کو مسلمانوں کی طرح اللہ کی منتخب قوم سمجھتے ہیں۔آپ بھی اپنے مسلمانوں کو خیر الامت کہتے ہیں۔دنیا پر آپ بھی قبضے کا خواب دیکھتے ہیں مگر ہم اس مقصد کے لیے جہاد کے بجائے ان شعبوں کا کنٹرول کرتے ہیں جو جدید دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔نہ ہمارانام بدلا ہے، نہ وطن،نہ زبان یہ سب اسرائیل سے وابستہ ہیں۔جب فلسطین ہمارے قبضے میں نہیں تھا تو ہمارا الوداعی سلام یہ ہوتا کہ ’’ اگلے برس یروشلم میں ملاقات ہوگی‘‘۔روتھ شیلڈ، راک فیلر،فیس بک والے، اوریکل والے لارنس ایلی سن، دنیائے مالیات کو اُتھل پتھل کردینے والے جارج سوروس ، ڈیل کمپیوٹر کے مالک مائیکل ڈیل،یورپ کے سب سے بڑے پرائیوٹ بنک الفا کے مالک مائیکل فرڈمن،گولڈمن شاکس کے مالک پالسن، سب سے مالدار رومن ابراموچ ، نیویارک کے سابق مئیر مائیکل بلوم برگ جو سولمن برادرز کے مالک ہیں، گوگل کے لیری پیج کے مشترکہ مالک سرجی برن یہ سب ہی یہودی ہیں۔ہمارے جس نام کے آخر میں سن،برگ یا مین آئے سمجھ لیجئے یہ یہودی ہے۔ان معلومات کی روشنی میں امید ہے آپ کو دنیا میں یہودیوں کے جاہ و اختیار سے کچھ آشنائی ہوجائے گی۔
سفیرہ کو تو ایک دفعہ اور کیلی فورنیا جانا پڑا کہ اس کی والدہ بھی ال یاہ کرنا چاہتی تھیں۔اسرائیل نے سن پچاس سے دنیا بھر کے یہودیوں کی آباد کاری ال یاہ( ہجرت) کا بندوبست کررکھا ہے۔جب تک دنیا بھر سے یہودی آن کر اسرائیل میں آباد نہیں ہوں گے تب تک ہم جسے دجال کہتے ہیں، عیسائی جسے اینٹی کرائسٹ کہتے ہیں اور یہودی جسے مسیحا ابن دائود کہتے ہیں کہ وہ حضرت دائود علیہ السلام کی نسل سے ہوگا ۔وہی ہیکل سلیمانی کی تیسری مرتبہ تعمیر کرے گا۔ساری دنیا پر یہودی راج قائم ہوگا ۔تلمود کی شریعت (Sanhedrin) نافذ ہوگی۔سفیرہ کے جانے کے دو دن بعد تلوری نے بھی اسرائیل واپس جانے کے لیے اڑان بھری۔ مونٹی کی والدہ نے اسے بہت سے تحفے دیے۔ان کے گھر کے پاس ان کے دل جتنے بڑے اسٹور تھے۔مونٹی اسے چھوڑنے ہوائی اڈے پر آیا لائونج میں داخل ہونے سے پہلے وقت رخصت آنکھ بھر آئی تو مونٹی نے جیب سے تہہ کیا ہوا صاف ٹشو پیپر آنسو صاف کرنے کے لیے نکالا۔ تلوری نے وہ چھین کر قریبی ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور مونٹی سے کہنے لگی کہ آنسو پونچھنے ہو تو ان پاکیزہ انگلیوں سے پوچھو۔میں اندر سے دہریہ ہوں مگر جب تم تہجد کے لیے اٹھ کر سجادے پر بیٹھ کر ان انگلیوں پر ذکر کرتے تھے،میں کمبل کے ایک کونے سے تمہیں چپ چاپ تکتی رہتی تھی۔ مجھے تم سے پیار ہوگیا ہے۔میری والدہ مان گئیں تو میں چھ ماہ میں واپس آن کر تم سے شادی کرلوں گی۔ اس دوران میں ہم ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں کریں گے۔میرا انتظار کرنا۔مونٹی میاں اس کے منتظر ہیں۔ عشق کی اس واردات کو اس ماہ کا آخر ہوگا تو ایک ماہ پورا ہوجائے گا۔ہم بھی منتظر ہیں کہ مونٹی میاں اور تلوری کے مٹھے چاول وارلڈوف ایسٹروریا ہوٹل میںجو اب چینیوں نے خرید لیا ہے ،اس میں دعوت ولیمہ کھائیں۔(واضح رہے کہ تمام کرداروں کے نام فرضی اور واقعات اصلی ہیں)