وجود

... loading ...

وجود

ہوائی ٹھیکیداری

جمعرات 16 فروری 2017 ہوائی ٹھیکیداری

ٹھیکے داری نظام میں آسانی یہ ہے کہ آپ خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کوئی اور آپ کی جگہ کام انتظام سنبھال لے۔ انتظامی اور سرکاری معاملات میں تو اور بھی مزے ہیں ۔آپ ٹھیکیدار سے کچھ کمیشن پکڑیں اور عوام کو نچوڑنے کا کام ٹھیکے دار کے سپرد کردیں۔ ٹھیکیدار نے پہلے جو کمیشن دیا ‘وہ پیسے پورے کرے گا پھر ٹھیکے کے پیسے پورے کرے گا اور اس کے بعد اپنی جیبیں بھرنا شروع کرے گا اور بھرتا ہی چلا جائے گا۔ وطن عزیز میں تو لگتا ہے سب کچھ ٹھیکیداری نظام کے تحت چل رہا ہے بلکہ شاید پورا ملک ہی ٹھیکے پر چل رہاہے۔ کچرا اٹھانے کا اور پارکنگ کا ٹھیکہ تو کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ چلیں بس اڈے بھی ٹھیکے دار کے حوالے کردیں کوئی بات نہیں ،لیکن یہاں تو ہوائی اڈے تک ٹھیکے پر دینے کی بات ہو رہی ہے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعدملک کے تین بڑے ہوائی اڈے ٹھیکے پر دینے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے بین الاقوامی کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کی گئی ہیں۔ حکومت کو شاید اندازہ ہو گیا ہے کہ ہوائی اڈوں جیسے بڑے عوامی مقامات کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی اس کے بس کا روگ نہیں ۔اس لیے بیرون ملک کی کسی کمپنی کو ہوائی اڈے ٹھیکے پر دے دو اور خود چین کی بنسی بجاؤ، چین کو چائناوالا چین نہ سمجھا جائے‘ ویسے چائنا کی اپنی ٹھیکیداری ہے جو خوب خوب چل رہی ہے۔ حکومت کے بڑے بڑے دماغ یہ سمجھتے ہیں کہ ہوائی اڈے ٹھیکے پر دینے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس اقدام سے جہاں سرکاری خزانے کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے گا وہیں بڑے ہوائی اڈوں کا معیار اور انتظام بھی بین الاقوامی نوعیت کا ہوجائے گا۔ یعنی کراچی ایئر پورٹ پر جو قدیمیت، یاسیت اور سوگواری کی سی فضا چھائی رہتی ہے ‘وہ دبئی کے ہوائی اڈے کی طرح رنگوں‘ جدیدیت اور زندگی سے بھر پور ہو جائے گی۔ وفاقی حکومت نے اپنے فیصلے میں یقینی طور پر مالی اور انتظامی حکمت پیش نظر رکھی ہو گی مگر ہوا ئی اڈوںکی نجکاری یا ان کا انتظام کسی بین الاقوامی کمپنی کے حوالے کرنے میں قومی سلامتی ایک اہم نکتہ ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ ایک طرف اقتصادی میدان میں حکومت کی کاوشوں کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے اور دوسری جانب اس طرح کے عجلت پسندی کے اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اقدامات سے ملک میں اور بیرون ملک حکومت کی کوئی نیک نامی نہیں ہوگی۔
ایئرپورٹ کسی ملک کے انتہائی حساس مقامات میں شامل ہیں ،جن کا ملکی سلامتی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہوائی اڈوں پر مواصلاتی نظام اورحساس آلات بھی نصب ہوتے ہیں ملک میں آنے جانے والی اہم شخصیات کی آمدو رفت بھی ان ہی کے ذریعے ہوتی ہے ،اس لیے بہتر تو یہ ہوگا کہ اگر کسی انتظامی ضرورت کے تحت ایئرپورٹس کو ٹھیکے پر دینا ضروری بھی ہے تو حکومت بین الاقوامی کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کرنے کے بجائے ملکی کمپنیوں کو ترجیح دے۔ اگر کوئی ایک کمپنی ہوائی اڈوں کے تمام امور پر عبور نہ رکھتی ہو تو ان ٹھیکوں کو تقسیم کیا جاسکتاہے۔ پورا ایئرپورٹ کسی ایک کمپنی کے حوالے کرنے کے بجائے اس کے مختلف امور ٹھیکے پر دے دیے جائیں ۔مثلا ًعمومی کاموں کانتظام علیحدہ کمپنیوں کو دیا جائے اور ٹیکنیکل کام دوسری کمپنیوں کو دے دیا جائے۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ نجکاری یا ٹھیکیداری ‘دونوں صورتوں میں سول ایوی ایشن کے ملازمین کا مستقبل محفوظ بنایاجائے کیونکہ ریاست کا کام ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرنا بھی ہوتا ہے۔ ٹھیکے دار کمپنیوں کو اس بات کا پابند بھی بنایا جائے کہ وہ مسافروں کو بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ ہمارے ایئرپورٹس کسی طور عالمی معیار کے نہیں لگتے ،اس لیے اگر انہیں ٹھیکیداری نظام کے تحت کرنے سے ان کا اور عوام کا کچھ بھلا ہو جائے تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں لیکن جو بھی ہو وہ ملکی قوانین کے تحت اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر