... loading ...
ٓٓآج کل ذرائع ابلاغ پرنفرت پھیلانے کے الزامات کا بہت دور دورہ ہے۔ عامر لیاقت حسین پر الزام لگ رہے ہیں اور وہ عدالت اور اسکرین پر ان الزامات کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ الزام لگانے والوں پرجوابی حملے بھی کر رہے ہیں۔ معاملات اب عدالت میں ہیں، اس لئے مناسب یہی ہے کہ عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جائے اور عدالتی فیصلوں کی اپنی توضیح اور تشریح کرنے سے احتراز کیا جائے۔
یہ تو ذرائع ابلاغ میںہے ،لیکن باقی جگہوں پر کیا ہورہا ہے؟ ذرا اس پر نظر ڈال لیں تو مناسب ہوگا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں بس کچھ لوگوں کے پاس سرٹیفکیٹ دینے کا حق آ گیا ہے۔ ایک معاصر ٹی وی پر ایک صاحب جو بات بات پر خود کو سکہ بند صحافی قرار دیتے پائے جا تے ہیں، وہ ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف زہر اگلتے پائے جارہے تھے ۔ گزشتہ بدھ کے روز سعودیہ کے اخبار سعودی گزٹ میں چھپنے والی ایک خبر ان کے ہاتھ میں تھی۔ جس کو وہ بار بار لہرا کر (بقول ان کے اپنے ) سیاپا کرتے پائے جارہے تھے کہ سعودی عرب سے گزشہ چار ماہ کے دوران میں ۹۳ ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کردیا گیاہے۔ موصوف نے اس خبر میں بیان کیے گئے تمام دیگرتمام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے زور ان دو فقروں پر رکھا کہ ”پاکستان سے روزگار کی تلاش میں آنے والے افراد کے مذہبی رحجانات کاپیشگی علم دونوں طرف کے حکام کو ہونا چاہیے“۔
یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے، کوئی ایک سال قبل سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے لئے یہ قانون متعارف کرایا گیا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک سے آنے والے افراد کو کہا جائے کہ وہ اُسی نوکری پر واپس جائیں جس کے لئے وہ اپنے ملک سے ویزہ حاصل کرکے سعودی عرب پہنچے تھے۔ اس سے سعودی عرب میں موجود ان لاکھوں افراد میں میں کھلبلی سی مچ گئی کیوں کہ ان میں سے بہت سے لوگ ان عہدوں یا جگہوں پر کام نہیں کر رہے تھے، جن کے لئے وہ ویزے لے کر پہنچے تھے۔ وہاں پر اگر کوئی ڈرائیور کے ویزے پر گیا تھا اور اس نے وہاں پر جا کر بیرا گیری شروع کر دی تھی تو اس کے کے لئے یہ مشکل امر تھا۔ معاملہ اٹھا، حکومت پاکستان اس میں دخیل ہوئی ، درخواست کی گئی اور سعودی حکومت نے یہ نرمی برتی کہ سعودیہ میں مقیم لوگ اپنا اسٹیٹس ، اپنے کفیل کی مدد سے تبدیل کرلیں۔ سعودیہ میں پاکستان کے سفارت خانے نے وہاں پر پاکستانی کمیونٹی کی مدد سے اپنے لوگوں کے لئے شہر شہر روزگار میلے منعقد کیے جہاں پر ایسے افراد کو ، جن کو ان کی نوکریوں سے جواب مل گیا تھایا اس کا خطرہ تھا، ان میں بیشتر کو یا تو نئی جگہوں پر تعینات کرایا گیا یا ان کا ا سٹیٹس تبدیل کروا دیا گیا۔
اس پورے عمل میں ایک طریقہ¿ کار یہ بھی تھا کہ وہ پاکستانی نئی نوکری کے معاہدے پر دستخط کریں، پاکستان واپس جائیں، اورتین ماہ کے بعد نئے کفیل کے زیر انتظام واپس نئی نوکری پر واپس آ جائیں۔ یوں ہزاروں افراد جو کئی کئی سال سے سعودیہ میں مقیم تھے ان کو واپس آنے اور اپنے اپنے خاندان کے ساتھ تین تین چار چار ماہ گزارنے کا موقع بھی مل گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان واپس آ کر پھر جانے والے افراد کو شامل کرکے گنا جائے تو گنتی اتنی ہی بنتی ہے جتنی اس خبر میں بیان کی گئی ہے۔ ہمارے اپنے عزیزوں میں سے کچھ اس مرحلے سے ہنسی خوشی گزرے اس لئے ہم زیادہ اعتماد سے اس پر بات کر سکتے ہیں۔
سیاپا فروش کے پروگرام کے وقفے کے دوران ہی حکومت پاکستان کی طرف سے یہ وضاحت بھی آ گئی کہ یہ تعداد (حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق) محض نو ہزار ہے ، اور ان نو ہزار لوگوں کے بارے میں بھی سعودی حکومت کی طرف سے ہمدردانہ غور کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پیشہ ورانہ صحافت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس انتالیس ہزار والے ہندسے سے رجوع کر لیا جاتا یا پھر اس کا صحیح پس منظر بیان کیا جاتا لیکن موصوف نے اگلے دن بھی پھر ۹۳ ہزار کا سیاپا جاری رکھا ۔یہ صحافیانہ بد دیانتی تھی، جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔
صحافی موصوف ماضی قریب میں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی طرف سے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ہونے والے مجوزہ بیالیس ملکی فوجی اتحادکے بارے میں بھی اسی زبان میں گفتگو کرتے پائے جاتے رہے ہیں۔اسی نوع کے لوگ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدوں کے موقع پر بھی قوم کو طعن و تشنیع کر تے نظر آئے۔ حالاں کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ دن ہمیں ان جیسے نیم صحافیانہ نیم ذمہ دارانہ لوگوں کے اعمال کے باعث ہی دیکھنا نصیب ہوا ہے۔
آج بھی لاہور کے قذافی ا سٹیڈیم کے سامنے سینکڑوں فٹ گڑھا ، النہیان ٹاور کے نہ بن سکنے والی اس عمارت کا ماتم کررہا ہے جو میاں محمد شہباز کی ذاتی انا اور جہالت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کئی سو ارب روپے کے اس سرمایہ کاری منصوبے کے تحت یہاں اماراتی سرمایہ کاری سے تین بلند و بالا عمارتیں بنائی جانی تھیں جن میں سے سب سے بلند عمارت کی اونچائی ۲۷منزلہ تھی۔ اس عمارت سے امرتسر کے گولڈن ٹمپل کا نظارہ ان سکھوں کو کرایا جانا مقصود تھا جو بھارت نہیں جا سکتے تھے، یوں یہاں پر سالانہ نہ صرف ارب ہا ڈالر کا سیاحتی سرمایہ آتا بلکہ ان عمارتوں میں ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کو نوکریاں بھی ملتیں۔ لیکن اس منصوبے کو ختم کرتے ہوئے ان کو بھگا دیا گیا ۔اسی طرح جب ہم نے سعودی عرب سے مالیاتی امداد مانگی اور سعودیوں نے ہمیں اس امداد کے تحت دیڑھ ارب ڈالر بھجوایا تو ان جیسے لوگوں نے اس قدر اودھم مچایا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دیتی تھی۔
اب اگر اس قدر چھترول کے بعد ہمارے روایتی عرب دوست بھارت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ لیکن یہ صاحب روزانہ چموٹہ نکال کر کیوں دوست ممالک کے بارے میں زبان درازی کرنے بیٹھ جاتے ہیں؟
ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے وطیرہ بنا لیا ہے کہ کوئی بھی بات ہو تو سعودی حکومت پر ”راشن پانی “لے کر چڑھائی کر دی جائے ، اور اس قدر طوفانِ بدتمیزی برپا کرتے ہوئے جھوٹ اس قدر بولا جائے کہ لوگوں کو سچ لگنا شروع ہو جائے۔ ایران کے کالے دھن اورا سمگلنگ کے بائیس ارب روپے اگر (خادم علی شاہ بخاری )کے ایس بی بینک سے برآمد ہوجائیں اور ان کی وجہ سے پاکستان پر مالیاتی پابندیاں بھی لگنے لگیں تو ان کی بولتی بند ہو جاتی ہے، اس پر کوئی سیاپانہیں ہوتا۔اس پر ان کی صحافت تیل لینے چلی جاتی ہے۔
٭٭٭