... loading ...
اپنی کوئی بھی پیش گوئی غلط ثابت ہو جائے تو اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور قارئین سے معذرت بھی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ ڈاکٹر قیامت کی طرح اگلے دن نئی پیش گوئی کے ساتھ نیا لچ تلنے پہنچ جایا جائے اور اگر کوئی بے پر کی دستیاب نہ ہو تو اداکارہ میرا کی طرح اداکاری چھوڑنے کا اعلان کرکے ریٹنگزلینے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اس لیے ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری ایک عدد پیش گوئی غلط ثابت ہوچکی ہے۔اس پیش گوئی کا تعلق میں محمد نواز شریف کے ترقیاتی منصوبوں سے تھا۔ ہم نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی ، اور واپڈاکی سرکاری ویب سائیٹس پر دستیاب منصوبوں کی دی گئی مجوزہ تاریخ ہائے تکمیل سے یہ اندازہ لگایا تھا کہ میاں نواز شریف کے اپنے ہاتھوں شروع ہونے والے بجلی اور سڑکوں کے ترقیاتی منصوبے یا پھر گزشتہ ادوار میں شروع ہونے والے (نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹس جیسے ) ادھورے منصوبے ، مارچ ۲۰۱۷ سے تکمیل کے ابتدائی زینے چڑھنا شروع کریں گے ، اور یوں میاں محمد نواز شریف روزانہ ان کے افتتاح کا ’مجمع ‘ لگا کر اپنی ترقی کی معجون بیچا کریں گے اور ان کے متاثرین اس مجمع پر جمہوریت کی تال پردھمال ڈالا کریں گے۔ ذرائع ابلاغ کے لیے ان منصوبوں کے اشتہارات کے منہ کھول دئیے جائیں گے جو دن رات یہ بتایا کریں گے کہ کس طرح ان منصوبوں سے ملک بھر میں ترقی کے دریا نہیں بلکہ وہ ندیاں اور برساتی نالے بھی بہہ نکلے ہیں، جہاں کئی دہائیوں سے ترقی کے پانی کا گزر نہیں ہوا تھا۔لیکن ہماری یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو گئی ہے کیوں کہ میاں نواز شریف کی ’اگیتی ‘ ترقی کا سونامی ہمارے اندازے سے قبل ہی اُمڈ آیا ہے اور اب وہ دھڑا دھڑ ، روزانہ کی بنیاد پر، جزوی مکمل یا ادھورے منصوبوں کے دن رات فیتے کاٹنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کا جائزہ لیں تو انہوں نے روزانہ اس طرح کے متعدد منصوبوں کو رونق بخشی ہے اور وہاں پر اپنے ناقدین کو خوب خوب سنائی ہیں۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر ان کو لعن طعن بھی کر ڈالی کہ ہم نے چوں کہ ان ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی تھی اس لیے ان کا افتتاح کرنے کا ’’مزہ‘‘ لینے کا حق بھی ہمارا ہے۔ ہمیں اس موقع پر نہ جانے کیوں بچپن میں سنا وہ مشہور و معروف محاورہ یاد آ گیا جو ہم گلی میں اپنے ’تزویراتی‘ مخالفین کے لیے بولا کرتے تھے۔
راجے راجے کھاندے
بلیاں بلیاں جھاکدیاں
(یعنی جو راجے یا اعلیٰ لوگ ہیں وہ عزت سے بیٹھ کرکھانا کھا رہے ہیں جب کہ بلیاں یعنی مخالفین ان کو حریص نظروں سے دیکھ رہی ہیں)
خبردار کسی نے اس محاورے سے کوئی غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی تو۔ ہم کوئی سپریم کورٹ کے جج تھوڑا ہی ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں ہماری بات کو اپنے معانی و مطالب پہنا کر عوام الناس کو گمراہ کریں۔
میاں صاحب ہماری سیاسی تاریخ کے پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے ہماری ریاست پر ابتدا سے مسلط روایتی ذہنیت (مائنڈ سیٹ) سے بغاوت کرتے ہوئے سیاست کو کشمیر، امریکا ، افغانستان اور اسلام کے روایتی بیانیے سے نکال کر ’ترقی‘ کے بیانیہ کے گرد گھمانے کی کوشش کی۔ نظام کے اندر سے ان کے خلاف شدید بغاوت آئی اور روایتی ذہنیت کے نمائندوں نے دو دفعہ ان کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کیا۔ لیکن یہ ان کی کامیابی ہے کہ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں ترقی ہی وہ واحد بیانیہ تھا جس کی بنا پر انتخاب لڑا گیا ، کسی پارٹی نے کشمیر، افغانستان ، امریکا اور اسلام کو اپنے انتخابی نعرے کی صورت میں سامنے لانے کا تکلف نہیں برتا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں رو بہ عمل مٹھی بھر افراد ، جنہیں اسلام اور پاکستان کے علاقائی کردار و سلامتی سے خدا واسطے کا بیر ہے، وہ میاں نوازشریف کی بلائیں لیتے اور ان کے صدقے واری جاتے پائے جاتے ہیں۔
میاں صاحب نے نوے کی دہائی میں اقتدار کی نورا کشتی میں دو دفعہ چت ہونے کے بعد ایک نتیجہ اخذ کیا کہ کام ہونا چاہیے خواہ اس کی جتنی بھی لاگت آ جائے ، اس لیے میاں صاحب جب بھی برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے بجٹ، آڈٹ، نگرانی جیسی قباحتوں کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا جس بناء پر ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگے اور بے شمار لگے اور اب یہی معاملات ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے زیر سماعت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کے ادوار میں ترقیاتی منصوبوں کی قیمتیں کم ازکم تین گنا تک چلی گئیں لیکن ان کے پیشِ نظر واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ کتنی جلدی مکمل ہوتا ہے۔ دیامیر بھاشا اس کی سب سے اعلیٰ مثال ہے کہ کس طرح مخصوص ذہنیت کے لوگ دیامیر ڈیم کا پاؤر ہاؤس گھسیٹ کر بھاشا (کے پی کے) کے مقام پر لے گئے تا کہ دیامیر ڈیم کو دیامیر بھاشا ڈیم ثابت کیا جا سکے ،جس سے اس چار ارب ڈالر مالیت کے منصوبے کی مالیت انیس ارب ڈالر تک چلی گئی ہے اور اس کے بارے میں پیپلز پارٹی دور میں فتویٰ بھی آگیا کہ اس کا ’مالیاتی جواز‘ (اکنامک فزیبیلیٹی) نہیں بن پارہی اور یوں سندھ کی پارٹی کو اسے ڈیم کو پیچھے دھکیلنے کا موقع بھی مل گیا۔ اُس وقت واپڈا پر مسلط ایک بیوروکریٹ شکیل درانی نے بھی اس میں مزید گند ڈالا اور یوں یہ مہینوں میں مکمل ہونے والا منصوبہ دہائیوں تک پھیل چکا ہے۔ لیکن ڈاکٹر شمس الملک جیسے محب وطن چیخ چیخ کہہ رہے ہیں کہ بھارت سے اگر پانی چوری کا مقدمہ جیتنا ہے تو اس منصوبے کو اصل اونچائی تک لایا جائے تو یہ پانچ ارب ڈالر میں اگلے چار سالوں میں مکمل ہوسکتا ہے، لیکن کے پی کے ہر صورت میں اس سے بجلی کی رائلٹی لینا چاہتا ہے اس لیے اس کو زلزلے کی فالٹ لائن پر لے جایا جا چکا ہے، اور دیامیر ڈیم کو دیامیر بھاشا ڈیم رکھنے کی ضد کی جا رہی ہے۔
بہرحال میاں صاحب نے جن منصوبوں کی بنیاد رکھی ، بھلے وہ جتنے بھی مہنگے یا رزائد القیمت ہوں، ان کے افتتاح کا حق میاں نواز شریف کو ہی ہے جو وہ استعمال کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ صحافیوں کو سامنے بٹھا کر اپنے سیاسی مخالفین کو بے نقط سنا بھی رہے ہیں۔ لیکن میاں صاحب سے عرض کرنا تھا کہ انہوں نے انہی صحافیوں کی موجودگی میں اپنی تیسری ٹرم کی ابتدا میں ہی گڈانی پاؤ ر پراجیکٹ کے جس منصوبے کا افتتاح کیا تھا ، اور وہ ان کی گڈ گورننس کے باعث اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ کسی روز گڈانی تشریف لے جا کر اس منصوبے کے مردے کو دفنا ہی آئیں، اور اگر ممکن ہو تو اس منصوبے کے مردے اور دیگر بہت سے ایسے ہی مردوں پر مٹی ڈالنے کے لیے چوہدری شجاعت حسین جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی خدمات حاصل کر لیں ، کیوں کہ مٹی ڈالنے کا جس قدر تجربہ ان کو ہے کسی اور کو نہیں۔ ویسے بھی ق لیگ نامی پارٹی کے باقی سارے رتن تو ان کی کابینہ میں شامل ہو ہی چکے ہیں، تو پھر صرف چوہدری خاندان سے اتنی پرخاش کیوں؟ یہ کام جلدی کر لیں ورنہ چوہدری صاحب اس وقت بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کے سیاسی مردے کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو ڈرتا ورتا بھی کسی سے نہیں ہے۔
٭٭