وجود

... loading ...

وجود

دورِ حاضر میں جہاد سے متعلق غلط فہمیاں

جمعه 10 فروری 2017 دورِ حاضر میں جہاد سے متعلق غلط فہمیاں

جہاد ایک عبادت کا نام ہے قتل و غارتگری کا نہیں ۔قتال فی سبیل اللہ جہاد میں بلا شبہ شامل ہے مگر قتال فی سبیل اللہ کا اعلان( یعنی اعلان جنگ)کرنے کا اختیار ہر مسلمان شہری کو نہیں ہے ۔1948ء یعنی سقوطِ مسجد اقصیٰ کے بعدجہاد ،قتال اور جنگ سے متعلق بعض غلط فہمیاں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ اچھے خاصے لکھے پڑھے بھی ’’غیر شعوری‘‘طور پر ان کے شکار ہو جاتے ہیں جس کے اسباب کا تفصیلی ذکر ایک محدود مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ البتہ چند ایک کے ذکر کے بغیر مسئلے کی تفہیم بھی ممکن نہیں ہے ۔اُمت مسلمہ میں صاحبانِ عزیمت کا معاملہ ہمیشہ روشن رہا ہے۔ یہ طبقہ آخری درجے کے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ’’اسلام کے نام پر‘‘کوئی بھی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جوڑنے کا مکلف اپنے آپ کو تصور کرتے ہیں اور دین کا اصل تصور بھی یہی ہے کہ مسلمان ہر قول و فعل میں رضائے الہٰی کا طالب ہو ۔یہی حال ان کا جنگ میں بھی ہوتا ہے۔ یہ جنگ بھی نمازوں ہی کی طرح اللہ کی رضا کے لیے لڑتے ہیں ۔مگر جنگ اور نماز دونوں ایک ہی چیز نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ روزوں اور حج جیسی کوئی عبادت ہے، اس لیے کہ نماز سے کسی کی جان نہیں جاتی ہے مگر جنگ سے ایک فرد نہیں ہزاروں اور لاکھوں انسان بہ یک وقت مر سکتے ہیں۔ یہی حال روزوں ،حج اور دوسری عبادات کا بھی ہے ۔لہذا جہادوقتال ایک ایسی حساس اور نازک عبادت ہے جن کے شروع کرنے کا اختیار ہر فرد کو نہیں ہو سکتا ہے ۔ مسئلہ فلسطین اور روس کے خلاف افغان جہاد کے بعد پورے عالم اسلام میں گوریلا جہاد کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کشمیر، افغانستان، چیچنیا، شام، عراق، صومالیہ، یمن، مصر، فلپائن اور اب برما میں یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہیں ۔بعض مقامات پر ان چھاپہ مار جنگوں کے متعلق علماء نے فتوے بھی جاری کیے ہیں اور بعض مقامات پر مقامی علماء کے برعکس بیرونی علماء نے ان کے متعلق فتوے جاری کیے ہیں اور بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں کبھی علماء سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی ہے اور ان علاقوں میں تھوڑا بہت دینی لٹریچر پڑھنے والے حضرات نے قاضیوں اور مفتیوں کے لباس خود ہی زیب تن کر کے ’’جہادِ فی سبیل اللہ ‘‘کے فتوے جاری کر دیے ۔
پھر معاملہ اس وقت اور گمبھیر ہو جاتا ہے جب ریاستوں کے برعکس یہ کام بعض تحریکیں،تنظیمیں یا افراد ہاتھ میں لیتے ہیں۔ اس لیے کہ جنگ کا آغازکرنا جتنا مشکل ہوتا ہے اس بھی سو گنا زیادہ دشوار اس کو روک کر بند کرنا ہوتا ہے ۔پھر اگر تمناؤں کے عین مطابق نتائج فلسطین یا کشمیر کی طرح ظاہر نہ ہو یا پھر طول کھینچ لے تو مسئلہ نازک ہی نہیں بلکہ وحشت کا روپ دھار لیتا ہے ۔سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہاد کے آغاز کے لیے مظلومیت ہی کافی ہوتی ہے؟ نہیں بالکل نہیں بلکہ قرآن مقدس نے مظلومین کو ہجرت کی اجازت تو دیدی ہے مگر جنگ چھیڑنے کے لیے ان کے ہمسایہ طاقتوں کو ابھارا ہے جس کی وجہ میرے ناقص فہم کے مطابق صرف یہ ہے کہ دوران جنگ اور ناکامی کی صورت میں ’’بعدِ جنگ‘‘ مظلومین کے لیے تمام تر راستے بند ہو ں گے اور ظالمین انھیں پوری قوت کے ساتھ کچل کر رکھ دیں گے ۔شاید اسی لیے قرآن نے ’’کفو ایدیکم اے مسلمانواپنے ہاتھ روکے رکھو‘‘کہہ کر اپنے آپ کو دعوت تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔صحابہؓ کو نبی کریم ﷺ نے اس پر پورے تیرہ برس تک صبر کرایا اور پھر جب ہجرت کا مرحلہ آیا تو ’’مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت‘‘کو معیار اطاعت قرار دیکر اس کی اہمیت اجاگر فرمائی گئی۔ اب حالات بہت حد تک تبدیل ہوچکے ہیں ۔ہجرت دن بہ دن مشکل بنتی جارہی ہے جس کی مثال برمی مسلمانوں کی ہے جنہیں کوئی بھی ملک اپنے ہاں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے یا ہندوستانی مسلمانوں کی پچیس کروڑ کی آبادی ہی کو لے لیجئے اگر بالفرض ہندوستان میں جہاد کا آغاز کیا جائے اور وہاں کے مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑے تو کونسا ملک اتنے لوگوں کو پناہ دینے کے لیے تیار ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مظلومین کے بجائے یہ کام ہمسایہ ریاستوں کو کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مظلومین کی مدد نہ کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی ہے ۔اب اگر مسلمانوں کی مظلومیت ہی جہاد کے اعلان کے لیے شرط ہوتی تو مصر اور ایران میں کوئی مسلمان صحابہؓ کے دور میں نہیں رہتا تھا بلکہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مقاصد جلیلہ میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچاکر دین قائم کیا جائے ۔
جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ جہاد کا مقصد ایک ایسی پاکیزہ جنگ ہے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے لڑی جائے مگر اس کا آغاز ہر ایرا غیرا نہیں کر سکتا ہے بلکہ اس کا بوجھ خود نبی کریمﷺ نے اٹھا کر یہ ثابت کردیا کہ اعلان جنگ یا اذنِ جنگ حاکم دے گا کوئی عام یا خاص فرد نہیں ۔دورِ حاضر میں یہ کام کشمیر سے لیکر فلسطین تک ریاستوں کے برعکس افراد یا بعض مذہبی تنظیموں نے شروع کر دیا اور جو ریاستیں مدد بھی کرتی ہیں وہ کبھی بھی مدد کرنے کو قبول نہیں کرتی ہے ۔اس غیر سرکاری بلا اعلان جنگ چھیڑنے کے لیے بطورِ دلیل حضورنبی کریم ﷺ کے دو محترم صحابہؓ حضرت ابوجندلؓ اور حضرت ابو بصیرؓ کے مدینہ سے دور ساحل سمندر پر بیٹھ کر’’ گوریلا طرز کی جنگ مشرکین مکہ کے خلاف چھیڑنا ‘‘ پیش کی جاتی ہے ۔میرے نزدیک یہ دلیل بہت مضبوط ہے اگر چہ بعض علماء اس کو ایک استثنائی واقعہ قرار دیکر بطور حجت قبول کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ میرے خیال میں اس واقعہ سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ چند افراد ’’بلا مکمل تیاری ‘‘کے اتنے بڑے خطرناک کام کا از خودآغاز کر کے امت کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنیں ۔تیاری کیے بغیر جب آپ اس راہ پر چلنا شروع کریں گے تو مخالف ریاست کے معاندانہ ردعمل کے ہی شکار نہیں ہوں گے بلکہ لامتناہی مسائل آپ کو گھیر لیں گے جن کا تدارک مخالف ریاست پر بھی منحصر ہو سکتا ہے مگر مخالف ریاست ہندوستان یا برما کی طرح آپ کو ان تدابیر سے بھی روک کر ’’مسائل کے بھنور ‘‘ میں جھونک سکتا ہے۔
پہلے آئیں تیاری کی بات سمجھ لیں ،لوہا لوہے کو کاٹتا ہے کے آفاقی اصول کی روشنی میں یہ بات ’’دانشورانہ اور عالمانہ ذہن ‘‘نہیں بلکہ عام انسان بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کسی ریاست کے خلاف جنگ ریاست ہی جیت سکتی ہے یعنی اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ ریاست کے پاس تیاری کے لیے بھر پور وسائل ہوتے ہیں برعکس اس کے ’’خفیہ پرائیویٹ تیاری‘‘صرف راز رہنے تک ہی محدود رہتی ہے اور جب بھی اس کا قبل از وقت انکشاف ہو جائے گا تو پھر مخالف ریاست آپ کو تیاری کرنے دے گی نہ ہی ادھوری تیاری والوں کو معاف کر دے گی بلکہ قبل ازوقت بساط بچھانی ہوگی اور پھر معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہی ہوگا ۔تیاری سے مراد صرف اسلحہ اور تربیت ہی نہیں ہے بلکہ جنگ کے اسرار و رموز سے لیکر عقائد و اعمال کی درستی تک سب کچھ اس میں شامل ہے ۔بدقسمتی سے سویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو فتح ملنے کے بعد ہر اس جماعت اور مسلم قوم نے ’’بلاتیاری‘‘ریاست کے خلاف جنگ چھیڑ دی جن کا خیال یہ تھا کہ گوریلا جنگ میں فتح ہر حال میں ’’مظلوم ‘‘ہی کو ملتی ہے اور’’ گوریلا جنگ مظلوم کا ہتھیار ہے‘‘ کی بات کو لیکر ہر جگہ حکمرانوں کے خلاف مورچے کھولے گئے جن میں اب بھی نام تبدیل کر کے کئی مورچے بدستور قائم ہیں ۔آج آپ کشمیر اور فلسطین کو مستثنیٰ کرتے ہو ئے عالم اسلام پر نگاہ ڈالیں اور آ پ مسلم ممالک میں ظالم اور بے رحم مسلم حکمرانوں کے خلاف برسرپیکار جہادی کمانڈروں کی تقریریں سن لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ اپنی فتح و نصرت کا یقین دلاتے ہو ئے چند قرآنی آیات ،احادیث اور بعض شعرا کا کلام پیش کر کے اپنی تحریک کے ساتھ ہر نوجوان کو جوڑنا چاہتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن میں جنگ سے متعلق ایک ہی آیت ’’کم من فئۃ قلیلۃ۔۔۔۔الخ‘‘ ہی ناز ل ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اقلیت کو اکثریت پر ہر وقت غالب کردیتا ہے اور گویا کہ یہی اللہ کی سنت ہے حالانکہ ایسا ہر وقت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ جنگ بدر سے قبل صحابہ کی مقدس جماعت کو حضرت طالوت کی جماعت کی روشنی میں سمجھا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی کمزور اور عددی اعتبار سے مختصر جماعتوں کو طاقتوروں اور اکثریت پر غالب کردیا ہے اور کئی مرتبہ اس کے برعکس بھی ہوا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکوجنگ اور قتال سے متعلق کسی غلط فہمی میں نہیں رکھا ہے بلکہ قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے نبی،مسلمانوں کو جہاد پر ابھارو۔اگر تمہارے بیس ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غلبہ پالیں گے اور اگر سو ایسے ہوں گے تو ان کافروں کے ہزار پر بھاری رہیں گے ،اس لیے کہ یہ بصیرت نہیں رکھتے ۔ اچھا،اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور جان لیا ہے کہ تم میں کمزور ی آگئی ہے ۔لہذااگر تمہارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دوسو پر غلبہ پائیں گے اور اگر ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دوہزار پر بھاری رہیں گے (اور حقیقت یہ ہے کہ )اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو (اس کی راہ میں )ثابت قدم رہیں (سورۃ الانفال آیات 65تا66)یہ قاعدہ صرف افرادی قوت کے حوالے سے ہی نہیں بیان کیا گیا ہے بلکہ اسلحہ ،ٹیکنالوجی اور ضروریات جنگ کے حوالے سے بھی یہی حکم ہے ۔نبی کریم ﷺ (جو ہر میدان میں ہمارے لیے نمونہ کامل بلکہ اکمل ہیں )نے بھی پہلی جنگ میں تین سوتیرہ لاکر ایک ہزار کے سامنے کھڑے کردیے گویا تقریباایک صحابی بمقابلہ 3:20کافر ۔اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ تھے کون لوگ ؟یہ قدسیوں کی وہ مقدس ہستیاں تھیں کہ نہ ان سے قبل کسی پیغمبر کے ساتھ ایسی جماعت نظر آتی ہے اور نہ ہی ان کے بعد کوئی ایسی محترم جماعت قیامت تک پیدا ہو گی ۔یہ نبی کریم ﷺ کے شاگرد تھے جن میں ایک اپنے ایمان ،تعلق باللہ ،صبر اور اعمالِ صالحات کے اعتبار سے بیس کفار پر حاوی تھا جبکہ ہم جیسوں کو دیکھتے ہو ئے اللہ تعالیٰ نے ایک بمقابل دو کفار کی رعایت دیکر یہ صاف کردیا کہ اگر آپ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر کے جنگ چھیڑ لی اور خدانخواستہ آپ کو مدد نہیں ملی تو آپ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نہیں ۔
آج پوراعالم اسلام اس ’’بے تیاری جہاد‘‘کی لپیٹ میں آکر بھسم ہو رہا ہے اور بے صبری کا عالم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی بھی جہادی سوچ رکھنے والی جماعت کو چند بندوقیں ہاتھ لگیں دوسرے دن ’’قیام خلافت یا شہادت‘‘تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کردیتی ہے۔ بعض تنگ نظریہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل تو کبھی بھی اپنے دشمنوں کے برابر بلکہ نصف بھی تیار نہیں ہو ں گے لہذا ہمیں مزید انتظار کے بجائے ہر حال میں آج ہی جنگ چھیڑنی ہو گی گویا صبر نام کی چیز ہی مفقود ہے ۔ہر فرد فطری انتظار اور رفتار کو نظر انداز کر کے اپنی ہی زندگی میں وہ خلافت قائم ہوتی ہوئی دیکھنے کا متمنی ہے جو خلافت دورِ حیدری ؓ میں ختم ہونے کے بعد پوری تیرہ صدیاں گزرنے کے باوجود قائم نہیں ہو سکی ہے ۔پھر جہادی تنظیموں اور دینی رہنماؤں نے گزشتہ دو سو برس میں اس سب پر عمل بھی کیا مگر ایک بھی ریاست ان کے ہاتھ میں نہیں آئی کیا یہ قابل غور امر نہیں کہ کہیں ہم نے قرآن کی بتائی ہوئی’’ تیاری‘‘کو نظر انداز کر کے من پسند طریقوں پر جنگ لڑ کر اللہ سے ’’فتح و نصرت کی امیدیں ‘‘جوڑ کر کم شعوری کا ثبوت تو نہیں دیا ۔آج کل نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں اور بار بار پوچھتے ہیں کہ ندوی صاحب آخر افغانستان سے لیکر فلسطین تک ہمیں فتح کہیں بھی کیوں نہیں ملتی ہے ؟اب میں اس دو لفظی سوال کا کیاجواب دیدوں کہ اسلامی تحریکات کی کوکھ سے جنم لینے والے جہادی رہنماؤں نے اللہ تعالی کے بتائے ہو ئے اصولوں کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے اور نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے ۔
قوموں کااللہ کی اجتماعی نصرت کے لیے مخلص ہونا ہی کافی نہیں ہوتاہے بلکہ اس کے لیے ان تمام شرائط کو پوری کرنا ہوگا جو اس نے اپنے بندوں کے لیے لازم قرار دی ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سنت کے خلاف نہیں کرتا ہے ۔وہ بن باپ بچہ پیدا کرنے پر قدرت تو رکھتا ہے مگر تاریخ انسانی میں ایک حضرت عیسیٰؑ کے علاوہ دوسری کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ وہ پتھر سے جانور پیدا کرنے پر بھرپور قدرت تو رکھتا ہے مگر حضرت لوطؑ کے علاوہ یہ معجزہ کہیں تاریخ میں نظر نہیں آتا ہے ۔وہ چاہیے تو امریکا ،برطانیہ ،اسرائیل اور ہندوستان کو ایک لمحے میں فنا کردے گا مگر اس نے عاد ،ثمود اور قومِ نوح کے علاوہ دوسروں کو بھرپور مہلت دیدی اس لیے کہ وہ اللہ ہے بندہ نہیں ۔اس نے ہمیں چودہ سو سال کا بھرپور موقع فراہم کیا مگر ہم نے نواسہ رسولؐ کو احترام کے برعکس ذبح کردیا،ان کے خانوادے کو لق و دق صحرا میں گھما کر اپنے تاریخ پر کالک مل دی ،ہم نے اہل بیت کو کچلا ،بنو عباس کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا ،جب بنوعباس کو اقتدار ملا تو آسمان بنو امیہ کے ظلم کا جواب ظلم سے دینے پر رو پڑا ،ہم نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو خانہ کعبہ کے سامنے بڑھاپے میں لٹکا دیا ،خانہ کعبہ کی حرمت پامال کی ،امام المفسرین حضرت جریرؒ کو ذبح کردیا ،امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں شہید کر ڈالا ،امام مالک ؒکو بازاروں میں گھما کر آپ اپنے آپ کو رسوا کردیا ،احمد بن حنبلؒ کی پیٹھ ادھیڑ دی ،امام شافعیؒ کو خوفزدہ کردیا ،ہزاروں اور لاکھوں کو مسلکی منافرت میں قتل کر ڈالا ،سائنسدانوں کے لیے بخیل جبکہ شاعروں اور عورتوں کے لیے حاتم ثابت ہوئے ،پھر ہوش ٹھکانے لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم پر بربروں کومسلط کردیا مگر ہم نے عجمی عربی تفریق پیدا کردی ،ہم سے اندلس،فلسطین اور کشمیر چھن گیا اور جو بظاہر ہمارے ہیں وہاں کے زنان خانہ سے وزارت داخلہ اور خارجہ تک غیر ہی پہرہ دار ہیںاور کہنے کو ہم پچاس سے بھی زیادہ ممالک ہیں مگر ہم روئے زمین کی سب سے کمزور اور ناکارہ برمی حکومت کو بھی روہینگیا کے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے سے باز نہیں لا سکے ۔ہاں بجلی ،ٹیلی فون،انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، چیچک اور کینسر کش ادویات ایجاد کرنے کے برعکس ہم نے تاج محل بنایا ،ہم نے کلاک ٹاور بنایا ، ہم نے سیال سونے کے پیسے سے کھلی اور کشادہ سڑکیں تعمیر کیں ۔ہم نے مؤثر میڈیا ،ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنانے کے برعکس پیٹرونس ٹاؤربنایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے صدور مملکت سے لیکر تین مہینے کے معصوم بچے تک بلا تخصیص رنگ و نسل بے رحمی کے ساتھ سرنگوں ، پہاڑوںاور بستیوں میں مارے گئے ۔
جب ہماری حالت اتنی پتلی ہے تو کیا یہی ’’بے پتہ عالم اسلام‘‘افغانستان،فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرا پائے گا ؟نہیںاور یقیناََ نہیں تو دینی رہنماؤں اور جہادی لیڈروں کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا اور انھوں نے اعداد و شمار کو بالائے طاق رکھتے ہو ئے ہر حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔یہ صورتحال تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مترادف تھی ۔مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ یک طرفہ قربانیوں کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا ؟کیا امت کے لیڈروں اور دانشوروں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔کہنے کو افغانستان سے روس اور عراق سے امریکا رسوا ہو کر نکلا مگر ہم نے ان ممالک میں کیا کھویا کیا پایا ؟کبھی اس جانب بھی توجہ دی! ہمارے ممالک میں یہ گھس بیٹھ جنگ اسی لیے جاری ہے کہ ہم نے نبی کریمﷺ پر نازل شدہ وحی کے آفاقی اصولوں کو نظر انداز کر کے جنگ کوتمناؤں،ترانوں اورشاعری سے جیتنے کے غیر فطری طریقوں کو اختیار کیا ہے ۔عقیدہ ہمارا یہ ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ فتح و نصرت اللہ کے ہاتھ میں ہے ،ہمارے پاس جب امریکا اور روس جیسا اسلحہ بھی موجود ہوگا توبھی ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ فتح و نصرت افراداور ہتھیار میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر جنگ کے لیے مطلوب ضروریات کو نظرانداز کر کے ہم صرف یہ کہیںکہ ’’ کافر ہو تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ، مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ یہ غلط استدلال ہوگانہیں تو پھر سیرت نبیؐکے اس سبق آموز واقعہ کا میں کیا جواب دوں کہ جب امام المجاہدینﷺ اس دنیا سے کوچ کرنے لگے تو بجھے ہوئے ٹھنڈے چولھے پر پکانے کے لیے گھر میں کوئی شے نہیں تھی مگر ایک دو تین نہیں بلکہ اسی ’’خلد بریں‘‘میں سترہ ہتھیار آویزاں تھے کیا یہ امت مسلمہ کے لیے نصیحت اور رہنمائی نہیں تھی ۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر