وجود

... loading ...

وجود

کابل میں امن

جمعه 10 فروری 2017 کابل میں امن

وائس آف امریکا کے دوستوں کی مہربانی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً ہمیں اپنے مختلف پروگراموں میں ٹیلی فون کے ذریعے شرکت کے لئے مدعو کرتے رہتے ہیں، بدھ کی رات کا موضوع تھا کہ کیا فروری کے آخر میں روس میں افغانستان کے مسئلے پربلائی گئی کانفرنس سے خطے میں امن کی راہ نکل پائے گی؟ اس پروگرام کی میزبان ایک افغان نژاد خاتون شہناز تھیں جب کہ افغانستان سے بھی ایک نیوز ایجنسی کے صحافی اور امریکا سے محمد تقی صاحب کو نمائندگی کا موقع دیا گیا تھا۔
پروگرام کی میزبان اور افغان صحافی کا وہی گھسا پٹا بیانیہ تھا کہ افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان کے پاس ہے، اس لیے اسلام آباد افغان طالبان کی سرپرستی بند کرے اور انہیں گھیر کر مذاکرات کی میز پر ’فراہم‘ کرے۔ وہی بیانیہ جو امریکی اور بھارتی میڈیا میں بیک وقت چبایا اور دہرایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان افغان طالبان کی پشتی بانی بند کرے۔ افغان طالبان کے بیشتر قیادت پاکستان میں دندناتی پھرتی ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والے افغان مہاجرین کو واپس دھکیلنے کے بجائے ان کو پاکستانی شہریت دی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ شرپسندوں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے اس لیے جس طرح پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہیں کیے تو ہم افغان طالبان سے کیوں مذاکرات کریں؟ پاکستان کے وفاقی بجٹ میں افغان طالبان کی مدد کے لیے باقاعدہ بجٹ رکھا جاتا ہے اور یہ چاروں صوبوں کو بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ افغان طالبان کی تربیت کر کے ان کو تخریب کاری کے لیے واپس دھکیل سکیں۔
خاکسار کو بولنے کا بہت کم موقع ملا لیکن ہم نے وقتاً فوقتاً گفتگو کچھ یوں سمیٹی کہ افغانستان کا امن افغان سرزمین سے اُبھرے گا، کہیں باہر سے لایا گیا کوئی بھی حل افغانستان میں نہیں چل سکے گا اور یہ بات دنیا کے اڑتالیس ممالک کی افواج اور سب سے سپر فورس یعنی امریکی فوج کی افغانستان میں ناکامی سے بھی ثابت ہو چکی ہے کہ افغانستان کا امن مقامی ہی ہوگا جس میں افغان معاشرے کے تمام فریقین کو اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔ اگر ذرا تاریخ پر نظر ڈال لی جائے تو پاکستان پر افغان طالبان کی سرپرستی کا الزام لگانے والے تاریخ سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کم از کم ایک کروڑ پختون ایسے ہیں جن کے بزرگوں کو قیامِ پاکستان کے وقت یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کی دُہری شہریت رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی کے پختون اگر اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جاتے ہیں تو یہ صدیوں پرانے پختون ولی (پختون بھائی چارہ) کا تقاضا ہے، نہ کہ پاکستان اور اسکے اداروں کی طرف سے کوئی پڑھائی لکھائی گئی بات۔ اس وقت کئی کئی دہائیاں پہلے ملک چھوڑ کر آباد ہوجانے والے دنیا بھر کے افراد کو کابل واپس لا کر ایک بھان متی کے کنبے کو مسلط کرنے اور رکھنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا، کیوں کہ ان کو زمینی حقائق کا ادراک ہی نہیں۔ اگر افغان طالبان اس قدر بُرے ہیں تو یہ بات افغان پارلیمنٹ کو کیوں معلوم نہیں جو ان سے مذاکرات کرنے کی وکالت کرتی رہتی ہے؟ اگر افغانستان کو پاکستان کی طرف سے ان کے بقول شرپسندوں کا شکوہ ہے تو ہمیں بھی ننگرہار میں چھپے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت کے افغان صوبے ننگرہار میں چھپے ہونے کے بارے میں تحفظات ہیں۔ پاکستان میں طالبان قیادت ہی نہیں، تیس لاکھ افغان مہاجر بھی ہیں۔ اگر افغانستان چاہتا ہے کہ ہم ان کو افغانستان کی جانب جانے سے روکیں تو ڈیورنڈ لائن کو بند کرنے کی ہر بات پر کابل حکومت دُم پر کیوں کھڑی ہو جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں طورخم پر محض چند سو گز کے رقبے پر تار لگانے کی کوشش پر پاکستانی فوج کے ایک میجر کے علاوہ دو نوجوان افغان فوج کی بلا اشتعال کارروائی سے شہید ہو چکے ہیں۔ یہی حال چمن بارڈر پر بھی ہوا ہے۔ اگر ہم نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے بلکہ ان کے خلاف آپریشن کیا ہے تو افغان حکومت کے پاس اگر اتنی اوقات ہے تو اسی طرح وہ بھی افغان طالبان کے خلاف کارروائی کر لے، اُسے کس نے روکا ہے؟ ان لوگوں نے بدگمانی اس حد تک بڑھادی ہے کہ پاکستانی اپنا پیٹ کاٹ کر افغان مہاجرین کے لیے اپنے سالانہ بجٹ سے جو رقم فراہم کرتے ہیں وہ اسے بھی طالبان کی سرپرستی اور فنڈنگ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ کیا افغانستان میں صرف افغان طالبان ہی سرگرم عمل ہیں تو پھر یہ گلم جم اور جوزجانی ملیشیا ، جنرل رشید دوستم اور اس نوع کی دیگر مخلوقات کیا پکنک منا رہے ہیں؟
پروگرام کے آخر میں ہم نے عرض کیا کہ اگر میرے فاضل افغان دوستوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان افغان طالبا ن اور ان کی قیادت کو پکڑ کراور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر لے جاکر کابل میں فراہم کرے تاکہ وہ اس سے ’بزکشی‘ کھیل سکیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ نہ تو پاکستان کے پاس اس کی صلاحیت ہے نہ ارادہ۔ افغان بھائی جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ ہم کر نہیں سکتے اور اگر کسی طور ہم یہ کر بھی دیں تو ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔ اور اسی بات پر پروگرام کا اختتام ہوگیا۔
دیگر باتوں کے علاوہ بھارت کے پشپندر کمارنے یہ خبر بھی پھوڑی کہ اُترپردیش کے (موجودہ) انتخابات کے بعد بھارت کی ریاستی پالیسی میں ایک جوہری تبدیلی ہونے جا رہی ہے جس پر بھارت کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کا اتفاق بھی ہو چکا ہے اس لیے انتخابات کے فوراً بعد بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا آغاز کرے گی اور اس کے لیے نئی دہلی میں باقاعدہ تیاری شروع ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت ریاستی سطح پر بلوچستان (اور کراچی )میں دخل در معقولات سے بھی مراجعت اختیار کر چکا ہے بلکہ اس حوالے سے نئی دہلی (کل بھوشن یادیوکے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد) پاکستان کو اس کے بارے میں اعتماد میں بھی لے گا۔ پشپندر نے بھی یہی کہا کہ افغانوں کو اپنے ملک کے مسائل کا حل اپنے ملک کے اندر ہی ڈھونڈنا ہو گا کیوں کہ باہر سے جو بھی قوت آئے گی اس کے اپنے مفادات ہوں گے جو کہ ضروری نہیں کہ افغانوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔
پروگرام میں شریک صحافی پشپندر کمار نے جو بات کی ، اس کے حوالے سے بھارت کے مقامی ذرائع ابلاغ میں پہلے ہی بحث جاری ہے۔ پاکستانی میڈیا پر بھارت سے بولنے والے جن صحافیوں کو ہمیں پاکستانی میڈیا دکھاتا ہے وہ اپنے د فترِخارجہ کی طرف سے دی گئی پالیسی کی چیونگم چباتے اور آگ اُگلتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ بھارت میں اس مجوزہ تبدیلی کی وجوہات کیا ہیں؟
٭٭


متعلقہ خبریں


افغانستان میں امن کے قیام کی امیدیں دم توڑ نے لگیں! ایچ اے نقوی - جمعرات 20 جولائی 2017

طالبان کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ وہ افغانستان میں افغان حکومت وامریکی واتحادی فوج کے خلاف دوبارہ بھر پور کارروائیاں شروع کریں گے، مستقبل قریب میں امن کی امیدیں دم توڑتی محسوس ہورہی ہیں۔طالبان کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین بیان میں جنگ زدہ افغانستان میں مضبوط سیاسی بنیاد قائم...

افغانستان میں امن کے قیام کی امیدیں دم توڑ نے لگیں!

حکمت یارکی افغان افق پر واپسی کابل میں استقبالیہ جلسے نے دنیا کوحیران کردیا وجود - اتوار 07 مئی 2017

[caption id="attachment_44433" align="aligncenter" width="784"] ایک سال قبل مفاہمتی عمل اسلام آباد سے ہوا،افغان سفیر۔ افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغازپاکستان سے ہوناخو ش آئند ہے ،تجزیہ کار‘ حکمت یار پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے ،...

حکمت یارکی افغان افق پر واپسی کابل میں استقبالیہ جلسے نے دنیا کوحیران کردیا

شمالی کوریا - امریکا کشیدگی دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر۔۔!! وجود - اتوار 16 اپریل 2017

[caption id="attachment_44130" align="aligncenter" width="784"] شام پر امریکی حملے اور شمالی کوریا کو دھمکی کے تناظر میں گزشتہ روزگوگل پر ’’تیسری عالمی جنگ‘‘ ٹاپ سرچ رہا، شمالی کوریا کی جانب سے ایک اور ایٹمی تجربے کاامکان شمالی کوریا نے اپنے بانی قائد کی 105ویں سالگرہ پر منعقدہ پ...

شمالی کوریا - امریکا کشیدگی دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر۔۔!!

افغان امن عمل کے لیے روس کی مزید پیش رفت وجود - جمعه 17 فروری 2017

افغانستان میں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ 20 عسکری گروپ اور خطے کے بہت سے جنگجو سرگرم ہیں اور افغانستان بدستور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا علاقائی اور عالمی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ا س صورت حال کو تبدیل کرنے اور افغانستان سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرکے وہاں موجود دہشت گردوں کی وجہ ...

افغان امن عمل کے لیے روس کی مزید پیش رفت

طالبان سے رابطے۔۔۔ افغان حکمرانوں کو روس کاکرارا جواب ایچ اے نقوی - اتوار 18 دسمبر 2016

افغانستان میں روس کے سفیر الیگزنڈر مانٹیٹ سکیف نے گزشتہ دنوں کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بعض طالبان رہنمائوں سے روس کے مبینہ رابطوں کے حوالے سے جو وضاحت پیش کی اس سے پوری افغان حکومت میں کھلبلی مچ گئی ہے اور افغانستان کے سیاستداں اس پر اتنے زیادہ سیخ پا ہوئے کہ روسی سفیر ک...

طالبان سے رابطے۔۔۔ افغان حکمرانوں کو روس کاکرارا جواب

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر