... loading ...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھا۔ ہم نے خلوص دل کے ساتھ کام سمجھنے میں اس کی مدد کی جیسے جیسے شنکر کی گرفت کام پر بڑھتی گئی اس کا رویہ ہمارے ساتھ خراب سے خراب ہوتا چلا گیا۔ اس نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا۔ بات بے بات ڈانٹ ڈپٹ اور خراب زبان کا استعمال اس کا وطیرہ تھا۔ ہم نے مصری منیجر سے شکایت بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شنکر کا رویہ جلال صاحب کے ساتھ بھی برا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کا رویہ سب کے ساتھ برا ہو بھارتیوں اور دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ عام طور پر نرم رہتا تھا لیکن ہم اور جلال صاحب اس کی بد اخلاقی کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ہم نے جلال صاحب سے کہا ایسا لگتا تھا شنکر کو پاکستان اور پاکستانیوں سے خاص پرخاش ہے جلال صاحب نے ہماری بات سے اتفاق کیا ہم نے کہا ہم دونوں کو مصری منیجر سے بات کرنی چاہیئے۔ اس روز لنچ ٹائم میں ہم اور جلال صاحب مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے جلال صاحب کی عربی بہت اچھی تھی انہوں ںے مصر منیجر سے عربی میں بات چیت شروع کردی۔ ہماری سمجھ میں زیادہ تو نہیں آرہا تھا لیکن ان دونوں کی گفتگو کے دوران شنکر کا نام بھی ایک دو بار آیا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ اصل بات چیت کچھ اور ہو رہی تھی اور شنکر کا تزکرہ بھی بیچ میں ایک دو بار آگیا تھا۔ ہم چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے کچھ دیر بعد جلال صاحب مصری منیجر کو سلام کرکے کھڑے ہو گئے ہم بھی ان کے ساتھ باہر نکل آئے ہم نے پوچھا کیا بات ہوئی جلال صاحب نے بتایا مصری منیجر کا کہنا تھاکہ صرف آپ دونوں کو اس سے شکایت ہے ورنہ باقی سب تو اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔اس لئے جلال صاحب نے اس سے ادہر ادھر کی باتیں شروع کردیں۔ اگلے روز شنکر نے کسی بات پر کہا تم پاکستانی ہوتے ہی سست ہو ہم اس بات پر بھڑک گئے ہم نے سخت الفاظ میں اسے تنبیہ کی کہ ہم کو وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے لیکن پاکستان کے خلاف ہم ایک لفظ برداشت نہیں کریں گے۔ تو تو میں میں بڑھی شنکر نے پاکستان کو گالی دے دی بس پھر کیا تھا ہمارا ضبط کا بند ٹوٹ گیا ہم نے شنکر کے گال پرایک بھرپور تھپڑ مارا جس کی آواز دفتر میں گونج گئی، دفتر میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ شنکر کچھ دیر سناٹے میں رہا پھر اس نے مغلظات بکنا شروع کردیں، ہم اسے مارنے کیلئے آگے بڑھے تو دیگر لوگوں ںے ہمیں روک لیا اور کھینچ کر دفتر سے باہر لے گئے۔ شنکر کے منہ پر ہمارے تمانچے کی گونج پورے کالج میں سنی گء، مصری منیجر نے ہمیں اپنے دفتر میں طلب کرلیا جہاں کالج انتظامیہ کی جانب سے محمد رویلی اور ایک دوسرا افسر موجود تھا۔ رویلی کو ہم شنکر کے رویے کے بارے میں پہلے بھی بتا چکے تھے مصری منیجر سے بھی کئی بات شکایت کر چکے تھے سب کو معلوم تھا کہ قصور ہمارے انچارج شنکر کا تھا۔ ہم نے تسلیم کیا کہ ہم نے شنکر کو تھپڑ مارا ہے۔ ان سب کا کہنا تھا گرما گرمی کو زبان تک محدود رکھنا چاہیئے تھا ہاتھ اٹھانے سے معاملہ خراب ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے شنکر کو بھی طلب کیا اور ہم سے کہا گیا کہ اس سے معافی مانگیں، ہم نے کہا اس شخص نے پاکستان کو گالی دی ہے اس لئے اس سے معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مصری منیجر نے ہمیں چارروز کے لئے معطل کردیا۔۔ ہمارے تھپڑ کی بات ولا تک پہنچ چکی تھی وہاں منیب اور علی سمیت دیگر پاکستانیوں ںے اس پر خوشی کا اظہار کیا دوسری جانب بھارتیوں کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا۔ ہم نے چار دن ولا میں گزارے۔ یہاں سب لوگ صبح اپنے کاموں پر نکل جاتے تھے اورولا میں ویرانی کا راج ہوتا تھا ہم صبح ناشتے کے بعد ولا کے چھوٹے سے لان کے پاس جا کر بیٹھ جاتے تھے پودوں کو پانی دیتے، کانٹ چھانٹ کرتے،دسمبر شروع ہو چکا تھا، موسم کی سختی کم ہو چکی تھی اس لئے پودوں نے رنگ روپ نکالنا شروع کردیا تھا۔چار دن تک ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ بات بڑھی تو ہم پاکستان واپس جانے کی درخواست کردیں گے۔
ان چار دنوں کے دوران ہمارے خلاف انکوائری چلتی رہی۔ چار دن بعد کالج پہنچے تو ہمیں مصری منیجر نے طلب کرلیا۔ اس نے کہا آپ ابھی اپنے دفتر نہ جائیں شنکر نے آپ کے خلاف فضا بنا دی ہے وہاں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ اتنے میں جلال صاحب بھی وہاں پہنچ گئے، ان کے اور مصری منیجر کے درمیان عربی میں بات چیت ہونے لگی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اس گفتگو کا محور ہم ہی تھے۔ کچھ دیر بعد مصری منیجر نے کہا کمپنی کی منیجمنٹ تم کو کسی اورسائٹ پر بھیجنا چاہتی ہے جبکہ کالج کی مینجمنٹ تم کو یہیں رکھنا چاہتی ہے ایسے میں میرے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے ہم نے کہا ہمیں واپس پاکستان بھیج دیں۔ مصری منیجر نے کہا مسئلے کا حل تو یہی ہے میں کمپنی اور کالج انتظامیہ سے بات کرتا ہوں اس وقت تک تم کالج آؤ گے لیکن اپنے دفتر میں نہیں بلکہ جلال صاحب کے ساتھ بیٹھو گے۔ اسی روز ہم محمد رویلی سے ملے اور اس سے درخوست کی کہ ہم پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں اس لئے وہ کمپنی سے ہمیں واپس بھیجنے کے لئے کہے۔ رویلی نے کمپنی انتظامیہ سے ہمیں واپس پاکستان بھیجنے کے لئے کہا اب کمپنی کے پاس ہمیں واپس بھجوانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا وہ ہمیں کسی اور سائٹ پر بھی نہیں بھیج سکتے تھے۔ دو دن بعد ہمیں ہیڈ آفس بلایا گیا جہاں ہم سے کچھ کاغزات پر دستخط لئے گئے اور اگلے روز صبح دس بجے تیار رہنے کے لئے کہا گیا۔ ولا پہنچ کر ہم نے علی اور منیب وغیرہ کو بتایا کہ صبح دس بجے ہمیں شائد دوبارہ ہیڈ آفس جانا پڑے انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اوراچھی امیدرکھنے کی صلاح دی۔ اگلی صبح دس بجے کمپنی کی گاڑی ہمیں لینے کیلئے پہنچی ڈرائیور نے کہا اپنا سامان پیک کرلیں آپ کا ٹکٹ اور پاسپورٹ میرے پاس ہے مجھے آپ کو ایئرپورٹ چھوڑنا ہے۔ ہمیں ایسے اچانک واپسی کی امید نہیں تھی خیر جلدی جلدی سوٹ کیس میں کپڑے اور دیگر سامان بھرا، نہا دھو کر کپڑے تبدیل کئے اور گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گاڑی ریاض ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھی ہم سوچ رہے تھے کہاں ہم وطن واپس جانے کے لئے اتنے بے تاب تھے اور کہاں اس طرح اچانک اڑان کا پروانہ مل گیا تھا، ہم نے ڈرائیور سے کہا ہمیں کچھ دیر کے لئے کالج لے جائے تاکہ ہم اپنے دوستوں سے الوداعی ملاقات کرسکیں لیکن ڈرائیور نے کہا کالج ایئرپورٹ کے راستے میں نہیں پڑتا اس لئے وہ ہمیں وہاں نہیں لے جا سکتا، راستے میں ایک پبلک کال آفس سے ہم نے گھر فون کیا اور والد کو اپنی واپسی کی اطلاع دی۔ وہ بھی ہمارے اس طرح اچانک واپسی پر حیران تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ریاض ایئرپورٹ کے لاونج میں بیٹھے تھے، کالج ، جنادریہ ، نسیم ولا، اس کے لان کے پودے،جلال صاحب، گلزار، ولا کے ساتھی، سب کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ کسی نے سچ ہی تو کہا ہے آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے، آتے جاتے راستے میں کہانی چھوڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد
٭٭
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...