... loading ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا الٹا دیر سے جانے کی وجہ سے کئی بار ٹیکسی کا کرایہ جیب سے دینا پڑتا تھا۔ ہم نے کئی بار مصری منیجر سے کہا کہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائی جائے لیکن اس نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔ ہم نے جلال صاحب سے مشورہ کیا کہ ان حالات میں کیا کیا جائے، جلال صاحب کاکہنا تھا کہ ہمیں زیادہ سر کھپانے کی ضروت نہیں ہے جتنا کام ہو جائے کر لو باقی رہنے دو انہوں نے یہ بھی کہا کہ دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد یہاں بیٹھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اپنی وین پکڑو اور ولا جاؤ۔ ہم نے کہا جلال صاحب بات اصل میں یہ ہے کہ ہم کام چور نہیں اور سیمی کا کام پہلے نمٹانے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم زمہ داری سے بھاگ رہے ہیں۔ ویسے ہمارے دل میں کہیں یہ خیال بھی موجود تھا کہ ہو سکتا ہے سیمی کے نہ آنے کی صورت میں ہمیں اس کی جگہ مستقل کر دیا جائے یعنی ہم اپنے شعبہ کے ہیڈ بن جائیں ایسا ہو جاتا تو تنخواہ بھی بڑھ جاتی اور ہمیں کمپنی کی طرف سے گاڑی بھی مل جاتی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ سیمی آئے یا نہ آئے اس کا کام ہمیں کو کرنا ہے۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ سیمی نے اپنا استعفیٰ بھجوا دیا ہے کچھ گھریلو زمہ داریوں کی وجہ سے وہ واپس نہیں آسکتا تھا اس لئے اس نے فلپائن ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ہم سمجھے کہ اب شائد ہماری بات بن جائے ہم نے مصری انجینئر سے بات کی لیکن وہ ہمیشہ کی طرح ٹال گیا۔ ہم نے پھر جلال صاحب سے مشورہ کیا کہ اب تو سیمی کے آنے کی کوئی امید ہی نہیں رہی اس نے نوکری چھوڑ دی ہے اب کیا کیا جائے۔ جلال صاحب نے مشورہ دیا کہ کمپنی کے ایم ڈی کو درخواست دی جائے وہاں سے کوئی اچھی خبر آنے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہم نے جلال صاحب کا مشورہ مانا اور کمپنی کے ہیڈ آفس درخواست بھیج دی۔ اس دوران ایک مہینہ اور گزر گیا ہیڈ آفس سے ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ہمارا دل کام سے اچاٹ ہو چکا تھا ایک تو دو الگ الگ زمہ داریاں دوسرے کوئی صلہ بھی نہیں۔ پیسے نہ ملتے شاباش ہی مل جاتی تو کچھ دل ہلکا ہو جاتا لیکن یہاں تو الٹا ہو رہا تھا۔ ہمارا کام میں دل نہ لگنے کی وجہ سے کام رکنے لگا تھا جس پر ہمیں مصری منیجر اور کالج انتظامیہ دونوں کی اچھی بری سننے کو مل رہی تھیں۔ ہم اس صورتحال سے بہت دلبرداشتہ ہو چکے تھے لیکن ہمارا کوئی بس نہیں چل رہا تھا، کنٹریکٹ ملازمت چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے پاسپورٹ کمپنی کے پاس تھا اس لئے پاکستان واپس بھی نہیں جا سکتے تھے۔
ان حالات نے ہمیں چڑچڑا سا کر دیا تھا کھانے پینے کی روٹین تبدیل ہونے سے صحت پر بھی برے اثرات پڑنے لگے تھے۔ دن یوں ہی گزر رہے تھے ایسے میں ایک دن ہمیں معلوم ہوا کہ کمپنی نے سیمی کی جگہ دوسرا انجینئر بھرتی کر لیا ہے۔ اس خبر سے ہمیں خوشی بھی ہوئی اور مایوسی بھی ، خوشی اس بات کی تھی کہ اب سیمی کا کام ہمیں نہیں کرنا پڑے گا اور افسوس اس بات کا کہ سیمی کی جگہ اتنے عرصے تک کام کرنے کے بعد بھی ہمیں س کی جگہ پرموٹ نہیں کیا گیا تھا۔ دفتر سے معلوم ہوا کہ سیمی کی جگہ کسی بھارتی کو اپائنٹ کیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ شخص ہفتیدس دن میں ریاض آکر کالج جوائن کر لے گا۔ یہ دس دن ہمیں زندگی کے طویل ترین دن لگنے لگے تھے۔ ایک ایک دن ایک ایک سال کی طرح گزر رہا تھا۔ خدا خدا کرکے دس دن بعد پتہ چلا کہ نیا انجینئر ریاض پہنچ چکا ہے اور کل سے کالج جوائن کر لے گا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز دوپہر کے وقت ایک سیاہ رنگ کا پستہ قد شخص دفتر میں داخل ہوا ہم کام میں لگے ہوئے تھے اس لئے زیادہ لفٹ نہیں کروائی وہ شخص ہمارے سر پر آکر کھڑا ہو گیا اور بولا میری سیٹ خالی کرو۔ ہم نے پوچھا جناب آپ کی تعریف تو کہا میرا نام شنکر کمار ہے اور میں نیا انجینئر ہوں۔ ہم نے فوری طور پر سیٹ اس کے حوالے کی اور سیدھا جلال صاحب کے پاس پہنچے ہم نے جلال صاحب سے کہا،یہ شخص تو بڑا بد دماغ ہے ہمیں بالکل پسند نہیں آیا جلال صاحب نے کہا وہ بھی شنکر سے ملے تھے اور انہیں بھی وہ شخص پسند نہیں آیا۔۔۔ جاری ہے۔
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...