وجود

... loading ...

وجود

سفر یاد۔۔۔ قسط48

اتوار 29 جنوری 2017 سفر یاد۔۔۔ قسط48

سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس نہ آیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے چھٹی میں مزید ایک ماہ اضافے کی درخواست کردی ہے۔ یعنی ایک اور مہینہ ہمیں اپنا اور سیمی کا کام کرنا پڑے گا، یہاں سے ہماری مشکلات کا آغاز شروع ہوگیا، اب ہمیں کالج میں ذرا دیر کی فرصت بھی نہیں مل پا رہی تھی، ہم اکثر لنچ ٹائم میں بھی کام نمٹانے میں لگے رہتے تھے، کئی بار جلال صاحب نے اس بات کا گلہ بھی کیا لیکن کام چوری ہماری عادت نہیں اور ہم آج کا کام آج مکمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے جیسے تیسے کام نمٹانے میں لگے رہتے تھے۔ کام کے سلسلے میں ہمارا کالج انتظامیہ سے بھی ملنا ہوتا تھا جو سب کے سب وطنی تھے ان کے ساتھ معاملات میں بہت محتاط رہنا ہوتا ہے کیونکہ وہ اجنبیوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اس لئے پتہ نہیں چلتا ان کو کس بات پر کب غصہ آجائے ہمارے ساتھ انتظامیہ کے کسی شخص کی کبھی بدمزگی نہیں ہوئی تھی لیکن اب شاید کام کی ٹینشن ہمارے ضبط پر بھاری پڑنے لگی تھی ایک دن انتظامیہ کے ایک افسر محمد رویلی نے ہمیں ٹوک دیا ، محمد کے ساتھ ہماری اچھی سلام دعا ہوگئی تھی وہ تھا بھی تمیز کا آدمی اس لئے اس سے بات کرکے خوشی ہوتی تھی اس نے کہا یہ تم کو کیا ہو گیا ہے تم سے پوچھو کچھ جواب کچھ دیتے ہو لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ محمد رویلی سے ہمارا اچھا تعلق تھا اس لئے اس نے ہمارے رویہ میں آنے والی تبدیلی کو نہ صرف نوٹ کیا بلکہ ہمیں ٹوک کر اس جانب ہماری نشاندہی بھی کردی انتظامیہ کا کوئی اور افسر ہوتا تو ہمیں بہت ہی بھلی بری سناتا اور ہم جواب میں بھڑک جاتے جس سے معاملہ خراب ہو سکتا تھا۔ اس روز ہمیں احساس ہوا کہ کام کی زیادتی کس طرح ہم پر اثر انداز ہو رہی تھی، ہم نے غور کیا تو ادراک ہوا کہ ہمارے ساتھی بھی ہم سے خوش نہیں تھے، جلال صاحب بھی کچھ کھنچے کھنچے سے تھے جبکہ ولا میں علی اور منیب وغیرہ کا رویہ بھی کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ ظاہر ہے قصور ہمارا ہی تھا کام کی تھکن نے ہمیں چڑچڑا بنا دیا تھا جس کی وجہ سے قریبی لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا رویہ خراب ہو گیا تھا رد عمل میں وہ بھی ہم سے کھنچ گئے تھے۔ اب تک تو ہمارے رویے کے باوجود ان لوگوں نے ہمیں برداشت کیا ہوا تھا لیکن آگے جا کر ہو سکتا ہے تعلقات میں دراڑ آجاتی۔
کام کی زیادتی کا دباؤ کسی صورت انسانی صحت کے لئے اچھا نہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دفتری امور میں طویل مدت تک مگن رہنے سے ذیابیطس، اعصابی دباؤ، موٹاپا اور دیگر بیماریوں کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ زیادہ کام سے ذہنی دبائو بڑھنے کے نتیجے میں کھانے پینے کے معمولات پر فرق پڑتا ہے اور لوگ عموما صحت بخش غذا نہیں لے پاتے جس کی وجہ سے ان کا وزن بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ذہنی دباؤ وزن میں اضافے اور امراضِ قلب میں بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے جاگنگ، ورزش اور سائیکل چلانے سے ملازمت کی ڈپریشن اور کام کا دباؤ دور کرنے مدد ملتی ہے۔ محمد رویلی کی مہربانی سے ہمیں اپنے کام کے دباؤ اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل کا احساس ہو گیا تھا۔ کام کی مقدار پر تو ہمارا کنٹرول نہیں تھا لیکن کام کے دباؤ کا اثر کو سر پر اس قدر سوار نہ کرنا تو کسی حد تک ہمارے اختیار میں تھا ہی سو ہم نے کھانے پینے کی روٹین درست کی اور شام میں ورزش بھی شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ساتھیوں سے خراب رویے کی معذرت بھی کرلی جسے انہوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیا۔۔۔ جاری ہے


متعلقہ خبریں


سعودی عرب‘شاہی حکومت کو مختلف محاذوں پر مشکلات کاسامنا،اسلامی اتحاد سے امیدیں وابستہ ایچ اے نقوی - جمعه 14 اپریل 2017

[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...

سعودی عرب‘شاہی حکومت کو مختلف محاذوں پر مشکلات کاسامنا،اسلامی اتحاد سے امیدیں وابستہ

سعودی قیادت میں فوجی اتحاد ،قدم قدم پراحتیاط کی ضرورت وجود - پیر 03 اپریل 2017

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...

سعودی قیادت میں فوجی اتحاد ،قدم قدم پراحتیاط کی ضرورت

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔ شاہد اے خان - اتوار 22 جنوری 2017

مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔

سفر یاد۔۔۔ قسط36 شاہد اے خان - اتوار 01 جنوری 2017

ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...

سفر یاد۔۔۔ قسط36

سفر یاد۔۔۔ قسط34 شاہد اے خان - هفته 31 دسمبر 2016

علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...

سفر یاد۔۔۔ قسط34

سفر یاد۔۔۔ قسط34 شاہد اے خان - جمعه 30 دسمبر 2016

دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ...

سفر یاد۔۔۔ قسط34

سفر یاد ۔۔۔قسط 6 شاہد اے خان - منگل 08 نومبر 2016

کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں...

سفر یاد ۔۔۔قسط 6

سفر یاد ۔۔۔قسط 5 شاہد اے خان - اتوار 06 نومبر 2016

رات کودیر سے سوئے تھے اس لیے صبح آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ جب سب لوگ جاگ گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ ناشتہ باہر کسی ہوٹل میں کیا جائے۔ لیکن ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہے نہ اقامہ اس لیے ہمیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب میں کفیل سسٹم ہے، ...

سفر یاد ۔۔۔قسط 5

سفر یاد ۔۔۔۔قسط 4 شاہد اے خان - هفته 05 نومبر 2016

آنکھ ٹھنڈ کی وجہ سے کھلی، اے سی چل رہا تھا اور ہم بغیر کمبل کے سو گئے تھے، بھوک بھی لگ رہی تھی، کلائی کی گھڑی میں وقت دیکھا نو بج رہے تھے۔ ہم نے ابھی تک گھڑی میں وقت تبدیل نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے ریاض میں شام کے سات بج چکے تھے...

سفر یاد ۔۔۔۔قسط 4

سفر یاد۔۔۔۔ حصہ سوم شاہد اے خان - جمعه 04 نومبر 2016

ہم ریاض ایئرپورٹ سے باہر آچکے تھے، جہاز میں اور ایئرپورٹ کے اندر ایئرکنڈشننگ کی وجہ سے موسم سردی مائل خوشگوار تھا لیکن ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی گرم ہوا نے استقبال کیا۔ یہاں مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کا وقت تھا،مارچ کا مہینہ ہونے کے باوجود گرمی شباب پر تھی۔ ایک دم گرمی کا شدی...

سفر یاد۔۔۔۔ حصہ سوم

سفر یاد ...قسط دوم شاہد اے خان - بدھ 02 نومبر 2016

فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہوائی جہاز ائیرپورٹ کے رن وے پرآہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا۔ ہماری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اس لیے باہر کے مناظر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ منظر تھاایئرپورٹ پر مختلف سائز کے کھڑے جہازاور ٹرمینل کی عمارت بھی نظر آرہی تھی، ایئرپورٹ پر مختلف قسم کی گ...

سفر یاد ...قسط دوم

سفریاد۔۔قسط اول شاہد اے خان - منگل 01 نومبر 2016

تیسرے ہزاریے کا پہلا سال تھا، سرکاری نوکری چل رہی تھی،کام کاج کا تردد بھی نہ تھا یعنی سرکاری اہلکاروں کی مانند ہڈحرامی کا دور دورہ تھالیکن دل کو چین نہیں تھا، اطمینان قلبی کی تلاش بھی تھی اور کچھ کرنے کی امنگ بھی ،ابھی دل زنگ آلود نہیں ہواتھا۔ دوسری بات جیب کی تنگی تھی ،سرکار تنخ...

سفریاد۔۔قسط اول

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر