... loading ...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس نہ آیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے چھٹی میں مزید ایک ماہ اضافے کی درخواست کردی ہے۔ یعنی ایک اور مہینہ ہمیں اپنا اور سیمی کا کام کرنا پڑے گا، یہاں سے ہماری مشکلات کا آغاز شروع ہوگیا، اب ہمیں کالج میں ذرا دیر کی فرصت بھی نہیں مل پا رہی تھی، ہم اکثر لنچ ٹائم میں بھی کام نمٹانے میں لگے رہتے تھے، کئی بار جلال صاحب نے اس بات کا گلہ بھی کیا لیکن کام چوری ہماری عادت نہیں اور ہم آج کا کام آج مکمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے جیسے تیسے کام نمٹانے میں لگے رہتے تھے۔ کام کے سلسلے میں ہمارا کالج انتظامیہ سے بھی ملنا ہوتا تھا جو سب کے سب وطنی تھے ان کے ساتھ معاملات میں بہت محتاط رہنا ہوتا ہے کیونکہ وہ اجنبیوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اس لئے پتہ نہیں چلتا ان کو کس بات پر کب غصہ آجائے ہمارے ساتھ انتظامیہ کے کسی شخص کی کبھی بدمزگی نہیں ہوئی تھی لیکن اب شاید کام کی ٹینشن ہمارے ضبط پر بھاری پڑنے لگی تھی ایک دن انتظامیہ کے ایک افسر محمد رویلی نے ہمیں ٹوک دیا ، محمد کے ساتھ ہماری اچھی سلام دعا ہوگئی تھی وہ تھا بھی تمیز کا آدمی اس لئے اس سے بات کرکے خوشی ہوتی تھی اس نے کہا یہ تم کو کیا ہو گیا ہے تم سے پوچھو کچھ جواب کچھ دیتے ہو لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ محمد رویلی سے ہمارا اچھا تعلق تھا اس لئے اس نے ہمارے رویہ میں آنے والی تبدیلی کو نہ صرف نوٹ کیا بلکہ ہمیں ٹوک کر اس جانب ہماری نشاندہی بھی کردی انتظامیہ کا کوئی اور افسر ہوتا تو ہمیں بہت ہی بھلی بری سناتا اور ہم جواب میں بھڑک جاتے جس سے معاملہ خراب ہو سکتا تھا۔ اس روز ہمیں احساس ہوا کہ کام کی زیادتی کس طرح ہم پر اثر انداز ہو رہی تھی، ہم نے غور کیا تو ادراک ہوا کہ ہمارے ساتھی بھی ہم سے خوش نہیں تھے، جلال صاحب بھی کچھ کھنچے کھنچے سے تھے جبکہ ولا میں علی اور منیب وغیرہ کا رویہ بھی کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ ظاہر ہے قصور ہمارا ہی تھا کام کی تھکن نے ہمیں چڑچڑا بنا دیا تھا جس کی وجہ سے قریبی لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا رویہ خراب ہو گیا تھا رد عمل میں وہ بھی ہم سے کھنچ گئے تھے۔ اب تک تو ہمارے رویے کے باوجود ان لوگوں نے ہمیں برداشت کیا ہوا تھا لیکن آگے جا کر ہو سکتا ہے تعلقات میں دراڑ آجاتی۔
کام کی زیادتی کا دباؤ کسی صورت انسانی صحت کے لئے اچھا نہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دفتری امور میں طویل مدت تک مگن رہنے سے ذیابیطس، اعصابی دباؤ، موٹاپا اور دیگر بیماریوں کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ زیادہ کام سے ذہنی دبائو بڑھنے کے نتیجے میں کھانے پینے کے معمولات پر فرق پڑتا ہے اور لوگ عموما صحت بخش غذا نہیں لے پاتے جس کی وجہ سے ان کا وزن بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ذہنی دباؤ وزن میں اضافے اور امراضِ قلب میں بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے جاگنگ، ورزش اور سائیکل چلانے سے ملازمت کی ڈپریشن اور کام کا دباؤ دور کرنے مدد ملتی ہے۔ محمد رویلی کی مہربانی سے ہمیں اپنے کام کے دباؤ اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل کا احساس ہو گیا تھا۔ کام کی مقدار پر تو ہمارا کنٹرول نہیں تھا لیکن کام کے دباؤ کا اثر کو سر پر اس قدر سوار نہ کرنا تو کسی حد تک ہمارے اختیار میں تھا ہی سو ہم نے کھانے پینے کی روٹین درست کی اور شام میں ورزش بھی شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ساتھیوں سے خراب رویے کی معذرت بھی کرلی جسے انہوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیا۔۔۔ جاری ہے
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...
دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ...
کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں...
رات کودیر سے سوئے تھے اس لیے صبح آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ جب سب لوگ جاگ گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ ناشتہ باہر کسی ہوٹل میں کیا جائے۔ لیکن ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہے نہ اقامہ اس لیے ہمیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب میں کفیل سسٹم ہے، ...
آنکھ ٹھنڈ کی وجہ سے کھلی، اے سی چل رہا تھا اور ہم بغیر کمبل کے سو گئے تھے، بھوک بھی لگ رہی تھی، کلائی کی گھڑی میں وقت دیکھا نو بج رہے تھے۔ ہم نے ابھی تک گھڑی میں وقت تبدیل نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے ریاض میں شام کے سات بج چکے تھے...
ہم ریاض ایئرپورٹ سے باہر آچکے تھے، جہاز میں اور ایئرپورٹ کے اندر ایئرکنڈشننگ کی وجہ سے موسم سردی مائل خوشگوار تھا لیکن ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی گرم ہوا نے استقبال کیا۔ یہاں مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کا وقت تھا،مارچ کا مہینہ ہونے کے باوجود گرمی شباب پر تھی۔ ایک دم گرمی کا شدی...
فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہوائی جہاز ائیرپورٹ کے رن وے پرآہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا۔ ہماری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اس لیے باہر کے مناظر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ منظر تھاایئرپورٹ پر مختلف سائز کے کھڑے جہازاور ٹرمینل کی عمارت بھی نظر آرہی تھی، ایئرپورٹ پر مختلف قسم کی گ...
تیسرے ہزاریے کا پہلا سال تھا، سرکاری نوکری چل رہی تھی،کام کاج کا تردد بھی نہ تھا یعنی سرکاری اہلکاروں کی مانند ہڈحرامی کا دور دورہ تھالیکن دل کو چین نہیں تھا، اطمینان قلبی کی تلاش بھی تھی اور کچھ کرنے کی امنگ بھی ،ابھی دل زنگ آلود نہیں ہواتھا۔ دوسری بات جیب کی تنگی تھی ،سرکار تنخ...