... loading ...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علاقے میں غیر مسلموں کے رہنے پر بھی پابندی نہیں ہے۔جدہ اور مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مقام پر بہت بڑی رحل بنی ہوئی ہے یہاں سے حرم کی حد شروع ہوتی ہے، اس مقام سے آگے غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے یہاں باقاعدہ اقامہ یا پاسپورٹ چیک کیا جاتا ہے پھر آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔ نماز جمعہ کی وجہ سے مسجد حرام میں رش بہت زیادہ تھا۔ اظہار کو اپنی گاڑی بہت دور پارک کرنا پڑی، ہم لوگ پیدل پندرہ منٹ کی مسافت طے کرکے مسجد حرم تک پہنچے، جمعے کی نماز میں تقریبا ایک گھنٹہ باقی تھا،ہماری کوشش تھی کہ کعبہ شریف کے سامنے نماز جمعہ ادا کرتے لیکن رش کی وجہ سے بڑی مشکل سے مسجد حرام کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زم زم کی چھوٹی بوتلیں اور کھجوریں خریدتے ہوئے ہم اپنے ہوٹل پہنچے جہاں بس ریاض روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ہم نے اظہار عالم کو الوداع کہا اور بس میں سوار ہو گئے۔ راستے بھر مسجدالحرام اور مسجد نبوی میں گزرے لمحات ذہن و دل میں اجالے بکھیرتے رہے۔ راستے میں نماز اور کھانے کے لیے بس رکتی تو ہم حرمین شریفین کے خیال سے کچھ دیر کے لیے باہر آتے بس کے چلتے ہی روحانی طور پر دوبارہ اللہ اور اس کے محبوب نبیؐ کے دربار میں پہنچ جاتے۔ رات کو بارہ بجے کے قریب بس بطحہ پہنچ گئی، یہاں بسوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ بطحہ سے ہم نے ٹیکسی لی اور نسیم میں اپنے ولا پہنچ گئے۔ وہاں ہو کا عالم طاری تھا، صبح کام پر جانا تھا اس لیے سب لوگ ہی سو رہے تھے، ہم اپنے کمرے تک پہنچے، چابی لگائی لیکن دروازے کی اندر سے کنڈی لگی ہوئی تھی، ہم نے دروازہ کھٹ کھٹانا مناسب خیال نہ کیا اور اپنا بیگ اٹھا کر چھت پر پہنچ گئے جہاں ایک میٹرس پر پڑ کر سو گئے۔ صبح سورج نے کرنوں کے تیر چلا کر جگایا، سفر کی تھکن کی وجہ سے بغیر چادر اور تکیے کے بھی اچھی نیند آئی تھی، ہم نیچے اپنے کمرے میں پہنچے اور دروازہ کھٹ کھٹایا، علی اٹھ چکا تھا اس نے دروازہ کھولا ہمیں دیکھا تو گلے لگ کر عمرے کی مبارک باد دی اور سفر کا حال احوال پوچھنے لگا، کچھ دیر میں منیب اور واجد بھی اٹھ گئے انہوں نے بھی عمرے کی مبارک باد دی۔ ناشتے کے بعد ہم تیار ہو کر نیچے پہنچے، ہمیں لگا ولا کے چھوٹے سے لان میں لگے پودے بھی ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے لیکن دو روز تک پانی نہ ملنے کی وجہ سے پودے کچھ کملا گئے تھے ہم نے پائپ لگا کر پودوں کو پانی دیا جس سے ان کے چہرے بھی خوشی سے کِھل گئے۔
کالج پہنچے تو سب ملنے والوں نے عمرے کی مبارک باد دی، ہم نے زم زم اور کھجوروں کا تبرک لوگوں میں تقسیم کیا، جلال صاحب نے خصوصی طور پر مبارک باد دی، ان کا کہنا تھا یہاں رہتے ہوئے انسان بہت سارے عمرے کر لیتا ہے لیکن پہلے عمرے کے سرور اور روحانی کیفیت کا کوئی مثل ہی نہیں، جلال صاحب نے اپنے پہلے عمرے کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ کہنے لگے اس وقت نہ سڑکیں اتنی اچھی تھیں نہ ہی ٹرانسپورٹ اتنی عمدہ ہوتی تھی، ریاض سے مکہ جانے میں پورا دن لگ جاتا تھا۔ جلال صاحب سے مل کر ہم اپنے دفتر پہنچے، ہمارا انچارج سیمی موجود نہیں تھا۔ پتہ چلا سیمی صاحب سالانہ چھٹی پر فلپائن چلے گئے ہیں، ہمیں یہ تو پتہ تھا کہ سیمی نے چھٹی پر جانا ہے لیکن ایسے اچانک چلا جائے گا یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔ پتہ چلا سیمی کے گھر میں کوئی ایمرجنسی ہو گئی ہے اس لیے وہ جلدی جلا گیا، سیمی کی چھٹی ایک ماہ کی تھی اس کی غیر موجودگی میں ہمیں اس کا کام دیکھنا تھا۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...