... loading ...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موجود تھے اس لئے ہم بھیڑ سے الگ کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ ہم اظہار عالم کو اور وہ ہم کو دیکھ سکیں۔ سوا دس بجے کے قریب کسی نے پیچھے سے ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور زور سے سلام کیا، ہم نے وعلیکم سلام کہتے ہوئے اظہار عالم کو گلے سے لگا لیا۔ ہماری ملاقات کئی سال بعد ہو رہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنا شروع کیا کھڑے کھڑے خوب باتں کر لیں۔ پھر اظہار عالم نے کہا چلو بھائی باقی باتیں گاڑی میں کر لینا۔ اظہار عالم کی گاڑی کافی دور کھڑی تھی وہاں تک پہنچنے تک باتیں بھی چلتی رہیں۔ کچھ ہی دیر میں اظہار کی گاڑی جدہ کی جانب رواں دواں تھی۔ مکہ سے جدہ کا فاصلہ تقریبا75 کلومیٹر ہے۔ ہم کوئی ایک گھنٹے میں اظہارعالم کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ وہاں عجیب بے ترتیبی پھیلی ہوئی تھی جیسی عام طور پر چھڑوں کے گھروں میں ہوتی ہے ہم نے تعجب کا اظہار کیا تو اظہار نے بتایا کہ اس کی فیملی پاکستان گئی ہوئی ہے۔ ہمیں گھر کا کھانا کھانے کا اشتیاق تھا لیکن یہاں تو اظہار خود ہوٹل سے کھانا کھا رہا تھا۔ خیر بیگ گھر میں رکھنے کے بعد ہم اظہار کے ساتھ باہر نکل ا?ئے، اظہار ہمیں ایک پاکستانی ہوٹل پر لے گیا جہاں حلوہ پوری، پراٹھہ سب دستیاب تھا۔ ہم نے حلوہ پوری سے انصاف کرنے کے بعد مزیدار چائے پی، ہوٹل پر لسی بھی دستیاب تھی اظہار کے اصرار پر ہم نے لسی بھی پی یعنی بھر پور شکم سیر ہوگئے۔ ناشتے کے بعد اظہار ہمیں دوبارہ اپنیگھر لے گیا۔ اظہار کی رہائش جدہ کے علاقے عزیزیہ میں تھی۔ اظہار کے گھر میں کچھ دیر گپ شپ کے بعد ہم ا?رام کرنے کے لیئے لیٹے تو ا?نکھ لگ گئی، اٹھے تو شام کے چار بج رہے تھے۔ ہم نے اظہار سے گلہ کیا کہ بھائی ہماری ا?نکھ لگ گئی تھی تو اٹھا دیتے ہم نے جدہ شہر دیکھا تھا، کچھ دوستوں سے بھی ملاقات کرنی تھی۔ اظہار نے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر ہمیں نہیں اٹھایا تاکہ ہماری نیند پوری ہا جائے۔ ہم جلدی جلدی تیار ہوئے اور اظہار کے ساتھ جدہ گھومنے نکل پڑے۔
جدہ، سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ قدیم دور میں یہ مچھیروں کی بستی تھی جہاں اس دور کی کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں۔ اب یہ ایک جدید بندرگاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جدہ کا سٹی سینٹر بلد کہلاتا ہے۔ یہ پرانا شہر ہے اور یہاں خاصی پرانی عمارتیں موجود ہیں۔ یہ ہمارے کراچی کے صدر اور لاہور کی انارکلی جیسا گنجان علاقہ ہے۔ یہاں سے مکہ اور مدینہ جانے والی پرانی سڑکیں نکلتی ہیں۔ بلد سے مدینہ جانے والی پرانی سڑک شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہوئی مدینہ کی طرف جاتی ہے۔ جدہ میں پاکستانی زیادہ تر شرفیہ، بنی مالک اور عزیزیہ کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی عزیزیہ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ یہاں پاکستان ایمبسی اسکول کے علاوہ کئی پاکستانی اسکول ہیں۔عزیزیہ میں بہت سارے پاکستانی ہوٹل ہیں جن میں مشہور مہران، کبابش، عثمانیہ، اور لاثانی ریسٹورینٹ ہیں۔۔عزیزیہ میں پاکستانی مٹھائیوں کی دکانیں بھی ہیں یہاں ا?ْپ کو نرالہ سویٹ ہاؤس بھی ملے گا جہاں پاکستانی مٹھائی کھانے کے لئے لوگوں کا رش لگا رہتا ہے۔ یہاں پاکستانی اشیا کی بھی بہت سی دکانیں موجود ہیں جہاں سے ا?پ پاکستانی کپڑے، مصنوعات اور دیگر اشیا خرید سکتے ہیں۔۔ جدہ کی سڑکیں ناپتے ہوئے ہم اپنے ایک دوست ا?غا انور علی کی طرف چلے گئے۔ ا?غا صاحب سعودی عرب کے ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھے اور ان کی رہائش ایک سرکاری کمپانڈ میں تھی۔ ا?غا بھی ہماری طرح بیچلر زندگی گزار رہے تھے۔ ا?غا نے اپنا کمپاونڈ دکھایا جہاں سوئمنگ پول، جمنازیم اور لائبریری جیسی سہولیات موجود تھیں۔ ا?غا کے ولا میں چائے پینے کے بعد ہم ا?غا اور اظہار پھر جدہ کی سڑکیں ناپنے نکل پڑے۔ شام میں ہم لوگ جدہ کورنش پہنچے، یہاں ساحل کے ساتھ ساتھ سڑک بنائی گئی ہے جبکہ لوگوں کے بیٹھنے کے لئے سڑک کے ساتھ پارک بھی بنائے گئیہیں۔ یہاں لوگ فیملیز کے ساتھ ا?تے ہیں کچھ لوگ یہاں باربی کیو بنا رہے تھے کبابوں سے اٹھتی خوشبو بھوک بڑھا رہی تھی۔ ہم نے جدہ فاونٹین بھی دیکھا، یہ پانی کا فوارہ دنیا کا بلند ترین فاونٹین کہلاتا ہے۔ ا?ج کل مسجد فاطمہ زہرہ جدہ کورنش کی سب سے بڑی اٹریکشن بنی ہوئی ہے، یہ مسجد سمندر میں تیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...