... loading ...
ڈاکٹر صفدر محمود پاکستانی ادب و صحافت کا ایک رخشندہ آفتاب ہیں۔ علم و ادب میں کمال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اسی دھرتی اور اسی مٹی نے انہیں عزت بخشی ہے ،یہ سرزمین پاک ان کا پرِ پرواز بھی اور شوق و شعور بھی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ہماری قومی تاریخ کے کئی عشروں کے عینی شاہد ہیں۔ تحریک پاکستان اور پاکستانیت ان کی تحقیق اور جستجو کا ہمیشہ سے موضوع رہا ہے ۔ اس حوالے سے بلاشُبہ ڈاکٹر صاحب ایک اتھارٹی ہیں
ہو ا کے دوش پر اُڑنے سے پہلے لفظ اردو کے
سُنا ہے آپ کے گھر سے دعائیں لے کے جاتے ہیں
گزشتہ یومِ اقبال کے حوالے سے میں نے اپنے ایک کالم میں انجمن ترقی اردو ( ہند) نئی دہلی کی شائع کردہ کتاب ’’حیاتِ محروم‘‘ کے صفحہ 130 کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی تحریرکا یہ حصہ نقل کیا تھا کہ ’’رات کو جب قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان لاہور سے میرا قومی ترانہ نشر ہوا ۔
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمینِ پاک
اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
اپنا وطن ہے راہِ ترقی پہ تیز گام
آزاد ، با مُراد ، جواں بخت، شاد کام
اب عطر بیز ہیں ، جو ہوائیں تھیں زہر ناک
اور اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوسرے دن 15 اگست کو جب ہندوستان کا جشنِ آزادی منایا جارہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے حفیظ جالندھری کا ترانہ
’’ اے وطن، اے انڈیا ، اے بھارت ،اے ہندوستان‘‘ نشر ہو رہاتھا ۔۔۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم مورخہ 17 جنوری2017 ء میں وکی پیڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے تحریرفرمایا ہے کہ ’’ کسی صاحب نے وکی پیڈیا پہ یہ بے بنیاد شوشہ چھوڑدیا کہ قائد اعظمؒ نے 9 اگست 1947 ء کو لاہور کے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو بُلایا اور اسے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کوکہا جگن ناتھ آزاد نے ترانہ لکھا ، قائد اعظم نے اس کی منظوری دی ۔ اور چودہ اگست اور پندرہ اگست 1947ء کی شب جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو وہ ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ۔ میں نے اِس افسانے کی مکمل تحقیق پر ایک ماہ صرف کیا ۔ ریڈیو پاکستان اور کابینہ ڈویژن کے ریکارڈ، اخبارات اور قائد اعظم مرحوم کے اے ڈی سی عطاء ربانی سے تحقیق کرنے کے بعد جب مجھے یقین ہوگیا کہ یہ شوشہ نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ انیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ تو میں نے تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے بہت سے اخبارات میں مضامین لکھے کیونکہ معتبر کالم نگار سوچے سمجھے بغیر جگن ناتھ آزاد کو قومی ترانے کا خالق، قائد اعظم کا دوست اور نہ جانے کیا کیا لکھ رہے تھے ان کا مقصد قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا تھا اور میر امقصد تاریخی ریکارڈ کی درستی تھی ۔ ‘‘
ڈاکٹر صفدر محمود نے جمشید رضوانی کے جگن ناتھ آزاد کے حوالے سے لکھے گئے ایم اے کے مقالے کا حوالہ بھی دیا جو جموں و کشمیر میں شائع ہوا ۔ ممتاز اسکالر سید نصیر شاہ مرحوم نے بھی ایک ماہنامہ میگزین میں ’’ یادیں اور یادگاریں ‘‘ کے عنوان سے لکھی جانے والی اپنی یادداشتوں میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کو پاکستان کے پہلے قومی ترانے کا خالق قرار دیا تھا ۔۔ لیکن اب تک ڈاکٹرصفدر محمود کی جانب سے کی جانے والی وضاحت کا نہ تو کسی نے جواب دیا ہے ،نہ ان سے اختلاف کیا ہے ۔لہٰذا ڈاکٹر صفدر محمود کی تحقیق کے سامنے ہتھیار ڈالے اور قومی ترانے کے حوالے سے ان کی وضاحت تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔۔۔
لیکن بصد احترام ڈاکٹر صفدر محمود کے حالیہ کالم کے حوالے سے اتنا عرض کرنے کی جسارت ضر ور کروں گا کہ ’’ مسلم لیگ ، قائد اعظم اور پاکستان کے مخالف اخبار ’’ جئے ہند ‘‘ لاہور کے26/27 سالہ ملازم جگن ناتھ آزاد کی اقبالیات اور مسلمانوں سے وابستگی کو صرف اس وجہ سے یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہندو دھرم سے تعلق رکھتے تھے ۔ تحریک پاکستان گواہ ہے مسلمانوں کے ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی غالب اکثریت نے بھی مسلم لیگ ، نظریہ پاکستان ، حضرت قائد اعظم ؒ اور قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن آج انہیں اس ملک میں نہ صرف عزت و توقیر حاصل ہے بلکہ یہی طبقات مملکت خداداد کے مالک اور وارث بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد میرے میانوالی کے علاقے عیسیٰ خیل سے تعلق رکھتے تھے ، وہ اپنے دور کے نامور شاعر تلوک چند محروم کے صاحبزادے تھے ۔ قیامِ پاکستا ن کے وقت تلوک چند محروم راولپنڈی میں جبکہ آزا د لاہور میں تھے ، دونوں پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے ۔ لیکن حالات بگڑتے چلے گئے ہندو مسلم فسادات اپنی انتہا کو پہنچے تو دونوں ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے ۔
فراق گورکھپوری نے ان کے ترکِ وطن پر کہا تھا کہ ’’ تقسیمِ ہندوستان نے حضرت محروم سے ضعیفی میں اور آزاد سے جوانی میں ان کا محبوب خطہ وطن چھُڑا دیا ‘‘۔۔۔۔آزاد کے درجنوں اشعار ایسے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوںنے بھارت جا کر بھی پاکستان کو نہیں بھُلایا۔ ان کی ایک نظم کے آخری دو اشعار ملاحظہ کیجیے کہ
وطن کی اے مقدس سر زمیں احساس بھی کچھ ہے
کہ تُجھ سے چھٹ کر تیرے سوختہ جانوں پہ کیا گزری
تُجھے اے کاش دہلی اور شملہ یہ بتا سکتے
میانوالی کے صحرا تیرے دیوانوں پہ کیا گزری
’’ مسلم لیگ ، پاکستان اور قائد اعظم ؒ کے مخالف اخبار ’’جئے ہند ‘‘ میں کام کرنے والے اسی نوجوان نے بھارت میں اقبالیات کا علم اُس وقت بُلند کیا جب بھارت میں اقبالؒ کا نام لینا ہندوستان دشمنی سمجھا جاتا تھا ۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں۔’’تقسیم ہند کے ابتدائی برسوں میں بھارت میں اقبال ؒ کا نام لینے والوں کو فرقہ پرست اور بھار ت دشمن خیال کیا جاتا تھا۔یوں سمجھئے کہ اقبالیات کے حوالے سے سناٹا چھایا ہوا تھا۔جگن ناتھ آزاد نے اس سناٹے کو توڑا۔آزاد کو جب جموں و کشمیر یونیورسٹی کی جانب سے اقبالؒ پر لیکچرز دینے کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا تو اس وقت وہ حکومتِ ہند کے محکمہ اطلاعات میں ملازم تھے۔انہوں نے محکمے سے سری نگر جا کر لیکچر دینے کی اجازت مانگی تو متعلقہ وزیر صاحب نے درخواست مسترد کر دی۔انہی دنوں سجاد ظہیر جیسے نام نہاد ترقی پسند دانشوروں نے آزاد پر الزام لگایا تھا کہ وہ اقبالؒ پر لیکچروں کے ذریعے مسلم فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔‘‘
بھارت میں اقبال ؒ دشمنی عروج پر تھی۔گور کھ یونیورسٹی نے بھارت کے ایک اور اقبالؒ شناس ڈاکٹرعبد الحق کو اقبالؒ پر ڈاکٹریٹ کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقبالؒ ہندوستان دشمن تھے۔اور اس پر پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔ایسے کٹھن حالات اور گھٹن زدہ ماحول میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد نے بھارت میں اقبالیات کو عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1973 ء میں ’’ اقبال نمائش ‘‘ کا اہتمام کیا۔اس نمائش کے باعث انہیں زبردست عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔انہیں غدار اور ملک دشمن کہا کہا گیا ۔۔۔اقبالؒ کی آفاقی حیثیت اپنے آپ کو خود منواتی ہے۔کچھ اقبال ؒ کی آفاقیت کا کمال تھا کچھ جگن ناتھ آزاد کی محنتوں کا ثمر ، بھارت کے علمی اور ادبی حلقے اقبالیات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔اِسی سال( 1973 ء) میں دہلی میں ایک بین الاقوامی اقبال ؒ کانگریس کا انعقاد ہوا۔اس کانگریس کے سیکرٹری ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد تھے۔اس کے بعد اقبالیات بھارت کے طول و عرض میں پھیلتی چلی گئی۔کشمیر یونیورسٹی میں اقبال ؒ چیئر قائم ہوئی۔جو اَب اقبال ؒ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے اقبال ؒ شناسی کا کام کر رہی ہے۔
اقبال ؒ صدی کے حوالے سے دسمبر 1977 ء میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد پاکستان آئے۔ان کے کہنے پرصدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے نہ صرف فوری طور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اقبال ؒ چیئر قائم کرنے کا حکم دیا بلکہ آزاد کو’’صدرِ پاکستان اقبال میڈل ‘‘ سے بھی نوازا تھا ۔
آزاد ہندو ہونے کے باوجودکھلے ذہن اور کھلے دل کے مالک تھے۔ا سلام ا ور مسلمانوں کے لیے انہوں نے ہمیشہ خیر سگالی کا عملی اظہا ر کیا۔1949 ء میں انہوں نے ــ” بھارت کے مسلمانوں ” کے عنوان سے ایک معرکۃ آرا نظم بھی لکھی تھی۔بابری مسجد کی شہادت پر انہوں نے کہا تھا کہ
یہ تُو نے ہند کی حُرمت کے آئینے کو توڑا
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے
ہمارے دل کو توڑا ہے، عمارت کو نہیں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے
جگن ناتھ آزاد کی مادری زبان پنجابی اور قومی زبان ہندی تھی۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے دامن میںاردو کی محبت کو سموئے رکھا ۔ اقبالیات کے حوالے سے ان کی جو کتب منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں اقبال ؒ اور اس کا عہد،اقبالؒ اور مغربی مفکر،اقبالؒ کی کہانی ، اقبال ؒ اور کشمیر،مرقع اقبال (البم (،اقبالؒ ایک ادبی سوانح حیات ،اقبال ؒ کی زندگی شخصیت اور شاعری،اقبال ؒ مائنڈ اینڈ آرٹ(انگریزی )، اور اقبالؒ ہزپوئٹری اینڈ فلاسفی ( انگریزی ) شامل ہیں۔
اقبال شناسی اور ارُد و کے لیے آزاد کی خدمات زندہ رہیں گی، وہ اقبالؒ کے کلام کو ازبر کرنے کے حوالے سے ہمیشہ حافظِ اقبال کہلائیں گے۔برصغیر میں جب بھی روشن خیالی،خیر سگالی اور بے تعصبی کا ذکر آئے گا تو ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کا نام روشنی کی کرنیں بکھیرے گا۔ لہذا ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کو صرف ہندو ہونے کی وجہ سے پاکستان کا مخالف اور اقبال شناسی کی وجہ سے ان کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرنے والوں کو سیکولر ازم کا پرچار کرنے والا قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
٭٭