... loading ...
جن معاشروں میں سیاست‘ جرائم اور کرپشن میں گٹھ جوڑ ہو جائے۔ وہاں کھیتوں میں بھوک کا اگنا‘ غربت اور فاقہ کشی‘ امانت میں خیانت‘ جہالت کا فروغ‘ بے غیرتی‘ گروھی تضادات اور فسادات عام بات ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے۔ اس مملکت خدا داد میں اب نہ کوئی داد ہے اور نہ فریاد پوری قوم امریکی قید میںتڑپتی‘ سسکتی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزیر اعظم سے اپیلیں کرتی رہی کہ ایک چھوٹا سا میمو یا درخواست امریکہ کے سبکدوش صدر بارک اوباما کو ارسال کردیں تو قوم کی یہ بیٹی امریکی قید سے رہائی پاکر پاکستان آجائے گی لیکن بر سر اقتدار آنے سے قبل میاں نواز شریف نے جو وعدہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عفت صدیقی سے کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ پہلا کام عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں کریں گے‘ ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اوباما کی عام رہائی والی پیشکش اور رعایت سے ہی فائدہ اٹھالیتے جس کے تحت سینکڑوں قیدیوں کو اوباما کی سبکدوشی سے قبل رہا کیا گیا ہے۔ اطلاعت کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کا نام بھی رہائی پانے والے قیدیوں میں شامل تھا۔ صرف حکومت پاکستان کی جانب سے ایک رسمی خط کی ضرورت تھی جس کیلئے نواز حکومت تیار نہ ہوئی اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا سنہری موقع گنوا دیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کو 17سالہ مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم کی یاد بھی نہیں آئی جن کا دن تو ہر سال 10رمضان المبارک کو بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے لیکن ان کا وہ کارنامہ دوہرانے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک مسلمان عورت کی فریاد پر اسے بچانے کے لیے ہی حجاز سے بحری جہازوں میں اپنی سپاہ کے ہمراہ دیبل کی بندرگاہ (سندھ) آئے تھے اور یہاں کے راجہ داھر کو شکست دی تھی۔ اس وقت سیاست‘ جرائم اور کرپشن میں’’مک مکا‘‘ نہیں ہوا تھا۔ غیرتِ ایمانی جاگ رہی تھی۔ 1990ء کی دھائی کا ذکر ہے۔ برطانیہ میں عالمی فٹبال کپ کا میچ تھا۔ انگلینڈ کی ٹیم نے ترکی کی ٹیم سے شکست کھائی تو چند گورے نوجوان بپھر گئے‘ بے قابو ہوکر میدان میں داخل ہوئے‘ ترک کھلاڑیوں سے بد تمیزی کی اور ترکی کا پرچم پیروں تلے روند ڈالا۔ یہ تمام مناظرترک حکمران اور عوام نے ٹیلی ویژن پر دیکھے تو قومی غیرت نے جوش مارا ترک حکومت نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ہمارا قومی پرچم روندنے والوں کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ برطانوی حکومت نے غیر رسمی معذرت سے کام چلانے کی کوشش کی لیکن ترک حکومت اپنے موقف پر ڈٹ گئی۔ برطانیہ نے ان نوجوانوں کو پکڑ کر فرانس میں داخل کردیا اور کہا کہ وہ ہماری سر زمین پر نہیں ہیں ترک حکومت نے جواباً برطانوی بحری جہازوں کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے اور گزرنے سے روک دیا۔ دوسری طرف فرانس پر دباؤ ڈالا کہ مذکورہ نوجوان ہمارے حوالے کیے جائیں ۔ فرانس نے مطلوبہ افراد کو اٹلی پہنچا دیا۔ ترک حکومت نے فرانس کے بحری جہازو پر بھی پابندی لگادی اور اٹلی کو دھمکی دی کہ اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ اطالوی حکومت نے ترکوں کے تیور دیکھے تو ملزمان کو پکڑ کرترکی کے حوالے کردیا۔ ان نوجوانوں کو ایک فٹبال میچ کے دوران اسٹیڈیم میں لایا گیا اور انہیں اسٹیج پر کھڑا کرکے ترکی کے پرچم کو سلامی دلوائی گئی۔ اس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ یہ تھا قومی غیرت کا وہ شاندار اور تاریخی مظاہرہ‘ جو یورپی ملکوں کو آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ عرب ملک شام میں ہونے والی حالیہ خانہ جنگی اور امریکی‘ روسی بمباری کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کے لیے سب سے پہلے ترکی نے اپنے دروازے کھولے۔ 50ہزار یتیم بچوں کی رہائش اور خوراک کا بندوبس کیا جارہا ہے۔ ان بچوں کو مفت تعلیم اور ساری سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ ہر بچے پر 32ڈالر ماہانہ خرچ کیا جارہا ہے۔ ترک شہریوں نے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے ہیں۔ ہر گھرانہ 600بچوں کی کفالت کررہا ہے اورانہیں اپنے گھروں میں پناہ دی ہے۔ کوئی ترک شہری نہ تو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ڈرا ہے اور نہ ہی امریکہ کی دہشت نے انہیں مہاجر بچوں اور خاندانوں کی کفالت سے روکا ہے۔ پاکستانی حکومت ایک نہتی اور بے بس قیدی لڑکی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ایک خط نہ لکھ سکی اور اوباما صدارت چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تو اس کی توقع ہی عبث ہے‘ جنہوں نے حلف اٹھاتے ہی اپنی پہلی تقریر میں یہ اعلان کیا ہے کہ دنیائے اسلام سے دہشت گردی ختم کردیں گے حالانکہ دہشت گردی تو دنیا کے غیر اسلامی ملکوں میں بھی موجود ہے۔ کیا بھارت دہشت گردی سے پاک ہے جہاں 17سے زیادہ صوبوں اور ریاستوں میں مختلف تحریکیں چل رہی ہیں لیکن صدر ٹرمپ کو بھارت نواز سمجھا جاتا ہے۔ انہیں بھارت یا اور غیر اسلامی ممالک میں دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے اسلام دشمن پادری کی دعاؤں تلے حلف اٹھایا ہے اور اسلامی ملکوں کے خلاف ایک نیا اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان سے اچھا چین ہے جو پاکستان کا دیرینہ اور پختہ دوست ہے۔ چین نے مولانا مسعود اظہر کے خلاف بھارت کی قرار داد ویٹو کی ہے ۔2000ء میں چین اور بھارت کی تجارت صرف دو ارب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 80ارب ڈالر ہوگئی ہے لیکن چین نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی۔ پاکستان کے ڈرپوک حکمران کیا نئے چیلنجوں کا سامنا کرسکیں گے۔ اس کے لیے سب سے پہلے سیاست کو کرپشن اور جرائم سے پاک کرنا ہوگا۔ مجرموں اور بدعنوان سیاستدانوں کے لیے سینیٹ اور اسمبلیوں کے دروازے بند کرنا ہوں گے۔
٭٭