وجود

... loading ...

وجود

پاک چین اقتصادی راہداری :ایک پہلو

هفته 21 جنوری 2017 پاک چین اقتصادی راہداری :ایک پہلو

پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے لیے یہ امر نا قابلِ فہم ہے کہ جب ہمارے سوہنے ملک میں خطے کی سب سے بڑی معاشی اور ترقیاتی سرگرمی شروع ہو چکی ہے اور ہمارے حکومتی میڈیائی طمانچوں کے مطابق ، دنیا کا ہر ملک پاکستان کے اس (اب تک کی خبروں کے مطابق) عظیم الشان منصوبے میں شمولیت کا خواہش مند ہے تو پھر اس میں مقامی صنعت کار سرگرم نظر کیوں نہیں آ رہے ، اوران کو کیا موت پڑی ہوئی ہے ؟کچھ صنعت کار دوستوں سے تبادلہ خیال کرنے کا قصد کیا ،ان میں سے تین تو وہ تھے کہ جب انہوں نے آج سے کئی دہائیاں پہلے چین کے اشتراک سے اپنے صنعتی منصوبے لگائے تو ہم جیسے دوستوں نے ان کا مذاق اُڑایا تھا کہ چینی چیز ہے، چلے چلے، نہ چلے نہ چلے۔ اب چین ایک معاشی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی پیداواری قوت بن چکا ہے،اور اس کا سکہ چار دانگِ عالم میں چلتا ہے۔ توایسے میں پاکستا ن میں ان کے روائتی شراکت دار اس میدان سے کیوں باہر بیٹھے ہیں۔
کچھ دوستوںکے پاس پہنچے ،کافی کے آنے سے پہلے ہی مدعا عرض کیا کہ آپ تو چین کے ساتھ کاروبار کرنے والے اول اول لوگوں میں شامل تھے ، اب کیا ہوگیا ہے۔ تو تقریباً سب نے جوابِ لاجواب یہی دیا کہ اس دفعہ سب کچھ ’’رائیونڈ ‘‘کے گردہی گھوم رہا ہے۔ ہم نے اسی لہجے میں استفسار کیا ’’یعنی رائیونڈ محلات والوں کے بیٹوں اور دامادوں کے ارد گرد‘ـ‘؟
فرمانے لگے کہ نہیں ، صرف اورصرف بیٹوں کے گرد،دامادوں کو اگر کچھ جائے گا تو وہ بیٹیوں کے ذریعے جائے گا، براہِ راست نہیں۔
عرض کیا :لیکن لاہور میں کوڑا اکٹھا کرنے والی دو کمپنیوں کے بارے میں تو کچھ دل جلے ایک پربیٹے کی اور دوسری پرداماد کی بھپتی کستے ہیں، تو انہوں تجاہلِ عارفانہ سے فرمایا کہ جناب وہ لین دین کا طریق ’ترکیوں ‘سے تھا، چینیوں سے لین دین کا طریقہ اب الگ ہے۔
اس قدر دل جلا ہونے اور انگارے پھانکنے کی وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ ’ہم نے کم از کم ایک درجن بڑے منصوبوں کی نشاندہی کی تھی ، اپنے شراکت دارچینیوں کو راضی بھی کرلیا تھا، لیکن ہماری سرکار نے ہمیں انکار کرکے وہی منصوبے اٹھا کر کسی اور کو تھما دیے گئے‘۔ اور اب نیا قانون پاس ہونے جا رہا ہے کہ تھر میں بجلی سازی کے خواہش مند صنعت کاروں کے لیے ایک مستقل ٹیرف طے کردیا جائے تا کہ معاملات شفافیت کی طرف بڑھ جائیں، حالاں کہ نئے ٹیرف کا واحد مقصد نئے سرمایہ کاروںکو اس شعبے کے اندر آنے سے روکنا ہے۔ یعنی جنہوں نے ملائی کھانی ہے ان کو آٹھ اور دس روپے اور سولر میں (قائد اعظم سولر پارک) سولہ اور بیس روپے فی یونٹ والی ملائی کھا رہے ہوں گے اور آئندہ بیس سال تک تو کھائیں گے ؟ اور مزید آنے والوں کے لیے ٹیرف اس قدر کم ہو گا توان کے لیے داخلے کا رستہ ہی مسدود ہوجائے گا۔
عرض کیا :لیکن بجلی کی اس قدر زائد قیمت ادا کون کرے گا؟ فرمانے لگے اس کی نیٹ پریکٹس کر بھی لی گئی ہے۔ لاہور شہر میں اس وقت بجلی کی چوری بیس فی صد کے لگ بھگ ہے، ہم نے لقمہ دیتے ہوئے عرض کیا :کہ ہمارے گھر کے پچھواڑے میں واقع پورا محلہ بجلی چوری کرتا ہے، ہم نے جب شکایت کی تو اس کے جواب میں لیسکو اہل کاروں کی بجائے وہ سب بجلی چور لوگ اکٹھا ہو کر ’شکوہ‘ کرنے آ گئے۔ ان کی پانی کی موٹریں سارا سارا دن چلتی اور پانی ضائع کرتی رہتی ہیں، سنا ہے کھانا بھی ہیٹر پر بنتا ہے، جب کہ بارہ ربیع الاول، چودہ اگست ، تیئس مارچ سمیت ہر اہم اور متبرک موقع پر کئی کئی دن ان کے گھروں پر چراغاں بھی اسی چوری کی بجلی کا ہی رہتا ہے، لیکن لیسکو اہل کار ان سے پانچ صد ماہانہ سکہ رائج الوقت وصول کرتے ہیں اور ان کو پورے مہینے کے لیے کھلی چھٹی عطا کرتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام تر چوریوں کے باوجود لیسکو کی بل وصولی کی شرح چھیانوے فی صد ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام میں اپنے ریونیو ٹارگٹ پورے کرنے کے لیے لیسکو نے جاری کردہ بجلی کے مقابلے میں 104فی صد سے زائد رقم وصول کر لی ،جس پر پھر نیپرا حرکت میں آیا اور لیسکو کے چیف ایگزیکٹو اور پورے بورڈ آف ڈائریکٹر کو گھر کی راہ لینا پڑی۔ (شاید اسی لیے نیپرا جیسے نا ہنجاروں کا اب مکو ٹھپا جا چکا ہے) لیکن اس پر بل ادا کرنے والے صارفین کا حشر دیکھو کہ ایک تو انہوں نے چوری شدہ بجلی کا بل بھی ادا کیا بلکہ اس پر مستزاد لیسکو کے ریونیو ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے چار فی صد زائد بل بھی دیا۔
’بجلی‘ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
فرمانے لگے :بس اسی پریکٹس کے بعد انہیں پتہ چل گیا ہے ، تختِ لاہور کے عوام زیادہ سے زیادہ’ جوتے مارنے والوں کی تعداد ‘میں اضافے کا مطالبہ کریں گے کہ بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، اس لیے آن لائن ادائیگی کا اہتمام کردیں۔ یعنی لاہوریوں کو اپنی صَرف شدہ بجلی سے زائد بل ادا کرنے کی عادت ہو گئی ہے، اس لیے یہ کوئی احتجاج نہیں کریں گے۔ عرض کیا :لیکن میڈیا؟ فرمانے لگے :اس کا منہ تو سرکار کی ہڈی سے پہلے ہی بند ہے، اس نے اس پر کیا بولنا ہے؟
عرض کیا :تو کیا ہم پھر اقتصادی راہداری کے معاملے میں ’نہ ‘ ہی سمجھیں ؟ فرمانے لگے نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ چائے کے کھوکھے، سڑکوں کے کنارے ڈھابہ نما ہوٹل، ٹائرو ں پہ پنکچر لگانے کی دکانیں یا پھر پٹرول پمپس جیسے سہولتوں میں سرمایہ کاری کی آپ کو اجازت دستیاب ہے، ویسے یہ کام بھی ارب ہا ڈالرز میں چلا جانا ہے بارہ گھنٹے کی شفٹ میں۔ عرض کیا: اورچینی ڈرائیوروں کی مُٹھی چاپی یا مساج وغیرہ،تو فرمانے لگے :اس میں آپ کا اسلام آڑے آئے گا ، اس لیے چینی اور روسی یہ سہولیات ساتھ لائیں گے، آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
اجازت لینے کے لیے ہاتھ بڑھانے سے پہلے ہمارے اندر کا نواز شریف کا سکہ بند ایجنٹ انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا، عرض کیا میاں صاحب آپ اس لیے نواز شریف خاندان کے خلاف ’’سڑیاں پھینک ‘‘رہے ہیں کیوں کہ آپ کااقتصادی راہداری میں کوئی ’ٹُچ‘ فٹ نہیں ہو سکا، فرمانے لگے :ایسی بھی بات نہیں ، ہم نے بڑے ارمانوں سے میاں نوازشریف کی اُس حکومت سے لگ بھگ سو کے ارد گرد دوائیاں بنانے کے اجازت نامے مانگے تھے جس کے لیے ٹاپ لیول سے کرپشن کے مکمل خاتمے کی دعویدار حکومت کی وزیر صحت کے مصاحبین نے ان میں سے تیس کے اجازت نامے دیے ، جب کہ تحریری اجازت نامے صرف چار کے جاری ہوئے، کیوں کہ باقی چھبیس دوائیوں کے اجازت ناموں کی نواز شریف کی شفاف حکومت نے اس قدر ’قیمت ‘ طلب کی کہ ہم نے توبہ کرلی ،ہماری تیار کردہ ان دوائیوں کے پہلے کنٹینرکی آئندہ ہفتے ویت نام روانگی کی تقریب ہے، ضرور تشریف لائیے گا آپ کو دعوت ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


بھارت سی پیک کواتھل پتھل کرنے کی سازشوں میں مصروف ! وجود - اتوار 02 جولائی 2017

چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے خطے میں تجارتی روابط قائم کرنے کی بھارتی کوششوں کو ’جغرافیائی سیاسی ضد‘ قرار دیتے ہوئے نئی دہلی پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کو مکمل طور پر بائی پاس کرنے کے بجائے اس سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بحال کرے۔ گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم...

بھارت سی پیک کواتھل پتھل کرنے کی سازشوں میں مصروف !

پاک چین اقتصادی راہداری ‘چینی منصوبہ سازوں کی نظر پاکستانی زراعت سے استفادے پر ۔۔!! وجود - جمعرات 18 مئی 2017

[caption id="attachment_44572" align="aligncenter" width="784"] سڑکوں اور اہم بازاروں میں ویڈیو سیکورٹی سسٹم نصب ہوگا، زراعت میں آنے والی چینی کمپنیوں کو ان کی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی مراعات کی پیشکش کی جائے گی ،چینی سیاحوں کو ویزا کے بغیرپاکستان میں داخل ہونے کی اجازت پرزور،...

پاک چین اقتصادی راہداری ‘چینی منصوبہ سازوں کی نظر پاکستانی زراعت سے استفادے پر ۔۔!!

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر