... loading ...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں کے لیے قائم کی گئی اور جسے تمام جہانوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک متعدد انبیاء نے اپنے اپنے وقت میں کعبہ شریف کی تعمیر میں حصہ لیا۔اس جگہ کی تقدیس کا کیا کہنا، روئے زمین پر کوئی جگہ اس جگہ سے زیادہ متبرک نہیں، جلیل القدر انبیاء نے اس کا طواف کیا ، ان لمحات کی سعادت کا کیا کہنا جب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے گھر کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔ان سعادت سے بھرپورساعتوں پر ہزاروں سال قربان کہ جب ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ طواف کعبہ کر رہے تھے ، حجر اسود کو بوسے دے رہے تھے، اپنے رب کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ پکار رہے تھے۔ ہمارے دل میں بھی کعبہ شریف کو دیکھنے اور حجر اسود کو بوسہ دینے کی خواہش تڑپ رہی تھی۔ ہوٹل کے کمرے میں بیگ رکھا اور سیدھے حرم کی راہ لی۔ حرم شریف ہوٹل سے آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر تھا، ہمارے قدم جیسے جیسے سوئے حرم بڑھ رہے تھے، شوق کا عالم بھی بڑھتا جا رہا تھا، ہم جس سڑک پر جا رہے تھے وہاں سے حرم شریف کی عمارت نظر نہیں آرہی تھی لیکن پھر دائیں ہاتھ کی سڑک پر مڑتے ہی حرم شریف کا دیدار ہو گیا، آنکھ پُر نم تھی ہمیں اپنی خوش قسمتی پر ناز ہو رہا تھا کہ اللہ پاک نے اپنے حرم کی زیارت کا موقع نصیب کیا۔ حرم شریف کے نظر آتے ہی قدم خود بخود تیز ہو گئے، دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوتی جا رہی تھیں، اب حرم شریف سامنے تھا، ہم باب فہد سے حرم شریف میں داخل ہوگئے۔ دل شوق و محبت کے جذبات سے معمور اور آنکھیں بیت اللہ کی زیارت کے لیے بیتاب تھیں۔ صحن حرم سے پہلے ہی کعبہ شریف کی جھلک دکھائی دی، آنکھیں چھلک پڑیں۔ تیز قدموں سے صحن حرم میں قدم رکھا کعبہ شریف سامنے تھا۔ اللہ کے جلال و جمال کا ایسا حسین امتزاج نظروں میں تھا کہ ایسا نظارہ نہ اس سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دنیا کا کوئی منظر اس جیسا کیا اس سے ہزار درجے کم جیسا بھی محسوس نہ ہوا۔ یا اللہ یہ میں کہاں آگیا ہوں ، کہاں میں گناہ گار بندہ کہاں یہ مقام کہ تیرے گھر کا دیدار ہو رہا ہے۔ ہوش گم ہو چکے تھے سدھ بدھ کھو چکی تھی، زبان پر تلبیہ اور نگاہوں سے آنسو جاری تھے۔ رات کی سیاہ ڈوری دن کے سفید دھاگے میں بدل رہی تھی، حرم پر نور کی بارش ہو رہی تھی قلب پر تجلیات برس رہی تھیں۔
اب عمرے کا فریضہ پورا کرنا تھا، عمرے کے لیے درج ذیل اعمال پورے کرنا ضروری ہیں۔ نمبر ایک احرام باندھنا، نمبر دو طواف کرنا، نمبر تین سعی کرنا، نمبر چار بال منڈوانا اور نمبر پانچ احرام سے نکلنا۔۔ ہم نے طواف شروع کیا تو جسم کا رواں رواں رب کائنات کی بزرگی اور وحدانیت کی گواہی دینے لگا، زبان و دل پر دعائیں مچلنے لگیں۔ ایک عالم سرخوشی میں فریضہ طواف ادا کیا، خوش قسمتی سے حجر اسود کو بوسہ دینے کی سعادت بھی نصیب ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ حجر اسود کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ جنت کا پتھر ہے۔ ابراہیم علیہ السلام جب کعبہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو تھوڑی سی جگہ انھوں نے کسی خوبصورت پتھر کے لیے رکھی اور اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کوئی خوبصورت پتھر تلاش کر کے لاؤ جو یہاں لگایا جا سکے۔ ایسے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے یہ پتھر لے آئے جسے حجر اسود یعنی کالا پتھر کہا جاتا ہے۔ طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کا مرحلہ بھی بخوبی طے کیا، جس کے بعد ہم نے حرم سے باہر جاکر سر کے بال منڈوا لیے۔ عمرہ ادا ہو چکا تھا۔ ادائیگیٔ عمرہ کے بعد احرام کھولا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہوٹل واپس جا کر کپڑے تبدیل کیے اور دوبارہ حرم شریف پہنچ گئے جہاں دیر تک نوافل کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا۔ نماز ظہر کے بعد ہماری بس مدینہ شریف کیلیے روانہ ہو گئی۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...