وجود

... loading ...

وجود

نئی امریکی انتظامیہ کے رنگ ڈھنگ نئے یا پرانے ؟

جمعرات 19 جنوری 2017 نئی امریکی انتظامیہ کے رنگ ڈھنگ نئے یا پرانے ؟

امریکا کے نامزد وزیردفاع جیمز میٹس نے گزشتہ دنوں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو سیکورٹی شرائط پر دی جانے والی امداد کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔نامزد وزیر دفاع نے اپنی توثیق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے دوران کہا کہ سیکورٹی شرائط پردی جانے والی امداد دونوں ممالک کی تاریخ کا حصہ رہی ہے، مگر وہ اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ ان معاملات کا از سر نوجائزہ لیں گے۔نامزد وزیر دفاع کے مطابق خاص طور پر ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ پاکستان کسی بھی رویے سے مقامی عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔دیکھا جائے تو جیمز میٹس کی جانب سے دیے جانیو الے دلائل امریکی دارالحکومت میں پاکستان کے خلاف پردے میں دیے جانے والے دلائل کا سلسلہ تھے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے پاکستان پر ہمیشہ برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جیسے 90کی دہائی میں پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد امریکا نے پابندیاں عائد کیں۔پاکستان کے خلاف لگائی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کرنے والے لوگوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے جوہری تجربات ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے نہیں بلکہ بھارت کے جواب اور امریکا کے ساتھ روابط کی وجہ سے بڑھنے والی دہشت گردی کو کم کرنے کے لیے کیے ہیں۔نامزد وزیر دفاع جیمز میٹس نے سینیٹ پینل کے سامنے پیش ہونے کے بعد اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ وہ وزیر دفاع کی حیثیت سے پالیسی پر عمل کریں گے۔جیمز میٹس نے کہا کہ وہ پاکستان اورامریکا کے درمیان سیکورٹی امداد کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی سے رجوع کریں گے۔نامزد وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور حالیہ برسوں میں خراب ہونے والے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کام کریں گے، مگر ساتھ ہی انہوں نے اسلام آباد سے درخواست کی کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گرد گروپوں کوبے اثر کرے۔سفارتی مبصرین نامزد سیکریٹری دفاع کے اس بیان کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے لیے فوجی پالیسی کی جھلک کے طور پر بیان کر رہے ہیں، جس میں اوباما انتظامیہ کی ’گاجر اور چھڑی‘ کی پالیسی کا تسلسل ہے۔نامزد وزیر دفاع کے ایسے بیان کو نئی دہلی اور کابل میں حساس طور پر دیکھا گیا، جہاں کی میڈیا نے سرکاری عہدیداروں کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسلام آباد کو اپنے دونوں پڑوسی ممالک کے حوالے پالیسی تبدیل کرنے کے لیے زور ڈالے گی۔
دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے امریکا کے ساتھ تعلقات کی دوبارہ تعمیر کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ مجوزہ ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منظوری دے کر اسلام آباد کے حق میں کوئی فیصلہ کرے گی۔جلیل عباس جیلانی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو عوام کے منتخب رہنما ہیں جو ایف 16 سمیت دیگر معاملات کو ہمدردی کے طور پر دیکھتے ہیں۔پاکستانی سفیر کے مطابق امریکی عوام القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے اقدام نہیں چاہتے اور وہ پاکستانی موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ ایف 16 جہاز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مفید آلہ ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف سولہ جہازوں کی مد میں فنڈز جاری کرنے سے اوباما انتظامیہ کو روک دیا تھا، مگر پاکستانی سفیر کو امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد دنوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے، کیوں کہ نئی انتظامیہ میں کئی ایسے ریٹائرڈ جنرل شامل ہیں جنہوں نے پاک، افغان خطے میں کام کیا ہے۔گزشتہ دنوں جلیل عباس جیلانی نے امریکی میڈیا کو دیے گئے ظہرانے سے خطاب کیا، پاکستانی سفیر آئندہ ماہ اپنی مدت پوری کر رہے ہیں، جس کے بعدخارجہ سیکریٹری اعزاز احمد چوہدری امریکا میں سفیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے بھی کردار ادا کرے گی۔انہوں نے یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ منتخب نائب امریکی صدر مائیک پینس نے حال ہی میں کشمیر تنازع کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے سمیت کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیائی خطے میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ادھر نامزد امریکی وزیر دفاع نے اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان کی سلامتی اور تحفظ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ پاکستان سے فاٹا میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان مشترکہ اسٹریٹجک مفادات والے علاقوں سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ’دہشت گردی اور بغاوت کے خلاف جاری جنگ میں امریکا کے اسٹریٹجک سامان کی افغانستان ترسیل کے لیے پاکستان کی فضائی اور سمندری حدود امریکا کی معاون ہوتی ہیں‘جب کہ بحیرہ عرب میں لوٹ مار کے تحفظ میں بھی پاکستانی مدد درکار ہوتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی جانب سے امریکا کے ساتھ بھرپور معاونت بلکہ ضرورت اور طلب سے زیادہ معاونت ،جس کو امریکی حکام بھی تسلیم کرتے ہیں،کے باوجود گزشتہ 5سال کے دوران پاکستان کو فراہم کی جانے والی امریکی سیکورٹی معاونت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی معاونت کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار سے پتا چلتاہے کہ 2011 سے اب تک پاکستان کیلیے امریکی سیکورٹی معاونت میں 73 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس (سی آر ایس) کی مرتب کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ 2011 سے اب تک پاکستان کو فراہم کی جانے والی عسکری اور اقتصادی معاونت میں کمی آئی ہے۔کانگریس کے سامنے پیش کرنے کے لیے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ میں نہ صرف 2002 سے 2015 کے دوران پاکستان کو فراہم کی جانے والی عسکری و اقتصادی معاونت کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ مالی سال 2016 اور 2017 کے لیے مختص کردہ امداد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2011 سے اب تک پاکستان کو دی جانے والی معاشی امداد میں 53 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کے انکشاف اور پاکستانی چیک پوسٹ سلالہ پر امریکی فضائی حملے میں24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ آنا شروع ہوا۔اگست کے اوائل میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے پاکستان کو فوجی امداد کی مد میں 30 کروڑ ڈالر جاری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیاں نہیں کررہا تاہم پاکستان اس الزام کو یکسر مسترد کرتا ہے۔پاکستان کو سیکورٹی کی مد میں امریکا سے ملنے والی امداد کا حجم 2011 میں 1.3 ارب ڈالر تھا جو 2015 میں 73 فیصد کمی کے بعد 34 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہ گیا۔اسی طرح پاکستان کو دی جانے والی معاشی امداد 2011 میں 1.2 ارب ڈالر تھی جو 2015 میں کم ہوکر 56 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہوگئی۔سی آر ایس کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی جریدے ’’دی ایٹلانٹکس نیوز سروس، دی وائر‘‘ نے لکھا کہ امریکا سے رنجش پاکستان کو اس کے دوست ملک چین سے مزید قریب کرسکتی ہے۔
دی وائر کے تجزیہ کار کاکہنا ہے کہ 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کی معطلی کبھی قریبی اتحادی سمجھے جانے والے ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اشارہ ہے اور یہ معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔معطل ہونے والی 30 کروڑ ڈالر کی امداد پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنی تھی جس کے تحت 2002 سے اب تک امریکا 14 ارب ڈالر فراہم کرچکا ہے۔سی آر ایس کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے 2014 کے دوران پاکستان کی مجموعی فوجی اخراجات میں سے کولیشن سپورٹ فنڈ کا حصہ 20 فیصد تھا۔ پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کے وقت امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنے فضائی اور بحری اڈوں کے استعمال کی اجازت دے کر کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں اس کا بدلہ حاصل کیا اور اس دوران افغان سرحد کے اطراف تقریباً ایک لاکھ فوجی تعینات تھے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی امداد کا تقریباً نصف حصہ خوراک اور جنگی ساز و سامان پر خرچ کیا گیا۔سی آر ایس کے اعداد و شمار کے مطابق 2002 سے 2015 کے دوران امریکا کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی مجموعی امداد 32.2 ارب ڈالر میں سے کولیشن سپورٹ فنڈ کا حصہ 43 فیصد ہے۔اسی طرح معاشی امداد کا حصہ 33 فیصد (10.6 ارب ڈالر) اور سیکورٹی امداد کا حصہ 24 فیصد (7.6ارب ڈالر) رہا ہے۔امریکی میڈیا نے پاکستان کے لیے امریکی امداد میں کمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور وہاں 20 ہزار 877 عام شہری اور 6 ہزار 370 سیکورٹی اہلکار 2003 سے 2015 کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔امریکی میڈیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشتگردی کی وجہ سے 2004 سے 2015 کے دوران پاکستانی معیشت کو 115 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک مثال ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاہدے کی منسوخی بھی ہے۔
امریکا نے فارن ملٹری فنانسنگ پروگرام کے تحت پاکستان کو 27 کروڑ ڈالر کی رعایتی قیمت میں 8 ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم کانگریس کی شدید مخالفت کی وجہ سے مئی میں یہ منصوبہ منسوخ کردیا گیا جسکے بعد پاکستان طیاروں کی اصل قیمت یعنی 70 کروڑ ڈالر ادا کرکے انہیں خرید سکتا ہے۔دی وائر لکھتا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو طیاروں کی فروخت سے انکار کو بھارت میں سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا کیوں کہ انڈین حکومت اور بھارتی نژاد امریکی اسکے خلاف کانگریس میں کافی سرگرم تھے۔جریدے کا مزید کہنا ہے کہ ان اقدمات سے امریکا کی پاکستان کے حوالے سے موقف میں آنے والی تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے جو کئی دہائیوں سے امریکی سبسڈیز سے فائدہ اٹھارہا ہے اور امریکی امداد کی وجہ سے اس کی عسکری صلاحیتوں اور ساز و سامان میں اضافہ ہوا ہے۔
سی آر ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان 2001 سے امریکا سے 1.2 ارب ڈالر کے ویپن سسٹمز وصول کررہا ہے جن میں 47 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کے 8 پی تھری سی اورین میری ٹائم پیٹرول ایئرکرافٹ اور 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے 20 اے ایف 1 ایف کوبرا اٹیک ہیلی کاپٹرز شامل ہیں۔گزشتہ برس اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ نے 95 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے فوجی ساز و سامان کی پاکستان کو فروخت کی منظوری دی تھی جس میں 15 اے ایچ 1 زیڈ وائپر اٹیک ہیلی کاپٹرز اور ایک ہزار ہیلفائر 2 میزائلز شامل تھے۔اس کے علاوہ 5 اپریل 2016 کو امریکا نے پاکستان کو مذکورہ ہیلی کاپٹرز کی خریداری کے لیے 17 کروڑ ڈالر فراہم کرنے اور اضافی فیول کٹس دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔پاکستان امریکا سے 60 ایف سولہ اے/ بی طیاروں کے لیے 89 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کے اپ ڈیٹڈ کٹس بھی حاصل کررہا ہے جن میں سے 47 کروڑ 70 لاکھ ڈالر امریکا ادا کررہا ہے۔2001 سے پاکستان امریکی ہتھیاروں کی مد میں 2.5 ارب ڈالر کی ادائیگی کرچکا ہے یا اب بھی کررہا ہے۔
امریکا کے ایکسس ڈیفنس آرٹیکلز (ای ڈی اے) پروگرام کے تحت پاکستان نے 14 ایف سولہ اے / بی فائٹنگ فیلکن ایئرکرافٹ اور 374 ایم 113بکتر بند گاڑیاں رعایتی قیمتوں میں حاصل کیں۔ای ڈی اے ویپنز وہ استعمال شدہ ہتھیار ہیں جو امریکا نے افغانستان سے انخلاکے دوران پاکستان کو دیے ہیں۔کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت امریکا پاکستان کو 26 بیل 412 ای پی یوٹیلٹی ہیلی کاپٹر فراہم کرچکا ہے جن کی مالیت 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہے۔پاکستان کائونٹر انسرجنسی فنڈ سے امریکا نے فرنٹیئر کور کے لیے 450 گاڑیاں، چار ایم آئی 17 ملٹی رول ہیلی کاپٹرز اور دیگر ساز و سامان فراہم کیے ہیں، یہ پروگرام 2013 میں ختم ہوگیا تھا۔امریکا نے پاکستان کے تقریباً 2 ہزار فوجی افسران کی تربیت کے لیے بھی فنڈنگ کی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ عسکری و معاشی معاونت میں کیا رنگ ڈھنگ دکھاتی ہے ۔


متعلقہ خبریں


طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...

طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے وجود - هفته 19 اپریل 2025

  اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم وجود - هفته 19 اپریل 2025

قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

روس نے 2003میں افغان طالبان کو دہشت گردقرار دے کر متعدد پابندیاں عائد کی تھیں 2021میں طالبان کے اقتدار کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر عائد پابندی معطل کرکے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نام نکال دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے ...

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 18 اپریل 2025

وزیراعظم نے معیشت کی ڈیجیٹل نظام پر منتقلی کے لیے وزارتوں ، اداروں کو ٹاسک سونپ دیئے ملکی معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کیلئے فی الفور ایک متحرک ورکنگ گروپ قائم کرنے کی بھی ہدایت حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں ا...

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں،مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے ، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، 18ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز ا...

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  قابل ٹیکس آمدن کی حد 6لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے، ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے ،تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا ، ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی، ب...

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو فیملی اور وکلا سے نہیں ملنے دیا جا رہا، جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بانی سے ملاقات کیلئے بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن...

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  پنجاب، جہلم چناب زون کو اپنا پانی دینے کے بجائے دریا سندھ کا پانی دے رہا ہے ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ، سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے ، وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ حکومت کے اعتراضات کے باوجود ٹی پی لنک کینال سے پانی اٹھانے کا سلسلہ بڑھا دیا گیا، اس سلسلے میں ...

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ

مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر