... loading ...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایسے قیدی بن گئے تھے کہ سوچ بھی ایک جگہ آکر رک سی گئی تھی۔ دوستوں سے ذکر کیا تو سب نے یہی بتایا کہ یہاں آنے سے کچھ عرصے بعد ایسی کیفیت آجاتی ہے جب زندگی اور اس سے جڑی ہر چیز رکی ہوئی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کچھ دوستوں نے اس کیفیت کو سوتے جاگتے کے درمیان کی سی کیفیت قرار دیا ۔دوستوں کا کہنا تھا یہ نیم بے حسی جیسے کیفیت اس دیار غیرمیں زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے کچھ دوستوں نے عمرہ ادا کرنے کا مشورہ دیا ہم بھی ریاض آنے کے بعد سے عمرہ ادا کرنے کے لیے جانے کا سوچ رہے تھے۔ بیت اللہ شریف کا دیدار ہر مسلمان کی طرح ہمارے دل کے نہاں خانے میں بسا ہوا تھا۔دعا تھی کہ اللہ پاک ایک موقع دے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کرسکیں اور ان مقامات کا طواف اور زیارت کرسکیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو پیارے ہیں۔ ہماری چھٹی جمعے کو ہوتی تھی اس لیے ہم دو دن یعنی بدھ اور جمعرات کی چھٹی لیکر عمرے کیلیے نکل جاتے تو آسانی اور سہولت کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے بعد جمعے کی رات کو واپس آسکتے تھے۔ ہم نے اپنے انچارج سیمی سے دو دن کی چھٹی کی بات کی لیکن سیمی دو دن کی چھٹی پر راضی نہیں تھا اس کا کہنا تھا ہم صرف ایک دن یعنی جمعرات کی چھٹی لیں۔ ہم دو دن کی چھٹی پر اڑے ہوئے تھے۔ آخر سیمی ہمیں دو دن کی چھٹی دینے پر رضامند ہوگیا۔ طے پایا کہ ہم منگل کی شام کو مکہ المکرمہ کے لیے نکل جائیں گے اور جمعے کی رات کو واپس ریاض پہنچ جائیں گے۔ ہفتے کے روز ہم بطحہ گئے اور وہاں موجود ایک عمرہ سروس میں منگل کے لیے بکنگ کروادی۔ وہیں سے ہم نے احرام اور دیگر اشیا بھی خرید لیں۔ منگل کو ہم ولا سے ضروری سامان کا بیگ لیکر کالج گئے وہاں سے واپسی پر بطحہ اتر گئے، وہاں اپنی عمرہ سروس پہنچے جہاں بس مکہ جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ تقریبا پانچ بجے بس روانہ ہوئی، دل پر ایک انجانے سرور کی کیفیت طاری تھی۔ بس میں تمام عازمین عمرہ تھے جو ذکرو اذکار میں مصروف تھے۔ لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کی جا رہی تھیں۔ راستے میں مغرب اور عشا کی نماز کے لیے بس رکی، جہاں لوگوں نے نماز پڑھنے کے علاوہ رات کا کھانا بھی کھایا۔ ریاض سے مکہ المکرمہ کا فاصلہ تقریبا875 کلومیٹر ہے۔ صبح فجر سے بہت پہلے ہماری بس میقات پر پہنچ گئی، یہاں رکنا ضروری ہے یہیں سے غسل کے بعد احرام باندھا جاتا ہے۔
میقات حدود حرم کو کہتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے لیے “ذو الحلیفۃ”، “قرن المنازل”،” یلملم”، “الجحفۃ” اور “ذات عرق” وہ پانچ میقاتیں ہیں جہاں مشاعر مقدسہ کا رخ کرنے والے قافلوں کا ٹھہرنا ناگزیر ہے۔ شرعی طور پر یہاں رکنا ایک دینی فریضہ ہے جہاں حجاج کرام حج کی ادائیگی کی نیت کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور میقات “مسجد التنعیم” کا بھی اضافہ ہوا ہے جو مکہ کے رہنے والے مقامی یا مقیم افراد کے حج کے لیے میقات شمار کی جاتی ہے۔
قرن المنازل کو نجد اور خلیج کے عرب ممالک کے حجاج کرام کی میقات سمجھا جاتا ہے۔ حجاج کرام کے ایک منتظم علی السعدی کے مطابق طائف میں “الھدا” کے راستے کے افتتاح نے ایک متوازی میقات بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو کہ اس وقت ” وادی محرم” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس نئے مقام نے ریاض کے مشرق اور جنوبی علاقوں سے آنے والے حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ خلیج کے عرب ممالک کے بھی بہت سے حجاج کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ میقات پر احرام باندھا جاتا ہے علمائے کرام کا کہنا ہے جب عمرہ کا احرام باندھنا چاہیں تو مسنون طریقہ یہ ہے میقات پر یا میقات سے پہلے ناخن تراشیں، زیر ناف اور بغلوں کے بال صاف کریں، غسل کریں ، اچھی خوشبو لگائیں اور دو سفید چادریں لے لیں، ایک چادر تہبند کی طرح باندھ لیں اور ایک چادر کو اوڑھ لیں، خواتین اپنا عام لباس ہی پہنیں ، ہاں نقاب ، برقع اور دستانے نہ پہنیں اور میقات پر اگر فرض نماز کا وقت ہو تو نماز پڑھیں اور پھر لبیک عمرہ کہہ کر نیت کرلیں اور تلبیہ کہنا شروع کردیں۔ ہم نے قرن المنازل کے میقات پر احرام باندھا۔ میقات سے ہماری بس مکہ المکرمہ کے لیے روانہ ہو گئی۔۔۔
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...