... loading ...
بارش نے شہر کا بُرا حال کر رکھا تھا۔ اور میری جیکٹ کی جیب میں مسلسل فون بج رہا تھا۔ کمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے میں نے فون نکالا تو موبائل فون کی اسکرین پر جو نام اُبھرا اس کو دیکھ کر میں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا، یہی امید تھی میں نے موبائل کان سے لگایا تو بھابی کی آواز تھی ،وہ کافی پریشان لگ رہی تھیں ۔کہنے لگیں احمد بھائی جبران ابھی تک گھر نہیں آئے 6 یا 7 بجے آجاتے ہیں 9بجے رہے ہیں مگر وہ ابھی تک نہیں آئے ۔موبائل فون ان کا آف ہے سب جاننے والوں کو کال کرلی ،کسی کو نہیں معلوم، سب نے کہا احمد بھائی کو کال کریں ،اُن ہی کو معلوم ہوگا کہ جبران کہاں ہے؟ بھائی آپ کو معلوم ہے، جبران کہاں ہیں؟ میں نے کہا بھابی مجھے معلوم تو نہیں، لیکن کچھ دیر میں اس سے رابطہ کرکے آپ کو بتاتا ہوںآپ فکر نہ کریں، میں اُسے ڈھونڈلوں گا ۔میں نے واپس چابیاں اُٹھائیںاور سی ویو کے راستے پر چل پڑا ،بارش کی وجہ سے موسم خوشگوار ہورہا تھا،راستے میں ٹریفک کا ایسا رش تھا سبھی لوگوں کو گھروں کو پہنچنے کی جلدی میں دیکھ کر گمان ہورہاتھا کہ شہر میں سب کی پسند کی شادیاں ہوئی ہیں ۔
جبران میرا بچپن کا دوست ہے انتہائی خوش شکل اور مضبوط جسم کا مالک ، ایم اے انگلش کرکے ایک سرکاری ادارے سے منسلک ہوگیا ، کئی مرتبہ کراچی سے باہر پوسٹنگ ہوئی مگر 6 ماہ سے پہلے واپس کراچی آجاتا ہے، کراچی سے اس کو عجیب الفت ہے ۔ماحولیاتی آلودگی پر جتنی معلومات جبران کو ہے شاید ہی کسی کو ہو ؟اگر کوئی اس سے کراچی میں رہائش کے متعلق پوچھے تو اسے مشورہ دے گا کہ یہ شہر کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کی وجہ سے انتہائی آلودہ ہوچکا ہے لہٰذا یہاں مت رہو، کسی چھوٹے شہر میں رہنے کو ترجیح دو ،اپنا حال یہ ہے کہ اگر کوئی جبران کو کروڑ روپے دے تب بھی جبران کراچی نہ چھوڑے۔ میں جیسے جیسے سی ویو کے قریب آتا جارہا تھا ویسے ویسے میری آنکھوں کے سامنے یونیورسٹی کے دنوں کی یادیں کسی کہانی کے خوبصورت مناظر کی طرح آتی جارہی تھیں، جبران اپنی کلاس کا انتہائی ذہین لڑکا تھا مگر ذہانت سے کیا ہوتا ہے ؟جو ہاتھ کی لکیروں میں نہ ہوں وہ لاکھ کوشش کرنے کے باوجود تقدیر تو نہیں پاتے ؟ سی ویو سے گزر کر میں اب دو دریا کی طرف آگیا تھا اور اب مجھے پکا یقین تھا کہ وہ کچھ دیرمیں مجھے یہاں کسی جاچکے شخص کی یادوں کے ساتھ بیٹھا مل جائے گا ۔اور ایسا ہی ہوا مجھے اس کی سرکاری نمبر پلیٹ والی جیپ نظر آگئی۔ میں نے گاڑی سڑک سے اُتارتے ہی بند کردی، کسی کی یادوں میں میرے آنے کے شور سے خلل پڑے، یہ مناسب بات نہیں۔ میں پیدل چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور رک گیا۔ بوندا باندی پچھلے کئی گھنٹوں سے جاری تھی ۔وہ سمندر کی طرف رخ کیے بیٹھا تھا۔ بارش کے قطرے اس کی کالی لیدر کی جیکٹ کو کافی گیلا کرچکے تھے۔ یہاں وہ تھا اس کی یادیں اور سمندر کی لہروں کا پتھروں سے ٹکرانے کا شور ، کبھی کبھی دور سڑک سے گزرتی کسی سواری کی آواز بھی آجاتی تھی ۔یہ اس کا برسوں کا معمول تھا وہ ہر بارش میں ایسے ہی یادوں کی چادر اوڑھے اسی مقام پر آبیٹھتا تھا۔ یہ اس کا معمول تو ہمیشہ تھا مگر سردیوں کی بارش میں اس کا عجیب حال ہوتا تھا ۔میں پچھلے کئی سالوں سے ہر بارش میں اسی جگہ پر جبران کو یادوں کے ساتھ بیٹھا دیکھتا آیاہوں ۔اسے سمجھانا بالکل فضول کام تھا۔ بلکہ ایسا تھا، جیسے کسی شخص پر کوئی جادو کردے اور میڈیکل اس کے علاج سے قاصر ہو ،ایسا ہی جبران کا حال تھا۔ میں چپ چاپ اس کے برابر جا کربیٹھ گیا، اور دیر تک ہم تینوں آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے میں، جبران اور یادیں۔ ہم تینوں بہت دیر تک بس چپ چاپ سمندر کی لہروں کو دیکھتے رہے۔
میرے ایک مرحوم بزرگ دوست ڈاکٹر پرویز صاحب کہا کرتے تھے کہ پسند کا دوست ساتھ ہوتو اس کی خاموشی کو بھی انسان انجوائے کرتا ہے ۔مجھے معلوم تھا کہ تم مجھے تلاش کرلو گے جبران نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ،وہ اب بھی سامنے لہروں کو دیکھ رہا تھا میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کب تک یہ کرتے رہو گے ؟ چلے جانے والوں کا غم کب تک مناتے رہو گے ؟ یہاں لوگ صدیوں پہلے گئے اماموں کو آج بھی ایسے روتے ہیں جیسے کل کی بات ہو، میرے بچھڑے کو تو ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے؟ وہ پری زاد آج بھی ان ہی ہواؤں میں سانس لیتا ہوگا ، میں نے سمندر کی طرف دیکھ کر کہا، جبران تم اسے یاد کرنا چھوڑ دو۔بھابھی اور اپنے بیٹے کا سوچو ،بھابھی کو شک ہوگیا۔ تو کیا ہوگا؟ وہ اطمینان سے آنکھیں بند کیے کہنے لگا ، کون کمبخت یاد کرتا ہے؟ سانس کی روانی کے ساتھ اگر کوئی یاد بن کر رہنے لگے۔ تو میں اسے کیسے روکوں؟ اس نے پہلی مرتبہ میری طرف دیکھا اپنا چشمہ اتارا، شرٹ کی جیب سے آدھا گیلا آدھا سوکھا ٹشو پیپر نکال کر آئینہ صاف کرتے ہوئے بولا، یار سردیاں کم عذاب ہوتی ہیں ؟ اوپر سے بارش کی قیامت ؟ وہ دن تمہیں یاد ہیں ؟ جب آخری بار اسائنمنٹ جمع کروانے کے لیے تم اور میں یونیورسٹی گئے تھے اور اسے آخری مرتبہ دیکھا تھا، میں نے سفید رنگ کسی زندہ انسان پر اس دن سے پہلے اتنا خوبصورت پہنانہیں دیکھا تھا۔ اس روز بھی بارش ہورہی تھی اور موسم بھی سرد تھا ؟ اس روز کے بعد سے مجھے بارش میں بھیگنا اور بارش کو اکیلے محسوس کرنا اچھا لگتا ہے۔احمد موسم بھی تو کسی کی یاد بن کر ہرسال ہی آجاتا ہے نا۔ اور یاد بھی ایسی، جس میں کوئی روح تو ساتھ لے گیا ہو،اور جسم دربدر بھٹکنے کے لیے چھوڑ گیا ہو۔ میں نے کہا، تو تم اسے اس روز روک لیتے نا؟جبران آسمان کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا احمد کون رکتا ہے یار؟ لوگ بہت مجبور ہوتے ہیں بڑوں کے سامنے اپنی پسند کا اظہار کرکے ان کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ہی کچھ لوگوں کو عمر بھر کی قید تنہائی میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور بارش کے قطرے اس کے چہرے پر گر کر اُچھل رہے تھے ، محبت بھی عجیب چیز ہے۔ میں نے جبران سے کہا، اس نے بغیر کسی پہلو کو بدلے کہا ، تمہیں کیا معلوم محبت کیا ہوتی ہے؟ محبت احساسات اور جذبات کے زاویے بدل دیتی ہے۔ جس سے محبت ہو، وہ اگر کسی نالے کے پاس رہتا ہو، تویقین کرو اس نالے سے محبت ہوجاتی ہے ، جیسے اس نالے کے بارے میں پوری دنیا کے احساسات ہوتے ہیں ویسے جذبات کوئی چاہ کر بھی پیدا نہیں کرپاتا۔میںخاموشی سے اُسے سن رہا تھا ، جبران نے سیدھے ہاتھ کو سامنے لاکر انگلیوں کی مدد سے مٹھی بنائی اور کہنے لگا، دیکھو اس میں کسی کا دل ہوتا ہے، پھر اس نے تھوڑی سے مٹھی ڈھیلی کرکے پھر سخت کرلی اور کہنے لگا جب یہ مٹھی بند ہوتی ہے اور جیسے ہی دل کو درد ہونے لگتا ہے وہ مٹھی ڈھیلی کرلیتے ہیں تاکہ سانس آجائے پھر وہ مٹھی بند کرلیتے ہیں پھر درد ہوتا ہے وہ پھر ڈھیلی کردیتے ہیں، نہ مکمل مٹھی کو بند کرتے ہیں نہ مکمل ڈھیلا ،درد کی اس کیفیت کو محبت کہتے ہیں ، وہ یونیورسٹی کے بوڑھے پروفیسر کی طرح سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا ۔ اس نے ایک لمبا سانس لیا جیسے ہوا میں اسے کسی کی خوشبو محسوس ہوئی ہو پھر کہنے لگا لوگ اس تاریخ کو جس تاریخ کو کوئی پہلی بار ملا ہو اس دن اور وقت کو جب پہلی بار کسی نے اظہار کا مثبت جواب دیا ہو ، اس ہوٹل کو جہاں بیٹھ کر کافی پی ہو ، اس ٹیبل کے نمبر کو، جس کے گرد باہم بیٹھے ہوں ،اس کرسی کو جس پر وہ بیٹھا تھا ، اس ویٹر کو ، جو انہیں اکثر سروو کرتا تھا، حتیٰ کہ، احمد، لوگ تو رقیب کو بھی یاد رکھتے ہیں ۔بلکہ لوگوں کو تو رقیب تک سے محبت ہوجاتی ہے ۔وہ فیض نے کیا کہا ہے کہ
آکر وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنارکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پر بھی برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی رتوں کی کسک باقی ہے
تونے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصورمیں لٹادی ہم نے
تجھ پر اٹھی ہیں وہ کھوئی کھوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوادی ہم نے
وہ چپ ہوا تو اسی لمحے بھابھی کا فون آگیا۔ بھائی جبران ملے آپ کو ؟ میں نے جبران سے کچھ دور جا کر کہا جی بھابھی مل گیا ہے ۔ایک آفس کے کام میں مصروف ہے میں اس کے ساتھ ہی ہوں اور آج وہ میرے ساتھ ہی رک جائے گا۔میں فون بند کرکے واپس جبران کے پاس آیا۔ وہ اب تک یادوںسے لپٹا بیٹھا تھا۔ میں نے کہا، تم نے اپنی کیا حالت بنارکھی ہے؟اس نے کہا
یہ کیا سب بیاد دل کی باتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئی محبتیں کرنی
چھوڑو سب باتیں نصیحت کی، میرے دوست ، چاند دیکھو، میںخاموشی سے اس کے پاس بیٹھ گیا اور محبت کے سمندر کے کنارے ڈوبتے انسان کو ، یہ گنگناتے سنتارہا اور کسی ادھورے شخص پر ٹوٹتی یادوں کے عذاب کو دیکھتا رہا۔
بارش میں تم بہت یاد آتے ہو
تم یاد بن کر دل میں اتر جاتے ہو
تم ستاتے ہو تم رُلاتے ہو
تم دل کا درد بن کر آزماتے ہو
بارش میں تم بہت یاد آتے ہو
٭٭
کراچی میں بارشیں کیا ہوئیں شہر جل تھل ہوگیا۔ ہر جگہ پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ کے ایم سی افسران منظر نامہ سے غائب رہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز مسعود عالم نے بیرون ملک جانے کی میئر وسیم اختر سے چھٹی لی اور چلتے بنے۔ یہ بات عالم آشکار ہے کہ ایم کیو ایم...
کراچی میں بارش نے شہر قائد کوجل تھل کردیا ۔بارش کی ابتدا میں لوگوں نے بارش کو خوب انجوائے کیا مگردو دن کی باران رحمت کوانتظامیہ کی غفلت نے زحمت بنا دیا۔شہر قائد میں دو دن کی موسلا دھار بارش کے بعد مختلف علاقے تالاب اور سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگی ہیں۔کراچی میں موسم بدستو...
کراچی میں بارش ہو گئی مبارک ہو۔ بارشوں سے عام طور پر سڑکیں دْھل جاتی ہیں لیکن کراچی میں سڑکیں ڈوب اور شہری رْل جاتے ہیں۔ سڑکوں پر صرف پانی جمع ہو تو ذرا احتیاط سے گاڑی چلاتے ہوئے گزرا جا سکتا ہے لیکن بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں پر صرف پانی ہی نہیں اس میں تیرتا ٹنوں کچرا بھی مسائل...